(نرگس محمود‘فیصل آباد)
خوش رہ کر زندگی سے لطف اندوز ہوں
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے امیر شخص وہ ہے جو معمولی باتوں پر خوش ہوتا ہے تاہم آج انسان نے اپنی خوشیوں کا دائرہ کار خواہشات تک ہی محدود کر لیا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے اردگرد خوش رہنے کی بے شمار وجوہات کو نظرانداز کر دیتا ہے اور ہمیشہ اس چیز کے پیچھے بھاگتا ہے جو اس کے پاس نہیں لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ دنیا میں کسی شخص کے پاس ہر وہ چیز موجود ہو جس کی وہ خواہش کرے یا پھر کیا کوئی آخری خواہش بھی ہو سکتی ہے؟ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ اگر ہم اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگنے کے بجائے ہر حال میں خوش رہنا سیکھ لیں تو دن کے چوبیس گھنٹے بھی کم ہیں لیکن اگر کسی خواہش کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیا جائے تو احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس خواہش کے پیچھے بھاگتے ہوئے کب ہمارے چہرے کی ہنسی غائب ہو گئی؟ آخر خوشی ہے کیا؟ یا خوش رہنے اور خوشیاں بانٹنے کے طریقے کیا ہیں؟ ایک کلینیکل سائیکالوجسٹ کا کہنا ہے کہ ’’وہ چیز جس سے آپ کو اچھا محسوس ہوا آپ کے اندر مثبت انرجی پیدا ہو۔ آپ خود کو چست محسوس کریں اور کام کرنے کا دل چاہے تو یہ احساس ہی خوشی ہے کہ خوش رہنا ایک اہم انسانی رویہ ہے جو روزمرہ معمولات زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ خوشیوں کو تقسیم نہیں بلکہ ضرب کیا جاتا ہے، جس سے خوشیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور خوش رہنے والا انسان ہی خوشیوں کو ضرب دے سکتا ہے۔
خواہشات اور خوشیاں
ایسا بھی ضروری نہیں کہ خوش رہنے کے لیے آپ کے پاس سب کچھ موجود ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی گئی نعمتوں کا شمار کر کے بھی خوش رہا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ آج آپ کے پاس جو کچھ ہے کوئی دوسرا ان نعمتوں سے محروم ہو۔ کیا خوش ہونے کے لیے یہ احساس کافی نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے آپ کو جن نعمتوں سے نوازا ہے بہت سے لوگ ان کے حصول کی دعائیں کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جس کی کوئی خواہش نہیں مثلاً آپ چاہتے ہیں کہ کلاس میں نمایاں پوزیشن حاصل کریں یا آپ کسی ٹاپ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے خواہش مند ہیں۔ جب یہ خواہشات پوری ہوجائیں گی تو پھر آپ چاہیں گے کہ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوجائیں۔ شادی کے لیے کوئی اچھا رشتہ مل جائے یوں ایک کے بعد ایک خواہش بے چین کیے رکھتی ہے لہٰذا کسی بھی خواہش کو جنون نہ بنائیں اور زندگی کی خوشیاں کسی ایک خواہش پر قربان نہ ہونے دیں۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں خوش رہنا ہی سب سے آسان کام ہے کیوں کہ مسکرانے میں پیسے بھی خرچ نہیں ہوتے لہٰذا خواہشات اور خوشیوں کی اہمیت کو سمجھیں اور حقیقت پسندی سے اپنی ترجیحات کا تعین کر لیں۔
ہم خوش کیوں نہیں رہتے؟
ہم نے خود کو مشین کی طرح کام کرنے کا عادی بنا لیا ہے۔ بہتر سے بہتر کا حصول انسان کو مسلسل بے چین اور اداس رکھتا ہے، انسان کو خواہشات کی تکمیل کے علاوہ خوش ہونے کی کوئی دوسری وجہ دکھائی نہیں دیتی اور غیر محسوس کن طریقے سے اپنی خواہشات کے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں ہر فرد خود اپنی ذات میں سمٹتا جارہا ہے۔ اب ہم ایک دستر خوان پر مل بیٹھ کر کھانا کھانے کی خوشی سے محروم ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ نہ صرف نوجوان بلکہ بڑی عمر کی خواتین اور مرد بھی جب کسی تقریب میں جاتے ہیں تو سارا وقت تصویریں بنانے میں ہی صرف کردیتے ہیں۔ لوگوں سے ملنے جلنے اور اس تقریب سے لطف اندوز ہونے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ڈپریس ہوجاتے ہیں۔ ہمیشہ خود سے برتر شخص کو حسرت سے دیکھنا اور اپنی چیزوں کو کمزور سمجھنا بھی اداسی کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اسی مادہ پرستی کی وجہ سے مایوسی بڑھ رہی ہے اور مسکراہٹیں ختم ہوتی جا رہی ہیں اس لیے ہمیشہ موجود نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کریں۔
خوش کیسے رہا جائے؟
دوسروں کی غلطیوں کو جلد معاف کرنے کی عادت اپنائیں۔ ہمیشہ مثبت سوچیں اور کوئی مسئلہ درپیش ہو تو سب سے پہلے اس کے روشن پہلوئوں پر غور کریں۔ اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنائیں۔ اگر کسی مقصد میں ناکامی ہو تو سمجھ لیں کہ اس میں آپ کے لیے بہتری ہو گی ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہرگز دکھ میں مبتلا نہیں کرتے۔ اگر کوئی اچھا لباس پہنیں تو یہ کبھی نہ سوچیں کہ آپ کے پاس ایسا کیوں نہیں؟ بلکہ پہننے والے کی تعریف کریں۔ آفس میں اگر دن بھر کی مصروفیت کے بعد پانچ منٹ کا وقفہ بھی ملے تو اسے بھرپور انداز سے گزاریں۔ جب کوئی مدد کے لیے آپ کے پاس آئے یا آپ سے مشورہ مانگے تو نیک نیتی سے صحیح مشورہ دیں اور اگر ممکن ہو تو اس کی مدد بھی ضرور کریں۔
خودغرض دوستوں سے نجات حاصل کریں
ہم سب ہی دوستی جیسے جذبے سے کسی نہ کسی حوالے سے منسلک رہتے ہیں یہ شاید ہمیشہ قائم رہنے والا رشتہ ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ لیکن بعض اوقات ایسی دوستی بھی رکھنا پڑ جاتی ہے جو آپ کے لیے تکلیف دہ یا بری ثابت ہوتی ہے اس لیے ایسے دوستوں کی ہر بات پر صرف آہ ہی نکلتی ہے اور کچھ نہیں خواہ وہ موسم کی بات ہو یا پھر کسی اچھے ناول کا۔ اس قسم کے خود غرض دوست پن کی طرح چبھتے ہیں اور آپ ان سے دوستی ختم کرنا بھی چاہیں تو یہ ایسا نہیں ہونے دیتے، حالانکہ ان کی کمپنی میں آپ کو سوائے بوریت کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا کیوں کہ ہر دفعہ آپ ان کے ساتھ اپنا مثبت ردعمل رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی جانب سے ہمیشہ ایسے جذبے کی نفی ہوتی ہے۔ وہ آپ سے منسلک ہر چیز یا بات کو لیٹ ڈائون کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں یہ دوستی کی قسم آپ کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے۔ ایسے دوستوں کے منفی رویے چھوت کی بیماری جیسے ہوتے ہیں ممکن ہے کہ ان کے ساتھ دوستی نبھاتے نبھاتے آپ خود بھی زندگی میں ہر چیز کے متعلق منفی جذبات محسوس کرنے لگیں اور آپ خود بھی اپنے اندر مثبت رویوں کو گم ہو جانے کی صورت میں ڈھونڈنے لگ جائیں۔ ایسی صورت میں صرف ایک ہی حل ہے کہ آپ اسی قسم کے خودغرض اور زہریلے دوستوں کی سنگت کو فوراً خیر باد کہہ دیں اور ان سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اگر وہ آپ کو ایسا نہ کرنے دیں تو آپ بار بار ان سے دور رہنے کی کوشش کریں۔ اس خود غرضانہ دوستی سے آزادی ملنے کے بعد آپ خود کو انتہائی پرسکون اور خوش محسوس کریں گے۔
ہمیشہ اچھی امید رکھیں
مایوسی اختیار کرنا چھوڑ دیں اپنے کسی بھی نوعیت کے کام کے حوالے سے ہمیشہ پرامید رہیں۔منفی اور مایوسی کی باتیں آپ کو اندر سے کمزور کر دیتی ہیں آپ خوف اور تنہائی کا شکار ہونے لگتے ہیں ہر بات کو مثبت پہلو سے دیکھیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے کسی جاب کے لیے انٹرویو دیا ہے تو نتیجہ سے پہلے ہی منفی توقعات باندھ لینا غلط ہے یعنی شاید میں ناکام ہو جائوں ’’یا‘‘ شاید میں نے انٹرویو میں جواب صحیح طرح سے نہیں دیے۔ شاید میرا تجزیہ انہیں پسند نہ آئے؟ وغیرہ وغیرہ۔ خود سے آپ جب منفی باتیں کرتے یا سوچتے ہیں تب یہ آپ کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ آپ کے مستقبل کا دارومدار آپ کی اسی عادت پر بھی ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیں خوشیاں کبھی خود چل کر کے آپ کے پاس نہیں آتی بلکہ آپ نے انہیں خود بنانا ہوتا ہے آگے بڑھ کر انہیں بدلنا پڑتا ہے۔ خوش رہیں مثبت سوچ رکھیں اور توقعات کے غیرضروری محل تعمیر نہ کریں تو آپ ایک بےفکری اور اطمینان بھری زندگی ضرور گزار سکتے ہیں۔اپنا موازنہ دوسروں سے نہ کریں:خوش رہنے کا ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنا موازنہ کسی بھی طرح سے دوسروں سے نہ کریں۔ ۔ خوشیوں کو تلاش نہیں تخلیق کیا جاتا ہے:خوشی ذہنی کیفیت کا نام ہے اور خوشی کو تلاش نہیں کیا جاتا بلکہ تخلیق کیا جاتا ہے۔ ہمیں خوشیوں کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے لمحوں کو کیسے خوبصورت اور یادگار بنایا جا سکتا ہے؟ اگر آپ کے پاس اچھا موبائل ہے تو یہی خوشی ہے۔ اپنی نعمتوں کو اسی طرح گنیں جیسے بچہ اپنے سامنے کھلونوں کا ڈھیر لگا کر خوش ہوتا ہے اور کسی بھی غم کو لے کر بیٹھنے کے بعد اپنے پاس موجود نعمتو ںکا شکر ادا کریں اور اس پر خوش ہوں جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہیں۔خوشیاں تلاش کریں:دنیا میں صرف وہی لوگ خوش رہ سکتے ہیں جو خو ش رہنا چاہتے ہیں۔ دراصل انسان اپنی سوچوں میں یوں گم رہتا ہے کہ اپنے اردگرد خوشیوں کو دیکھ ہی نہیں پاتا۔ آپ نے دیکھا ہو گا۔روتے ہوئے بچے کے ہاتھ میں کوئی چیز تھما دی جائے تو وہ فوراً ہنسنے لگتا ہے اور اس سے کھیلنا شروع کر دیتا ہے۔ بڑوں کی مثال بھی ایسی ہے کہ اگر دکھ یا پریشانی میں اپنی توجہ کسی دوسری چیز کی طرف لگا لیں تو مزاج میں خوشگوار تبدیلی آجاتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں