الور میں ایک تعلیمی ادارہ ہےجس میں ہاسٹل بھی ہے اوریہ شہر کے کنارے واقع ہے۔ اس ادارہ کے ایک طرف شہر کی عمارتیں ہیں اور دوسری طرف کھیت شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک بار مجھ کو اس ادارہ میں چند دن گزارنے کا اتفاق ہوا۔ شام کو عصر کی نماز کے بعد میں تعلیمی ادارہ سے نکلا اور کھیتوں کی طرف ٹہلنے چلا گیا۔ کچھ دور آگے بڑھا تو ایک جگہ بہت سے کتے تھے وہ مجھ کو دیکھ کو زور زور سے بھونکنے لگے اور میری طرف لپکے۔ مجھ کو پتھر پھینک کر انہیں بھگانا پڑا۔ مغرب کے قریب میں ٹہل کر واپس ہوا تو میں نے ادارہ کے پروفیسر سے اس کا ذکر کیا۔ وہ مسکرائے انہوں نے کہا کہ کل ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے۔ پھر آپ دیکھئے گا کہ کوئی کتا نہیں بھونکے گا۔ اگلے دن عصر کی نماز کے بعد جب میں ٹہلنے کے لئے نکلا تو پروفیسر صاحب بھی میرے ساتھ ہوگئے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ میں ایک لمبی لاٹھی لے لی جو دور سے دکھائی دیتی تھی۔ ہم لوگ چلتے ہوئے اس مقام پر پہنچے جہاں پچھلے روز مجھے کتوں کا غول ملا تھا، میں نے دیکھا تو اب بھی کتے وہاں موجود تھے۔ مگر آج کوئی کتا ہماری طرف نہیں لپکا اور نہ کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ہم سکون کے ساتھ اس مقام سے گزر گئے اور کتے ہماری طرف متوجہ ہونے کے بجائے اپنے مشغلوں میں لگے رہے۔ واپس ہوتے ہوئے ہم دوبارہ اس مقام سے گزرے۔ اب بھی کتے وہاں موجود تھے۔ مگر انہوں نے ہماری طرف کوئی توجہ نہ کی۔ ہم کسی مزاحمت کے بغیر اپنی منزل پر واپس آگئے۔
’’یہ لاٹھی کی برکت تھی‘‘ پروفیسر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کل آپ لاٹھی کے بغیر تھے تو کتوں کو ہمت ہوئی وہ بھونکتے ہوئے آپ کی طرف دوڑ پڑے۔ آج ہمارے ساتھ لمبی لاٹھی تھی تو کتے اس کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ ہم بے زور نہیں ہیں بلکہ ان کا جواب دینے کے لیے ہمارے پاس مضبوط ہتھیار موجود ہے۔ اس چیز نے کتوں کو ہمارے اوپر اقدام کرنے سے بے ہمت کردیا۔ ’’کتا ہمیشہ اس وقت آپ کی طرف دوڑے گا جب وہ آپ کو کمزور محسوس کرے۔ اگر وہ دیکھے کہ آپ کے پاس طاقت ہے تووہ آپ کی طرف رخ نہیں کرے گا‘‘۔
انسانوں میں بھی کچھ لوگ اسی قسم کے مزاج والے ہوتے ہیں۔ وہ اس شخص سے ٹھیک رہتے ہیں جو اپنے ہاتھ میں ایک ’’لاٹھی‘‘ لئے ہوئے ہو۔ ایسے شخص سے سامنا ہو تو وہ کترا کر الگ ہو جاتے ہیں۔ البتہ جب وہ کسی کو دیکھتے ہیں کہ وہ لاٹھی کے بغیر ہے تو اس کے لئے وہ شیر ہو جاتے ہیں۔ وہ طاقت ور کے لئے بزدل ہوتے ہیں اور کمزور کے لئے بہادر یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ آدمی سماج کے ایسے افراد کے لئے ’’لاٹھی‘‘ کا انتظام بھی رکھے۔ اصولی اور عمومی طور پر وہ پرامن ہو۔ وہ لوگوں کے ساتھ تواضع اور نرمی کا رویہ اختیار کرے۔ مگر اسی کے ساتھ کم از کم دکھانے کی حد تک وہ اپنے آس پاس ’’لاٹھی‘‘ بھی کھڑی رکھے تاکہ اس قسم کے لوگوں کو اس کے اوپر حملہ کی جرأت نہ ہوسکے ٹھیک ویسے ہی جیسے قدرت ایک شاخ پر نرم و نازک پھول کھلاتی ہے تو اسی کے ساتھ وہ شاخ کے چاروں طرف کانٹے بھی اُگادیتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں