جو میں نے دیکھا‘ سنا اور سوچا
غریب مرگیا‘ سفید پوش پٹ گے‘ برباد ہوگئے
میرے ایک مخلص دیرینہ دوست مجھ سے جب بھی ملتے ہیں مہنگائی ‘غربت کا بہت زیادہ شکوہ کرتے ہیں اس مرتبہ تو حد کردی بادشاہوں کو بُرا بھلا اورحالات کی بہت زیادہ شکوے اور شکایات کہ نقصان ہوگیا‘ برباد ہوگئے‘ غریب مرگیا‘ سفید پوش پٹ گئے‘ مالدار ‘مالدار سے مالدار ہوگیا وغیرہ۔ایک بہت لمبی کہانی تھی جو انہوں نے سنائی جو وہ اکثر سناتے بھی ہیں‘ میں ان کی ساری داستان سنتا رہا‘ میں نے ان سے کچھ سوالات کیے۔1۔ کیا بازار جتنے اب ہیں پہلے تھے‘ گھر توڑ توڑ کر پلازے بنادئیے گئے! اگر مارکیٹیں بنی ہیں خریدار ہیں تومارکیٹیں بنی ہیں اگر خریدار نہ ہوتا مارکیٹیں کیوں بنتیں؟
2۔ موجودہ کوروناوباء میں کیا ہم نے کھانے پینے میں احتیاط کی؟ کھانے پینے اور راشن کی دکانیں‘ ان کی سیل بڑھ گئی‘ یہ پیسے کہاں سے آئے ؟
3۔ جوتوں کی دکانیں‘ کپڑوں کی دکانیں‘ میک اپ کاسمیٹکس جس کا پرانا نام منیاری کی دکانیں تھیں‘ بڑھی ہیں یا کم ہوئی ہیں؟ یہ پیسے کہاں سے آئے تھے؟4۔ اے سی فریج‘ الیکٹرانکس بڑھے یا کم ہوئے تو پھر بادشاہ بجلی کہاں سے لائیں؟ یہ رقم کہاں سے آئی؟5۔ پہلے کتنے سوٹ ہوتے تھے‘ ہر مرد او ہر عورت کے‘ ہر بچے کے‘ اب گھروں کی الماریاں کھولیں کتنے سوٹوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں اور ایک سوٹ کی باری بعض اوقات مہینوں سالوں نہیں آتی۔ یہ رقم کہاں سے آئی ؟
مہنگائی اس لیے بڑھی کہ ہماری خواہشات بڑھ گئیں
اس طرح کی میں نے بے شمار باتیں پوچھیں‘ جب غربت ہوتی ہے کھانا کم ہوتا ہے‘ جب غربت اور مہنگائی ہوتی ہے گاڑیاں سہولتیں ضرورتیں احتیاط کی شکل میں کم ہو جاتی ہیں‘ جب غربت ہوتی ہے اور مہنگائی ہوتی ہے تو پھر اتنے کپڑے‘ سوٹ‘ اتنی شاپنگ‘ اتنے مال‘ اتنے پلازے نہیں ہوتے۔ ہاں میں یہ ضرور کہوں گا مہنگائی بڑھتی چلی جارہی ‘ قیمتیں آسمانوں کو چھو گئیں لیکن اس لیے بڑھی کہ ہماری خواہشات بڑھیں‘ ایک تاجرانہ اصول ہے جب خریدار زیادہ ہوں گے چیزیں مہنگی ہوجائیں گی‘ جب خریدار کم ہوں گے وہی چیزیں سستی ہوجائیں گی۔
دوستو! مان جائیں مہنگائی نہیں بڑھی۔۔۔!!!
خریدار زیادہ ہوگئے خواہشات بڑھ گئیں‘ کیا شمالی علاقہ جات‘ مری کاغان‘ ناران‘ اس سے آگے لوگ پہلے اتنی سیر کرنے جاتے تھے‘ آپ مانیں خواہشات بڑھ گئی ہیں مہنگائی ویسے ہے‘ غربت ویسے ہے‘ جتنی ہماری خواہشات بڑھتی جائیں گی اتنی چیزیں مہنگی ہوتی جائیں گی‘ جتنے خریدار زیادہ ہوتے جائیں گے اتنی قیمتیں ہواؤں کو چھوتی چلی جائیں گی اور پھر بادشاہوں کو گالیاں دیں گے‘ آپس میں الجھیں گے‘ سڑکیں اور راستے بند کرکے دھوئیں اور ٹائر جلائیں گے اور شکایت دیں گے کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے‘ دوستو! مان جائیں مہنگائی نہیں بڑھی خواہشات بڑھ گئی ہیں۔
مہنگائی کو ختم کرنا ہےتویہ کام کیجئے
ایک ضروریات ہوتی ہیں ایک خواہشات ہوتی ہیں ضروریات آج بھی وہی ہیں‘ انسان کی ایک ضرورت ہوتی ہے اس کی مثال جب ٹرین میں سفر کرتا ہے اسی برتھ میں سو بھی جاتا ہے‘ اسی لیٹرین میں ضرورت پوری کرتا ہے اور وہیں ٹرین میں کھانا بھی کھا لیتا ہے۔
اپنے سے کمتر پر ہمیشہ نظر رکھیں!
مان جائیں خواہشات بڑھی ہیں ضرورتیں نہیں بڑھیں۔ لہٰذا مہنگائی کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اپنی خواہشات کو ختم کرنا ہوگا جو ہم نے اتنی بڑھا لی ہیں کہ پھر رزق حرام لینے کے لیے بھی ہم گریز نہیں کرتے کیونکہ خواہشات حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں اور خواہشات سے مراد زمانے کو دیکھ کر چلنا۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہٗ کو حضور سرور کونین ﷺ نے نصیحت فرمائی’’ اے ابوذر! اپنے سے کمتر پر نظر رکھ‘‘۔ بس! یہ ایک چھوٹا سا لفظ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کمتر پر نظر رکھ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کر‘ ہم جب اپنے سے اوپر پر نظر رکھیں گے اس کی سواری اس کا لباس اس کا گھر اس کابرینڈ پھر نقصان بڑھتا چلا جائےگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں