اقتباس:18 رمضان المبارک درس ‘ 2017ء
پورے بر صغیر میں بیکری کی ابتداانگریز بنا۔اس سے پہلے بیکری کا کوئی وجود نہیں تھا۔نہ بیکری سے کوئی متعارف تھاکہ بیکری کیا ہوتی ہے۔انگریز اس کا بانی ہے۔ پھر اس کو دیسی لوگوں میں پھیلانے میں( یعنی برصغیر کی عوام) ایک ہندو چوہدری ضامن داس کا ہاتھ ہے۔یہ بہت مالدار تھا۔اس میں سخاوت ‘ حلم‘ محبت‘ مروت کوٹ کوٹ کر بھری تھی‘ اس کی بیکری پر ہرمذہب کا بندہ کام کرتا تھا۔
اس کی ایک صفت یہ بھی تھی کبھی ننگے سر نہیں ہوتا تھا۔سر پہ ٹوپی رکھتاتھا اورکبھی کبھی کپڑاباندھتاجسے ہم پگڑی کہتے ہیں۔ہر سال انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہوتا تھا ۔ اس میں بڑی بڑی شخصیات کوپورے برصغیرمیں بلایا جاتا تھا جو انجمن کو عطیات بھی دیتے تھے اور ان کی تقاریر بھی ہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ چوہدری ضامن داس بھی اس تقریب میں مدعو تھےاور ان کے ساتھ لالہ لاج پترائے بھی تھےجن کی ماں گلاب دیوی کو ٹی بی ہوگئی اور گلاب دیوی ہسپتال لاہور میں بنا ۔
تقریر یں ہورہی تھیں کہ کسی نے چوہدری ضامن داس سے سوال کردیا کہ ہندوہندو کے ہاں تو ٹوپی نہیںہےیہ تو سکھوں‘ مسلمانوں اور دوسرے مذہب میں ہے۔ آپ یہ ٹوپی کیوں پہنتے ہیں ؟آپ کلاسر ننگا آج تک نہیںدیکھا۔
چند مقررین کے بعدچوہدری ضامن داس کی تقریر تھی۔ جب چوہدری صاحب کی باری آئی تو اس نے کہا کہ یہ میرا ایک راز تھا جو آج تک میں نے کسی کو نہیں بتایا ۔کہنے لگے کہ میں الہ آباد میں تھا اور وہاں پکوڑے بیچتا تھا۔ میرے پکوڑے جس دن بارہ آنے یا روپے کے بک جاتے تھے میری بہترین بکری ہوتی تھی۔سرپہ چھابہ اٹھااٹھا کے میرے سر کے جوبال درمیان میں تھے ‘اتر گئے۔ مسجد کے باہر بیٹھ کر میں پکوڑے بیچتا تھا‘مسجد کےساتھ سکول ‘ ہسپتال اور کچھ ادارے تھے ۔ نما زی وہاں زیادہ آتے تھےجس کی وجہ سے میرے پکوڑے اچھے بک جاتےتھے۔اس مسجد کے مئوذن نے مجھے کہاساری عمر پکوڑے ہی بیچے گا؟میں نے کہا:جی میں غریب آدمی ہوں ‘مگرمیں تو پھر بھی کچھ خوشحال ہوگیا ہوںمیرا باپ تو اس سےزیادہ غریب تھاتو اس نے کہا پکوڑے بیچنےہیں یا مالدار بنناہے ؟تجھے ایسانسخہ بتاتا ہوں تیرا گنج بھی چھپ جائے گااور تو مالدار بھی بن جائے گا۔پہلے تومجھے محسوس ہوا کہ شاید یہ مجھ پر میرے گنج کی وجہ سے طنزکر رہےہیں۔میں نے سنجیدگی سے پوچھا جی مجھے بتائیں کیا نسخہ ہے؟کہا کبھی ننگے سر نہ رہا کرتو مالدار ہو جائے گا۔
چھابے والابیٹھےبٹھائےکارخانہ کا مالک بن گیا
چوہدری ضامن داس مزید کہنے لگے بس وہی میری زندگی کی غربت ،وہی تنگدستی ،وہی سفید پوشی چلتے چلتے ایک دفعہ یہ ہوا کہ میں پکوڑے لے کر جارہا تھا تو ایک حلوائی کی دکان کے آگے سے گزرا ‘اس نے مجھے بلایا۔وہ مجھے جانتا تھا۔ تووہ کہنے لگےضامن ادھر آ۔ میں یہ دکان بیچنا چاہتا ہوں‘ میرا بیٹا کلکتہ چلا گیا۔میں یہ دکان بیچنا چاہتا ہوںتو لے گا؟ضامن نے کہا: جی میں چھابی والاہوں‘کہنے لگا میں چاہتا ہو ںتو لے لے‘ تجھے میںرعایت بھی دوں گا ۔ جتنے پیسے تیرے پاس جمع ہیں لے آ ۔یہ دکان‘ چلتا کاروبار‘ سب کچھ میں تجھے دیتا ہوں ۔نصیب اور مقدر کا نظام اب سنور رہا ہے۔ سرکاڈھکنااپنااثر دکھا رہا ہے۔میں نے کہاجی میرے پاس تواس وقت ایک سو اتنے روپے۔کہہ رہا ٹھیک‘ بس جتنےپیسے ہیںلے آ‘ باقی آہستہ آہستہ کرکے قرض اتار دینا۔میں پکڑ‘ پکڑا کر کچھ زیادہ ہی پیسے لے آیا۔ اس نے پیسے لیے‘ دکان چھوڑی اور چلا گیا اور میں راتوں رات برتن، مٹھائی ،ساتھ دکان کے پیچھے کارخانہ ہرچیزکا مالک بن گیا۔ سر ڈھانپنے کے بعد میں ایک چھابے والا دکان کا مالک بن گیا۔میں نے اس پر محنت کی ،مجھے کھانے پینےکےپکانے کافن آتا تھا۔وہاں کاریگر تھے اورمیری دکان پہلے سے بہتر چل نکلی اور ایک سال کے اندراندر میرا قرض اتر گیا۔ پھر میرےپاس ایک کاریگر تھا‘ وہ کہنے لگاکہ انگریز بیکری کھاتا ہےاور بیکری کی چیزیں شوق سےکھاتا ہےاور جو باہرسے پڑھ کر آتے ہیں وہ بھی کھاتے ہیں اور جو آج کل ماڈرن ہورہے ہیں،وہ بھی بیکری کھاتے ہیں۔اگر ہماری دکان بڑی ہے تو اس حصے میں کوئی بیکری کا نظام نہ بنا لیں؟میں نے کہا ٹھیک ہے۔اس کے بعد ہم نے بیکری کا نظام بنایا ۔میرا بیکری کا نظام ایسے چلاکہ پھر پورے بر صغیر میںپھیل گیا۔ ( جاری ہے)
مزید سر ڈھانپ کر کتنےرئیس بنے! اگلے شمارہ میں پڑھنا ہرگز نہ بھولیے!
انوکھے روحانی وظائف اور راز ولایت پانے کیلئےخطباتِ عبقری کا مطالعہ کریں
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں