(ش، واہ کینٹ)
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! اللہ کریم آپ پر آپ کے والدین‘ مرشد اور اہل خانہ پر علامہ لاہوتی پراسراری ان کی جناتی ٹیم پر ہر قسم کی رحمتیں ‘ نعمتیں اور برکات کی بارشیں فرماتا رہے اور آپ حضرات کے طفیل پوری امت مسلمہ اور میرے والدین اہل خانہ پر بھی آمین!تقریباً چھ سات سال سے عبقری کے لیے لکھ رہا ہوں‘ الحمدللہ عبقری رسالہ میں اپنی تحریر پڑھ کر انتہائی خوشی ہوتی ہے۔ آج ایک واقعہ اور ٹوٹکہ لیکر حاضر ہوا ہوں‘ واقعہ مکافات عمل کا ہے‘ یقیناً قارئین کو اس میں ایک سبق ضرور ملے گا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہماری رشتہ کی ایک خالہ خاندان کے سب گھروں سے زیادہ امیر ہوگئیں‘ گھرمیں دولت خوب آگئی‘اب وہی خالہ جو ہر کسی کی خوشی غمی میں پہنچتی‘ سب سے ملتی‘ اگر کوئی گھر آتا تو خوشی سے استقبال کرتیںمگر دولت آنے کے بعد آہستہ آہستہ رویہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ خالہ کے اندر تکبر آنا شروع ہوگیا ‘ غریب رشتہ داروں کو ملنا‘ بلانا سب ختم کردیا‘ دولت آئی تو نئے ملنے ملانےوالے بھی بن گئے‘ خالہ اب اسٹیٹس دیکھنا شروع ہوگئی‘ چاہے کوئی کتنا ہی قریبی وفات پاگیا ہو‘ زیادہ سے فون پر تعزیت کی یا صرف ایک یا دومنٹ کیلئے اس کے گھر بڑے رکھ رکھاؤ سے گئی‘ دو الفاظ میں افسوس کیا اور انہی قدموں واپس ہوگئی۔ ایسے ہی خوشی میں بھی بہت کم جاتی۔ جس کو چاہتی بے عزت کردیتی‘ بڑے چھوٹے کی تمیز بالکل ختم ہوگئی۔ نجانے کس غریب کی آہ لگی کہ مغرور کروڑ پتی خالہ کا بیٹا لاعلاج مرض کا شکار ہوگیا‘ لاکھوں روپے اس کے علاج پر لگے ‘ لاہور‘ راولپنڈی کے معالجین بے بس ہوگئے‘ کسی کے کہنے پر کراچی لے گئے‘ کاروبار بھی دن بدن زوال پذیر ہوگیا اور یوں چند ہی سالوں میں خالہ آسمان سے زمین پر آگئی۔ خالہ کی جائیدادیں ڈاکٹروں کی فیسیں بھرتے بھرتے ختم ہوگئیں۔ پھر قرض پر گزارا اور قرض کے بعد بات بھیک پر آگئی۔ خالہ کسی طرح کراچی گئی‘ کراچی کے ڈاکٹرز نے علاج کیا‘ چند ماہ وہاں ہسپتالوں میں مانگ تانگ کر علاج کروایا مگر بالآخر وہاں کے ڈاکٹرز نے بھی جواب دے دیا‘ بھیک مانگ کر واپسی ٹرین کا کرایہ بنایا‘ راستے میں ٹرین پر بھوکے آرہےتھے‘ بچے کی وہی حالت جو کہ گھر سے لے کر گئے تھے‘ جوان بچہ تھا بیٹھ نہیں سکتا تھا‘ کبھی لٹاتے ‘ کبھی بٹھاتے‘ درد سے کراہتا تھا۔ ایک مسافر غور سے دیکھ رہا تھا‘ ان کی بے بسی اور بے کسی دیکھ رہا تھا۔ مسافر اٹھا اور لڑکے کی والدہ کو آکر کہا کہ میں اس بچے کا علاج کرسکتا ہوں اگلے اسٹیشن پرمیں اس کو لیکر اتر جاؤں گا تم لوگ ساتھ نہ اترو گے وہ اگلے اسٹیشن پر بچے کولیکر اتر ا‘ واش روم لے گیا پھر بچے کو اٹھا کر ٹرین میں آگیا۔ مسافر کہنے لگا: میں اگلے اسٹیشن پر اتر جاؤں گا تم نے ابھی سفر کرنا ہے۔ بچہ کے والدین نے پوچھا تم نے ہمارے بچہ کو کیا دوادی ہے؟ کہا ایک مکھی کھلائی ہے‘ تین دن بعد اسے ایک اور مکھی کھلا دینا‘ پھر تین دن بعد ایک اور کھلادینا ‘ یہی اس مرض کی دوا ہے‘ وہ بچہ اس وقت سے آج کافی سال ہوگئے تندرست ہے۔ ٹوٹکہ بھی مل گیا اور یہ سبق بھی مل گیا کہ اگر غربت کے بعد امیری آجائے تو تکبر نہ کرو‘ غریب رشتہ داروں کی بے عزتی نہ کرو‘ ان سے ملنا جلنا نہ چھوڑو‘ ورنہ اللہ کریم امیری چھین لیتے ہیں اور پھر اپنے بندوں کو ذلیل کرنے کی سزا دیتے ہیں۔اللہ کریم تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور ہمیں ہمیشہ چھوٹوں کے ساتھ پیار اور بڑوں کے ساتھ ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں