کیا آپ کا بچہ چیزیں رکھ کر بھول جاتا ہے۔ بار بار بھولتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے؟ کیا وہ کلاس میں بیٹھ کر اونگھتا رہتا ہے؟۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں ان کی یادداشت بہتر ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر آپ کا بچہ پوری توجہ اور دھیان نہیں دے پاتا تو اس کے رویے میں یہ کسی قسم کی خرابی کا نتیجہ ہو سکتا ہے جسے درست کیا جا سکتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں ایک بچہ اپنی پانچ حِسوں( Senses )کے ذریعے معلومات جمع کرتا ہے‘ وہ سن کر‘ دیکھ کر‘ سونگھ کر‘ چھو کر اور حرکت کر کے یہ کام کرتا ہے۔دوسرے مرحلے میں جسے ہم پروسیسنگ کہتے ہیں وہ سننے اور دیکھنے والی چیزوں کو محسوس کر کے ان کا جائزہ لے کر معلومات کے نتائج اخذ کرتا ہے۔ آخری مرحلہ میں بچے سے امید کی جاتی ہے کہ وہ حاصل کردہ معلومات کا تجزیہ کر کے اپنار د عمل ظاہر کرے۔ مثال کے طور پر الفاظ یادداشت کے بینک سے نکالے جاتےہیں اور ان سے جملے ترتیب دیے جاتے ہیں یا بچہ ذہن پر زور دے کر یاد کرتا ہے کہ انسانی ڈھانچہ دیکھنے میں کیسا لگتا ہے اور پھر سائنس ٹیسٹ میں ڈائی گرام بناتا ہے۔ اس پوری زنجیر میں اگر کوئی ایک کڑی بھی کمزور ہو تو اس کی یادداشت کمزور پڑ جاتی ہے اور بچہ بھول جاتا ہے اور یاد داشت کی کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے۔
ذہنی طور پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں
آخر کچھ بچوں کی یادداشت دوسروں سے بہتر کیوں ہوتی ہے اس میں بہت کچھ بچے کے اپنے شوق کی سطح ‘ماضی کے تجربے اور اس اہلیت پر ہوتا ہے کہ وہ معلومات کو کتنی اچھی طرح سنتا اور محفوظ کرتا ہے۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں ان کی یادداشت بہتر ہوتی جاتی ہے کیوں کہ ان کو ارد گرد کی دنیا کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہوتی ہیں اور وہ پس منظر میسر آتا ہے جس میں وہ اپناتجربہ فٹ کر سکتے ہیں۔زیادہ عمر کے بچے کسی صورت حال کے بارے میں زیادہ تفصیلات زیادہ عرصے تک یاد رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک ممتاز عالمی بچوں کے ماہر ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ آپ اپنے بچوں کو اتنے ہی اعداد و شمار اور حقائق یاد کرنے کے لیے دیں جن کو وہ پنی عمر کے اعتبار سے یاد رکھ سکیں۔ پانچ سال کی عمر تک کے بچے نا خوشگوار واقعات زیادہ یاد رکھتے ہیں مثلاً کسی بلی کی موت اور ڈاکٹر کے پاس جانا ان کی یادداشت میں زیادہ عرصے تک محفوظ رہتا ہے کیوں کہ ذہنی طور پر ایسا دباؤ دھیان میں اضافہ کرتا ہے اور یادداشت میں زیادہ آسانی سے راستہ بناتا ہے۔ اسکول بھی یادداشت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ناقابل برداشت تعلیمی دبائو
چنانچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی کام کی مشق آدمی کواس شعبے میں کامیاب بناتی ہےاور بچوں کو اسکول میں بہت زیادہ ذہنی مشقوں کے مواقع ملتے ہیں۔مگر بد قسمتی سے اس کے الٹ بھی ہو سکتا ہے بعض بچے تعلیمی دباؤ برداشت نہیں کر پاتے اور اس قسم کے جملوں سے بالآخر گھبرا جاتے ہیں کہ فلاں بچے کو کسی جملے کے حروف یاد نہیں ہوتے ‘ فلاں کو ریاضی کےفارمولے یاد نہیں رہتے۔ دھیان دینا درحقیقت اپنی توجہ کو کنٹرول کرنے کی اہلیت ہے۔ذیل میں ایسے اسباب بیان کیے جا رہے ہیں جن سے دھیان برقرار رکھنےمیں دشواری ہوتی ہے۔
دھیان بانٹنے والی آوازیں۔آپ کے جسم کی کیفیت‘دن کو خواب دیکھنا۔بھوک‘فکر و پریشانی ‘کسی موضوع کی ناپسندیدگی یا عدم دلچسپی‘ ٹیلی ویژن پروگراماور موبائل۔ آئیے اب اپنے بچے میں ایسے اسباب سے نجات کے لئے اعتماد میں لیتے ہوئے انہیں درج ذیل اصول اپنانےاور ذہن نشین کروانے کا کہیں ۔اپنے بچے سے کہیے کہ:
یہ کچھ نہیں ہےمیں اسے یاد کر سکتا ہوں۔یہ یقین کر لیں کہ آپ کا ذہن وہ سب کچھ محفوظ کر رہا ہے جوآپ کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔اپنے مضمون میں دلچسپی لیں۔ بور ہو رہے ہیں تو فی الوقت مضمون بدل لیں۔اپنے آپ کو اور خاص طور پر اپنا سیکھنے کا انداز جانئے۔ مثلاً یہ کہ آپ چیزوں کو فہرستوں کے ذریعے فلو چارٹ سے یا پھر ڈ آئیگرام سے زیادہ بہتر یاد رکھتے ہیں۔دھیان بانٹنے والی فہرست سامنے رکھیں اور اسے کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔ جیسے ہی خود کو خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں مصروف پائیں تو انہیں فوراً ایک کاغذ پر لکھنا شروع کر دیں۔ کسی چیز کو یاد کرتے ہوئے کسی ایک پوائنٹ (یعنی گھڑی‘ انگوٹھی‘ انگلیاں‘ دیوار پر کوئی نشان ) پر اپنی نگاہ مرکوز کر لیں۔یاد کرنے کے دوران اپنے ذہن میں اس سے متعلق تصویریں بناتے رہیں۔یاد کرتے ہوئے زبان سے اسے دہرائیں۔ کسی معلومات کو دیکھ کر اسے اپنی نوٹ بک میں لکھیں۔گھر میں45 منٹ پڑھنے کے بعد پانچ سے دس منٹ کا وقفہ کریں۔جب تازہ دم ہوں تو سب سے مشکل مضمون اٹھائیں۔ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ ایک وقت میں کتنا یاد کرنا ہے اوراپنی یاد کرنے کی حکمت عملی کو آخری شکل دیں۔ یہ وہ چند اصول ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف آپ کے بچے کی بلکہ آپ کی یادداشت بھی بہتر ہو سکتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں