قارئین السلام علیکم! گزشتہ ماہ میں اور میرا کنبہ پہاڑی علاقے کی طرف گیا‘ روحانی منزل بھوربن مری میں بھی کچھ وقت گزارا‘ اسی طرح اور جگہوں پر سفر کرتے کرتے ہم تارکوٹ پہنچے‘ ہم چھوٹے سے قصبے عطر شیشہ ضلع مانسہرہ سے اوپر پہاڑوں پر گئے‘ جہاں یہ چھوٹی سی بستی تاڑکوٹ واقع ہے‘ پہلے میں آپ کو عطر شیشہ قصبے کی مختصر تاریخ بتاتا چلوں کہ عطر شیشہ اس قصبے کو اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہاں سے ایک زمانہ میں ملکہ نورجہاں گزری تھی اور اس جگہ پر آکر اس کی عطر کی شیشی پالکی سے نیچے گرگئی اور یہاں پر اس شیشی کو ڈھونڈا گیا اور بہت ہی مختصر قیام ہوا‘ اس عطر کے گرنے کی وجہ سے یہاں پر آباد ہوئی اور اللہ کی مخلوق اس مقام پر بسنے لگی تو ہم عطر شیشہ سے خیرآباد گاؤں جو کہ کئی صدیوں سے بس رہا ہے اور بتانے والے نے کہا کہ ہماری یہاں نویں نسل بس رہی ہے۔ خیرآباد گاؤں تک تو پکی سڑک تھی لیکن خیرآباد کے آگے جیپ کا راستہ تھا جو کہ صرف جیپ ہی اس چھوٹے راستے کو عبور کرسکتی تھی‘ ہم جیپ میں سوار ہوگئے اور اوپر جانے لگے‘ ہر طرف پہاڑ اور گھنا جنگل تھا البتہ ہمیں کچھ بچے کھیلتے ہوئے چند جگہوں پر نظر آئے اور ہم دل ہی دل میں اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پہاڑ کے اوپر چڑھتے رہے‘ چڑھتے رہے اور یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ منزل کہاں ہیں‘ کہیں کہیں ایسی سڑک آئی جہاں ایسا لگتا تھا کہ ہم ابھی گرجائیں گے لیکن حفاظتی دعائیں اور تجربہ کار ڈرائیور نے یہ راستہ بڑی مہارت سے پار کیا۔ راستے میں ایک جگہ قدرتی چھوٹا سا چشمہ نظر آیا‘ ہم وہاں رکے اور پانی پیا‘ منہ دھویا اور میں نے اپنی اماں کے حکم پر آنکھوں میں پانی ڈالا تاکہ آنکھیں مضبوط اور تیزہوں‘ ادھر میں نے ایک تجربہ کیا کہ کسی پہاڑی کو عینک لگے ہوئے نہ دیکھا پھر اس وقت سمجھ آئی کہ جہاں سوفیصد قدرتی پانی موجود ہے اور صاف ہوا‘ غذا موجود ہے وہاں بیماریاں کیسے حملہ آور ہوسکتی ہیں‘ ایسے ایسے جنگلات پیچھے جہاں درخت کے علاوہ کچھ اور نہ نظر آتاتھا اور مقامی لوگ
بتانے لگے کہ یہاں جنگلی جانور رات کو باہر آتے ہیں اور ہم لوگ رات کو گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ ان جنگلاتی پہاڑوں میں خواتین گھر کاکام‘ کھانا بنانا‘ صفائی کرنا‘ بچوں کوسنبھالنا کے ساتھ ساتھ باہر کے کام بھی کرتی ہیں جن میں کھیتی باڑی‘ جانوروں کی دیکھ بھال جیسے کام شامل ہیں اور وہاں کے مرد حضرات کام کرتے ہیں لیکن بہت کم۔ سردیوں میں وہاں برف پڑتی ہے تب بھی پہاڑی باشندے کام کرنا بند نہیں کرتے۔ ان پہاڑوں کے اوپر انہوں نے کھیتی باڑی شروع کررکھی ہے‘ ان پہاڑوں کے اوپر انہوں نے مختلف قسم کی اجناس اگا رکھی ہیں جیسے کہ مکئی وغیرہ۔ ان کا نظام پہاڑ کے اوپر ہی ہوتا ہے اور پہاڑ اتنا بڑا ہے کہ جب ایک گھنٹہ اوپرچڑھتی ہے تو وہ گاؤں آتا ہے۔ گاؤں والے اوپر ہی اپنا انتظام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم سالوں نیچے قصبے (جو کہ چھوٹا سا شہر ہے) میں نہیں جاتے کیونکہ ہماارا اوپر اچھا گزارا ہورہا ہے۔ پورے گھر میں صرف ایک ہی بیت الخلاء ہوتا ہے۔اس سارے مضمون کے لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ کیسے آرام سے زندگی گزار رہے ہیں‘ سادہ اور کشادہ اور ہم آسائشوں کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ شیخ الوظائف فرماتے ہیں ’’غربت نہیں بڑھی‘ خواہشات بڑھ گئی ہیں!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں