حال دل ۔۔ جو میں نے دیکھا سنا اور سمجھا
شیخ الوظائف کی ایک پراسرار ولی ؒ سے ملاقات
یہاں ڈاکو قتل پہلے سامان بعد میں چھینتے ہیں!
ایک طویل سفر‘ پرانی گاڑی‘ نا ہموار زمین‘ ہچکولے‘ غیرمتوازن سڑک‘ چاروں طرف پھیلے پہاڑ لیکن خشک اور ویران‘ سناٹا‘ خاموشی‘ رات کی تاریکی‘ کانوں میں یہ آواز پڑچکی تھی کہ یہاں ڈاکو قتل پہلے کرتے ہیں اور گاڑی اور سامان بعد میں چھینتے ہیں‘ دل میں ایک انجانے وساوس لیکن حفاظت والی دعائیں اور اعمال کا کامل یقین‘ گاڑی کبھی آہستہ‘ کبھی تیز‘ بل کھاتی سڑک‘ الجھتے راستے‘ سوچوں کا طوفان‘ منزل کی تلاش‘ بس یہ ملی جلی کیفیات تھیں جو میری زندگی کا ایک شاید انوکھا سفر ہو‘ جو میں نے بلوچستان کے پہاڑوں پر کیا۔ میری منزل ڈیرہ بگٹی سے آگے خشک اور ویران پہاڑ تھے‘ ایک کامیاب ڈرائیور اور اس کی پرانی جیپ‘ جس میں میں بیٹھا ساتھ اور بھی دو ہم سفر تھے۔
نورانیت سے بھرپور ایک ہستی
خاموش سناٹا‘ رات کے پچھلے پہر ہماری گاڑی ایک جھونپڑی کے سامنے جس کے اردگرد پتھروں کی چھوٹی چھوٹی دیوار تھی‘ رکی‘ سانس میں سانس آیا کہ شاید ہمیں منزل مل گئی‘ گاڑی کے شور اور آواز سے دو افراد فوراً باہر آئے‘ ایک بہت ہی بوڑھے تھے‘ ایک ادھیڑ عمر کے تھے‘ مخصوص پگڑیاں‘ ڈاڑھی اور مونچھوں کا وہی قبائلی انداز‘ انہیں سلام کیا‘ محبت سے ملے‘ آنے کی اطلاع چونکہ پہلے سے تھی‘ انتظار کررہے تھے‘ سخت سردی‘ ٹھنڈی برف کے تھپیڑے اور پہاڑوں کو چیرتی ہوئی ہوا اور ہوا کا ایک شور‘ اندر اون کے بنے ہوئےپرانے گدے اورکچھ پرانے تکیے‘ جس میں ہم سمٹ کر بیٹھ گئے‘ فوراً گرم گرم دودھ اور سادہ سی دال روٹی ہمارے سامنے رکھ دی گئی۔ بھوک سردی سفر تکان اور جگہ جگہ پتھروں کی اچھل کود نے ہمارے جسم کے انگ انگ کو بھوکا اور پیاسا بنا دیا تھا۔ کھانا کھایا‘ دودھ پیا اور طبیعت میں سکون آیا۔ اس دوران میٹھی اور ملائم باتیں ہوتی رہیں‘ یوں ہم کچھ ذکر اذکار کرتے لیٹ گئے‘ نماز فجر سے پہلے پھر اٹھے‘ تھوڑی ہی دیر کمر سیدھی کی تھی کہ فجر کی نماز کے بعد لاٹھی ٹیکے ایک دراز قد ‘ وجاہت‘ ہیبت لیکن نورانیت سے بھرپور ایک ہستی تشریف لائیں‘ گلے لگا کر ملے‘ بہت اتفاق اور محبت سے پیشانی پر بوسہ دیا‘ اس بوسے کی ٹھنڈک‘ نورانیت اور روحانیت آج بھی دل کی کیفیت میں موجود ہے۔ نماز فجر پڑھی‘ فجر کے بعد شیخ طریقت نے ذکر کرایا‘ چند ہی لوگ تھے‘ لیکن اس ذکر کے وجدان کی ٹھنڈک مجھ سے کبھی نہ بھولی جائے گی‘ شیخ ذکر کروا رہے تھے اور اللہ ھو کا ورد اور وہ کیا ورد تھا‘ کیا اس میں پرواز اور طاقت تھی‘ میرے پاس لفظ نہیں میں خلاؤں میں گھورے لفظوں کو تلاش کررہا ہوں اور لفظ مجھے کہیں مل نہیں رہے۔
تین چیزیں بھلائی کے خزانوں میں سے ہیں
وہ ملاقات پہلی اور آخری تھی اس کے بعد میں پھر نہ جاسکا اور پتہ چلا کہ شیخ کا وصال ہوگیا۔ مجھے حیرت رہی‘ پریشانی بھی کہ میں شیخ سے پھر نہ مل سکا‘ بہت نوازا‘ بہت شفقتیں محبتیں لیکن کچھ نورانی اور روحانی بول ایسے ہیں جن کو میں آج بھی سمیٹے اپنے دامن میں اپنی زندگی کا سرمایہ بنائے حفاظت سے اٹھائے اٹھائے پھر رہا ہوں وہ بول تھے فرمایا: ’’تین چیزیں بھلائی کے خزانوں میں سے ہیں۔ 1۔صدقہ چھپانا۔ 2۔بیماری چھپانا۔ 3۔مصیبت چھپانا۔‘‘میں شیخ کے فرمان پر چونک پڑا‘ کتنی ہی دیر سے سر جھکائے ان کے عظمتوں کے سامنے سر نہیں اٹھاپارہا تھا لیکن میں نے دیکھا تو ان کے چہرے کا نور جلال‘ وقار‘ روحانیت‘ عظمت کے سامنے میری نظر نہ ٹھہر سکی‘ میں نے پھر سر جھکایا‘ شیخ میرے اس انداز کو سمجھ گئے اور فرمانے لگے: ہاں ہاں میں نے سچ کہا‘ شیخ دو زبانیں ہی بول سکتے تھے بلوچی یا سرائیکی۔
یہ تین چیزیں ہر کسی کو نہیں ملتیں
وہ مجھ سے سرائیکی میں ہی باتیں کررہے تھے‘ سرائیکی جسے عام طور پر ملتانی زبان بھی کہا جاتا ہے‘ پھر خود فرمایا: یہ تین چیزیں سب کو نہیں ملتیں‘ صرف اس کو ملتی ہیں جس کو عرشی دولت ملتی ہے‘ تکلیف آتی ہے جتنا ہوسکے اس کو چھپاؤ‘ مصیبت تو پھر آتی ہی اپنے خاص بندوں کو ہے‘ اس کو بھی چھپانا اور یہی حال صدقہ کا ہے اور میرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اپنے ہاتھ میں لی اور فرمانے لگے جس ہاتھ سے میں نے یہ انگلی پکڑی ہوئی ہے اس ہاتھ نے سدا تسبیح اور قرآن پاک کو چھوا ہے‘ یاد رکھنا! میری یہ تین نصیحتیں کبھی نہ بھولنا‘ وہ نصیحتیں ہمیشہ یاد رہیں گی لیکن یادیں‘ ملاقاتیں اور ان کے ساتھ بیتی زندگی وہ میں کیسے بھول سکتا ہوں؟ وہ اس سے کہیں زیادہ یاد رہیں گی‘ کچھ یادیں تھیں‘ ادھار تھیں‘ دل میں آیا یہ قصہ بھی آپ کو سنا دوں اور اس درویش کے ساتھ بیتی زندگی کے واقعہ اور ان کے بیش بہا موتی بھی آپ کی خدمت میں پیش کردوں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں