علم وہ ہے جو آخرت کی پہچان دے
ہم نے اپنے دماغ میںجو علوم بھرے ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ مرنے سے پہلے کی محنت ہی ہمارے لیے سب کچھ ہے اور ساری محنت دماغ کو استعمال کرنے کی ہے اورہم نے اسی کا نام علم رکھا ہواہے۔ مگر یہ علم نہیں ہے۔علم وہ ہے جو ہمیں اپنے رب کی پہچان دے۔جن چیزوں پرہم محنت کرتے ہیںوہ فن ضرور ہے، ہماراسبجیکٹ ضرور ہے،چاہے وہ اکنامکس کا سبجیکٹ ہے ،چاہے وہ ٹیکنالوجی کا سبجیکٹ ہے،چاہے وہ سائنس کا سبجیکٹ ہے،چاہے وہ میڈیکل کا سبجیکٹ ہے یہ سارے سبجیکٹ ہیں، فن ہیں اور فن سیکھنا کوئی گناہ نہیں۔ لیکن علم صرف وہ ہے جس سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پہچان پیدا ہو، علم وہ ہے جو اُس کی آنکھوں سے اندھیرا ہٹا دے،علم وہ ہے جو اس کی آنکھوں کے سامنے اجالا لے آئے ، علم وہ ہے جو اس کو آخرت کی پہچان دے دے، علم وہ ہے جو موت کے بعد آنے والی ہمیشہ کی زندگی کااس کو سلیقہ دے دے، علم تو اُسے کہتے ہیں۔ ایک بندہ کےپاس ساری دنیا کا علم اور فن ہے لیکن اس کے پاس اپنے رب کی پہچان نہیں ہے ، اپنے رب کی معرفت نہیں ہے، اس کے پاس حلال و حرام کی پہچان نہیں، تووہ جانور ہے۔
جو جانورکسی دوسرے مالک کے کھیت میںگھس جائے اسے کوئی پتہ نہیں کہ یہ مالک کا کھیت ہے یاکسی اور کا کھیت ہے۔ اسکے پیشِ نظر صرف بھوک ہے، خواہش ہے، چاہت ہے۔ اسے جہاں سبز گھاس نظر آئے گی وہ اُسی کھیت میں جائے گاایسا کرنے والا جانور ہوتا ہے‘ انسان نہیں ہوتا۔ انسان وہ ہے جس کی نظر اپنے کھیت کی گھاس پر ہوتی ہے ،چاہے وہ گھاس سوکھی ہویاجلی ہوئی ہو ۔گھاس دراصل تعبیر ہے ہر اس چیزکی جس کا تعلق رزق سے ہے، خواہش سے ہے، زندگی کے کسی شعبے سے ہےجس کے دل میں احکام الٰہی ہوگاوہ انسان کہے گاکہ یہ میراکھیت ہے اگرچہ کسی اور کے کھیت کی گھاس ہری بھری ہے مگر وہ اپنے کھیت کی گھاس ہی استعمال کرے گا۔یہ سوچ تب آئےگی جب اس کے دل میں علم الٰہی آئےگا، یہ سوچ اس وقت آئےگی جب اس کے دماغ کے اندر سے تمام تفریقیں ختم ہوجائیں گی کہ میں نے جواب تک علم سیکھا ہے، وہ مکمل نہیںہے۔!ہم نے جو کچھ سیکھاہے وہ فن ہے،جوصرف روٹی کمانے کے لیے ہے، روزی کمانے کے لیے ہے،روزی چاہے حلال ہو یا حرام۔حلال و حرام میں فرق کرنے کیلئے کوئی اور فن ہے،اس کے لیے کوئی اور علم ہے۔ یہ علم ہمیں اللہ والوں سے ملے گا کہ یہ رزق حلال ہے یا حرام ہے۔ یہ پھرزندگی کا نظام کہیں اور سے چلتا ہے۔
اللہ والو! میری بات غورطلب ہے! جس طرح ہم نے دنیا کے فن کو سیکھنے کے لیئے وقت دیا تھابچپن سے لے کر بڑھاپے تک قلم اورپنسل اُٹھائی، پڑھا ،لکھا، سوچا اور علم کے نام پر فن حاصل کیا لیکن اس علم نے یہ نہ سکھایاکہ اللہ کون ہے؟رسول ﷺ کون ہیں؟ حلال کیا ہے؟ حرام کیا ہے؟اس علم نے یہ سب نہ سکھایا۔ معلوم ہوا ، علم تو مل گیا مگر انسانیت نہیں ملی ۔
انوکھے روحانی وظائف اور راز ولایت پانے کیلئے
خطباتِ عبقری کا مطالعہ کریں
رمضان تسبیح خانے میں گزارہ
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! 2018ء میں میں نے پورارمضان تسبیح خانہ میں گزارا بہت سکون اور راحت پائی۔ پہلے تو میں رمضان کے روزے نہیں رکھتا تھا اور نماز میں پابندی بھی نہیں کرتا تھا لیکن جب سے رمضان تسبیح خانے میں گزارا ہے ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ میں ہر ماہ ایام بیض کے روزے بھی رکھتا ہوں اور نماز پابندی کے ساتھ باجماعت ادا کرتا ہوں اس کے علاوہ جو تسبیح خانے میں اعمال، وظائف کیے تھے وہ بھی جاری رکھے ہوئے ہوں الحمدللہ میرے بہت سے بگڑے کام بن گئے ہیں ۔میرے کاروبار ی مسائل سالہا سال سے الجھے ہوئے تھے وہ سنور گئے‘ بچوں کی شادیوں کے مسائل حل ہوئے‘ الغرض جو مانگا ملا‘ جو چاہا ہوا۔ اس سال بھی میرا ارادہ ہے کہ میں رمضان تسبیح خانے میں گزاروں ۔(محمد عثمان، راولپنڈی)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں