حضرت حکیم صاحب ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے ایک واقعہ جو کہ میری والدہ بتایا کرتی ہیں میری والدہ میرے شوہر کی سگی پھوپھی بھی ہیں میں اپنے ماموں زاد کے گھر شادی ہوکر آئی میرے چھ ماموں تھے سب فوت ہوگئے صرف ایک ماموں اور ایک میری والدہ ہیں۔ واقعہ یہ ہے میری والدہ بتاتی ہیں کہ میری والدہ کے دادا تھے‘ انہوں نے ایک جن قابو کیا ہوا تھا ایک دن دادا صاحب جنگل میں جارہے تھے اونٹ پر بیٹھ کر انہیں پیشاب کی حاجت ہوئی ‘انہوں نے حاجت پوری کی تو ان کا وضو ٹوٹ گیا وہ اپنے اونٹ پر بیٹھ گئے اتنے میں ایک پیارا سا چیختا پکارتا چھوٹا سا بکری کا بچہ آیا دادا صاحب نے اس کو اونٹ پر بیٹھا کر چلنے لگے‘ چلتے چلتے اونٹ رک گیا‘ اسے چلانے کی بہت کوشش کی وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ رہا تھا اور رات تھی جب دادا صاحب نے دیکھ تو اس بکری کے بچے کے پائوں زمین میں گاڑھے ہوئے تھے تو اونٹ کیسے چلتا ۔ دادا صاحب نے پڑھائی کی اور اسکی چوٹی کاٹی اور اسے اپنے قابو میں کرلیا اور وہ بال اپنے پاس محفوظ کرلیے‘ اس سے کام لیتے تھے پھر دادا صاحب کا انتقال ہوگیا ان کے انتقال کے بعد گھر کی عورتوں نے گھر کی صفائی کرتے ہوئے وہ بالوں والی ڈبی ملی‘ گھر کی عورتوں کو نہیں پتہ تھا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے وہ ڈبی پھینک دی۔ پھر اس جن نے کسی نہ کسی کو بولا ہوگا‘ یہ بھی والدہ نے بتایا کہ اس نے کہا میں پہلے قید تھا اب آزاد ہوگیا ہوں اب میں تمہاری سات نسلوں کو بتائوں گا۔ لیکن یہ واقعہ پاکستان بننے سے پہلے کا ہے ہمارے دادا صاحب انڈیا کے تھے اور ان کا انتقال بھی انڈیا میں ہوا۔ والدہ یہ بھی بتاتی ہیں دادا صاحب جب سوتے تھے تو ان کا جسم کا ہر حصہ الگ ہو جایا کرتا تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہماری والدہ کے والد یعنی میرے نانا اپنے بچوں کو لے کر پاکستان حیدر آباد آگئے تھے اور کچھ دم درود کردیا کرتے تھے لیکن انہوں نے اس کام کو اپنایا نہیں کہتے تھے میرے چھوٹے بچے ہیں میں یہ کام نہیں کروں گا جب کوئی بہت مجبور کرتا تو پھر کسی کو تعویذ یا دم کردیتے تھے‘ گھر کے اپنے بچوں کو دم کرتے تھے تو وہ ٹھیک ہو جاتے تھے۔ والدہ بتاتی ہیں ہمارے نانا کا جو گھر ہے اس میں اثر ہے اور وہ ہی اثر ہے جو دادا صاحب نے قابو کیا تھا والدہ بتاتی ہیں وہ پریشان کرتا ہے ترقی نہیں کرنے دیتا‘ ہمارے سارے ماموں مزدور ہیں بمشکل گزر اوقات ہوتا ہے‘ میرے شوہر
صاحب بھی یہ کہتے ہیں سارا دن ہو جاتا ہے کام کرتے کرتے مجھے ذرا بھی فرصت نہیں ملتی‘ لگاتار کام کرتا ہوں تو تم لوگوں کے لیے کچھ کر پاتا ہوں وہ ہمیں ترقی نہیں کرنے دے گا پریشان کرکے رکھے گا وہ کہتے ہیں میں کئی لوگوں کو دیکھتا ہوں فارغ رہتے ہوئے بھی انہیں کوئی ٹینشن نہیں ہے اور یہاں مسلسل کام کرنے کے باوجود بھی مسائل رہتے ہیں میرے دیوروں کو بھی یہ واقعہ پتہ ہے پریشان تو وہ بھی رہتے ہیں انہوں نے بہت سے مولوی، عالم وغیرہ کو گھر لاکر دکھایا تو وہ کہتے ہیںہمارے گھر میں آسیب ہیں‘ گھر اس لیے چیک کرایا کہ گھر میں اکثر آوازیں آتی ہیں جیسے برابر والے گھر میں کوئی گھر بنوارہا گھر توڑ رہا برابر کی دیوار میں کوئی کیل ٹھوک رہا چھتوں پر کوئی چارپائی کھینچ رہا پڑوسیوں سے معلوم کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہم تو کچھ بھی نہیں کررہے‘ نہ کوئی کام ہورہا ہے ہمارے گھر میں اور یہ آوازیں اکثر آتی رہتی ہیں کوئی نظر کسی کو بھی نہیں آیا‘ اب تک میں بھی 12سال اپنے سسرال میں رہی ہوں‘ میرے چار بچے بھی ہوئے ہیں لیکن ان سالوں میں مجھے کچھ نظر نہیں آیا‘ میں اپنے کمرے میں اکیلی بھی سو جاتی تھی‘ میں نے کچھ بھی محسوس نہیں کیا ایک نندوئی نے بتایا تمہارے کمرے میں اب کبھی نہیں سوئوں گا رات بھر مجھے عجیب عجیب سی آوازیں آرہی تھی‘ اذان کے بعد آوازیں بند ہوئی لیکن گھر والوں کے ساتھ کبھی کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں