لڑکے لڑکیوں اور والدین کیلئے
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ گھل مل جانا چاہئے، انہیں ہر قسم کے سوالات کرنے اور اپنے اندر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں جوابات حاصل کرنے کے مواقع دینے چاہئیں تو اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ کی اولاد مندرجہ بالا نفسیاتی اور معاشرتی امراض سے بچی رہے
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کائنات میں انسان کو جن مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے ان سب مسائل کا حکیمانہ حل اسلام میں موجود ہے لیکن ہم حقائق سے نظریں چراتے ہیں اور جہاں زندگی کے ان گنت دوسرے چھوٹے بڑے معاملات میں جھوٹ اور فریب کاری سے کام لیتے ہیں ہمیں وہاں انسانی زندگی کے سب سے اہم اور نازک اور پیچیدہ مسئلے یعنی انسانی جنسی جبلت کے بارے میں بھی دروغ گوئی سے کام چلاتے چلے آرہے ہیں جبکہ اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ ہمیشہ سچ بولا جائے اور سچ کے لئے اگر جان بھی دینا پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے لیکن ہم ہیں کہ اپنے بچوں کے مستقبل کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے سچ کے اظہار کے لئے اپنی زبان کو حرکت میں لانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ اس علم کے بارے میں کراہت آمیز سوچ کو پہلے اپنے دماغ سے نکال کر باہر کیا جائے۔ اپنے بچوں کے معصوم اور حقیقی سوالوں کو نظر انداز کرنے پر غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ نے لڑکی میں تبدیلی پیدا کرکے لڑکی کو ماں جیسا عظیم اور مقدس رشتہ عطا کردیا ہے جو ایک عظیم اور قابل احترام رشتہ ہے۔
بچے اپنے گھر اور معاشرے کے مخصوص حالات اور تقاضوں کی وجہ سے اپنی ان تبدیلیوں کو بڑوں سے خوف کی وجہ سے چھپا لیتے ہیں اور لڑکپن کی بے فکری کی جگہ خوف اور ڈر لے لیتا ہے اور یہی خوف اور ڈر بچوں میں مختلف ذہنی امراض کا سبب بن جاتا ہے۔ خصوصاً ہمارے ہاں چونکہ بچوں کو ان تبدیلیوں کے بارے میں ازخود کچھ بتانے کا رواج نہیں ہے اس لئے اس مقام پر بچوں میں دو طرح کے رجحان پیدا ہوجاتے ہیں اولاً خودلذتی میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں بچہ ایک قسم کے احساس جرم میں مبتلا رہنے لگتا ہے اور اپنی ہی ذات کے خول میں بند ہوکر رہ جاتا ہے۔ ثانین خودسری اور سرکشی پیدا ہوجاتی ہے۔ لڑکیوں میں چونکہ شرم و حجاب کاا عتراض اور گھریلو پابندیاں زیادہ ہوتی ہیں اس لئے وہ خودسر اور سرکش نہیں ہوسکتیں تاہم ان کے اندر یہ جز بہ ضرور موجود ہوتا ہے جس کا ردعمل اکثر و بیشتر اچھا نہیں ہوتا۔ لڑکی ذہنی مریضہ بن جاتی ہے یا جذباتی گھٹن کی وجہ سے بعض جسمانی امراض میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات نوبت ہسٹریائی دورے تک پہنچ کر پیچیدہ شکل اختیار کرلیتی ہے لیکن اکثر لڑکے اس عمر میں آوارہ ہوجاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ چونکہ باہر کا ماحول بہت خراب ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ لڑکے کی اپنی ذات کے اندر کا ماحول خود خراب ہوچکا ہوتا ہے۔ یہ ہمارا اور آپ کا فرض ہے کہ جب بچہ بارہ یا تیرہ سال کا ہوجائے تو اسے اس کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بتاکر اسے ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔
لڑکپن کا اختتام اور جوانی کے آغاز کا دور بچوں کے لئے ایک انتہائی اہم موثر ہوتا ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب بچوں میں جنسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ خصوصاً لڑکیوں میں یہ تبدیلیاں زیادہ نمایاں اور صاف نظر آنے لگتی ہیں۔
اپنے بچوں کو جنسی تعلیم کیلئے سکول کالج یا گھروں کے سپرد نہ کریں بلکہ انہیں نیک بزرگوں کی صحبت میں بٹھائیں اور اولاد سے تاکید کریں اور اس کی نگرانی کریں کہ پانچ وقت کی نماز لڑکے مسجد میں باجماعت ادا کریں اور لڑکیاں اپنے وقت پر گھر پر ادا کریں۔ قرآن پاک کی تلاوت کریں ۔فحش کتابوں‘ لٹریچر ‘ افسانوں ‘ ناولوں کے قریب نہ آنے دیںاگر دیکھیں کہ آپ کے بچے کے اندر ہیجانی کیفیت زیادہ بڑھی ہوئی ہے غصہ زیادہ کرتا ہے چڑچڑا پن کام سے نفرت پیدا ہورہی ہے تو ایسی صورت میں بچے کو جذبات اور نفس پر پوری طرح قابو پانے کے مواقع فراہم کرنا ضروری ہے۔ باہر کا ماحول اس قدر غلیظ ہوچکا ہے کہ ساری فضا پر جنس اور جنسی آوارگی چھاگئی ہے۔ غیر ملکی فحش فلمیں لٹریچر اور ننگی تصویروں کی بھرمار ہے اگر آپ اپنے بچوں کو جنسی امور سے بے خبر رکھیں گے تو یہ راز باہر سے معلوم کرلے گا اور باہر سے جو معلومات حاصل کرے گا وہ تخریبی ہوں گی جو بچے کو خودلذتی یا ہم جنس پرستی اور بدکاری کی طرف لے جائیں گی۔ تو کیا اس چیز سے بہتر نہیں کہ آپ بچے کو ازخود وہ معلومات مہذب طریقے سے فراہم کریں جن کے لئے وہ بھٹک سکتا ہے۔
آج کی نوجوان نسل کو خصوصاً ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر اور ڈش کے چیلنجوں کا بھی سامنا ہے اور اس پر مستزاد جنس مخالف سے میل جول کے مواقع بھی۔ جو آج سے کچھ عرصہ پہلے تک کبھی اس طرح میسر نہ تھے جو بچہ پندرہ سولہ سال کی عمر تک سن بلوغت کو پہنچتا تھا اب وہی تیرہ چودہ سال کی عمر میں سن بلوغت کو پہنچنے لگا ہے اور جنسی معلومات کے حوالے سے بھی یہ نسل پرانی نسل سے کہیں زیادہ آگے ہے۔ والدین پچیس سال کی عمر کے بچے کو اپنا مستقبل بنانے کا درس دینے میں لگے رہتے ہیں پھر جب اولاد کسی مقام پر پہنچ جاتی ہے تو اس کے برابر کا رشتہ تلاش کرنے میں مزید وقت گزار دیتے ہیں اب اس دور میں ہو کوئی ولی کامل تو ہو نہیں سکتا جو ان تمام خرافات سے کان لپیٹ کر اور لاحول ولا قوة کہتے ہوئے گزر جائے۔ ان کی اکثریت جنسی تشنگی کو پورا کرنے کے لیے مختلف راستے تلاش کرتی ہے جس کے نتیجے میں اکثریت تو گناہ بے لذت کا راستہ اختیار کرتی ہیں جب کہ کچھ ہم جنس پرستی اور جن کے پاس وسائل و ذرائع موجود ہوں جنس مخالف سے بھی تعلقات قائم کرلیتے ہیں۔ ایسے بچے مخصوص ماحول کے سبب بزرگوں کے سامنے اپنی لغزشوں کے ظاہر ہونے سے خوف زدہ رہتے ہیں جس کے لازمی نتیجے کے طور پر مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں جن میں چڑچڑا پن بات بات پر جھگڑا تنہا اور اکیلا رہنا گھٹن گرد و پیش سے نفرت اور کئی دیگر نفسیاتی امراض شامل ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ گھل مل جانا چاہئے، انہیں ہر قسم کے سوالات کرنے اور اپنے اندر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں جوابات حاصل کرنے کے مواقع دینے چاہئیں تو اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ کی اولاد مندرجہ بالا نفسیاتی اور معاشرتی امراض سے بچی رہے وہ آپ سے نفرت یا کھنچا کھنچا رہنے اور ڈرنے کی بجائے آپ کو اپنا دوست اور سچا رہنما سمجھ کر آپ سے محبت بھی کرے اور آپ کی محفل میں بیٹھتے ہوئے کوئی حجاب بھی محسوس نہ ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں