Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

پریشان اور بد حال گھرانوں کے الجھے خطوط اور سلجھے جواب

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2020ء

محرومی اور احساسِ محرومی
میں نے ایک نجی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہاں اکثر لڑکوں کے پاس مہنگی گاڑیاں ہیں، قیمتی موبائل فون ہیں، کئی تونشہ کرتے ہیں۔ اس کی بے فکری اور لاابالی پن کو دیکھ کر حسرت ہوتی ہے کہ مجھے تو اپنی فیس کے لیے ہی کتنی بار کہنا پڑتا ہے۔گھر والوں کو یہ رقم زیادہ لگتی ہے۔ احساس محرومی ہوتا ہے کہ میں ان چیزوں سے محروم کیوں ہوں؟ (جواد، ملتان)
مشورہ:محرومی اور احساس محرومی میں فرق ہے۔ شاید ہی ایسا کوئی فرد ہوگا جو کبھی نہ کبھی قیمتی چیزوں سے محروم ہونے کے بارے میں اپنے دل میںخیال نہ لاتا ہو۔ کم یا زیادہ، چھوٹا یا بڑا، عارضی یا دائمی اس خیال کا شکار ہونا فطری سی بات ہے۔ اس کے ساتھ ہی خود مثبت انداز میں سمجھانا اور حاصل نعمتوں پر شکر کرنا سکون قلب و ذہن کا سبب بنتا ہے۔ آپ نے احساس محرومی کا ذکر کیا۔ یہ وہ احساس ہے جو جسم تو جسم روح کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے کسی مادی شے سے محروم ہونا بھی ضروری نہیں، گھر والوں کی محبت کا اندازہ لگائیں کہ وہ مشکلات کے باوجود آپ کی فیس دے رہے ہیں۔ مادی چیزوں سے توجہ ہٹا کر تعلیم حاصل کریں۔ وقت کے ساتھ سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔
دوست کا احمقانہ مشورہ!
گزشتہ چند سال سے ہماری زندگی بہت بے سکون ہوگئی ہے۔ شادی کے پانچ سال بعد بیٹا ہوا، پہلے بیوی میری ہر بات پر خاموش رہتی تھی مگر اب اس کو میری کسی بات کی برداشت نہیں رہی۔ غصے میں بچے کو ڈانٹ دوں یا تھپڑمار دوں تو وہ برا مانتی ہے اور اب تو ہماری لڑائی ہو جاتی ہے۔ میرا ایک دوست کہتا ہے وہ سمجھتی ہے کہ اب میں اس کو چھوڑ نہیں سکتا۔ پہلے ڈرتی تھی کہ رشتہ کچا ہے، بچے کے بعد اس کی حیثیت مضبوط ہوگئی۔ میں بھی اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا لیکن ذہنی سکون کی ضرور خواہش ہے۔ (دانش، دمام)
مشورہ:غصہ کرنے کی وجہ سے ذہنی سکون ختم ہوا ہے۔ میاں اور بیوی کا رشتہ اتنا خوبصورت اور مستحکم ہوتا ہے کہ اس میں بچوں کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ دوستوں سے مشورے لینے والے مطمئن نہیں ہو پاتے کیونکہ دوست مشورہ دینے کی پیشہ ورانہ مہارت نہیں رکھتے۔ وہ آپ کے سامنے آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مروت سے کام لیتے ہیں اور جب آپ کے گھر میں سکون بحال ہو جاتا ہے تو بے سکونی والے لمحات کو یاد بھی دلا دیتے ہیں۔ آپ نے یہ نہیں بتایا بچے کی عمر کیا ہے، اس کو کس انداز میں ڈانٹا ہے اور تھپڑ مارنے کی وجہ کیا ہے، اس کی غلطی کیا ہوتی ہے؟ یہ ساری باتیں بھی زیر غور لانی چاہئیں۔ مختصر یہ کہ آپ کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ غصہ پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ معاملات بہتر ہو جائیں گے۔
بچے کی نفسیاتی کیفیت سمجھ نہیں آرہی!
میرے بیٹے کی عمر چار سا ل ہے کسی شرارت پر اس کو تھپڑ ماردیا جائے یا غصے سے پیش آئیں تو وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنے ہی منہ پر تھپڑ مارتا ہے اور مارتا رہتا ہے۔ مجھے بے حد دکھ پہنچتا ہے اور میں ارادہ کرتی ہوں کہ آئندہ اس طرح نہیں کروں گی،مگر لوگ اس کی شرارت پر باتیں بناتے ہیں، یہ بھی برا لگتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بچہ نصیحت کو سمجھے، غصہ دیکھ کر آئندہ وہ کام نہ کرے جس سے روکا جارہا ہے۔ مجھے اپنے بچے کی نفسیاتی کیفیت سمجھ میں نہیں آتی۔ (شمائلہ، سکھر)
مشورہ:چھوٹے بچوں کی تربیت کے کچھ اصول ہوتے ہیں جن پر عمل کیا جائے تو ان کو تھپڑ مارنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بڑے بچوں کی شرارتوں پر روک ٹوک میں کبھی سختی کی ضرورت ہوتو بھی منہ پر تھپڑ مارنا بہت ہی ناپسندیدہ بات ہے۔ اس سے بچے میں اپنے خلاف نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں یا وہ فوری طور پر انتقام اور بغاوت کے جذبات کا شکار ہو جاتا ہے۔ چھوٹا بچہ جو اپنی تکلیف پر بڑے کو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ردعمل کا اظہار اسے بھی کرنا ہوتا ہے۔ خود کو تھپڑ مارنا اس کے لیے سب سے آسان کام ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں برا ہوں اور یہ بات اس نے ماں یا باپ کے منفی رویے سے سیکھی ہوتی ہے۔ تربیت کا بہترین اصول اچھی بات پر انعام دینا اور معمولی غلطی کو درگزر کرنا ہے۔ کبھی اپنا غصہ بچوں پر نہ نکالیں، چونکہ اس معاملے میں بے حد صبر اور ضبط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
جھوٹ یا چوری:
میرے بیٹے کی عمر 9سال ہے۔ شرارت وغیرہ کے حوالے سے مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں، لیکن وہ اپنی غلطیاں چھپاتا ہے۔ مثلاً میرے پرفیوم استعمال کرلیتا ہے اور بتاتا نہیں، بعض اوقات دس یا بیس روپے نکال کر بسکٹ وغیرہ کھا لیتا ہے، یہ بھی نہیں بتاتا۔ اس کی والدہ کا کہنا ہے کہ گلاس ٹوٹ جائے تو اس کے ٹکڑے اٹھا کر چھپانے کی کوشش کرتا ہے، کوئی اور نقصان ہو جائے تو بھی نہیں مانتا بلکہ بہن کا نام لے کر خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ پڑھائی میں اچھا ہے، سکول میں ٹیچر تعریف کرتی ہیں، لیکن گھر میں اس کی حرکات ہمیں مایوس کرتی ہیں۔ ایک تو جھوٹ بولنے کی عادت اور دوسری چوری کرنا یہ سب تکلیف دہ ہے۔ کیا وہ بڑا ہوکر بھی یہی سب کرے گا؟(یوسف، خضدار)
بچوں سے بھی بڑوں کی طرح غلطی سے برتن ٹوٹتے ہیں، وہ جان بوجھ کر نقصان نہیں کرتے بلکہ نقصان پر غلطی کا احساس ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ بڑوں کو معلوم ہوگا تو ڈانٹ پڑے گی یا سزا بھی مل سکتی ہے۔ یہی غلطی اگر کسی بڑے سے ہوتو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بچہ اسی لیے خود کو بے قصور ثابت کرنا چاہتا ہے۔ بچے کی ضروریات کا خیال رکھیں کہ وہ کن بچوں میں رہتا ہے، صحبت کیسی ہے۔ یہ ضرور خیال رکھیں کہ وہ کن بچوں میں رہتا ہے، صحبت کیسی ہے، اچھے دوستوں کے انتخاب میں اس کی مدد کریں اور خود بھی اس کے قریبی دوست بن کر رہیں کہ وہ گھر سے باہر کی باتیں بھی آپ سے کہہ کر سکون محسوس کرتا ہو۔ اسے احساس ہو کہ آپ سے زیادہ اہم کوئی بھی نہیں۔
کسی کا انتخاب:
مجھے ان لوگوں کو دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے جن پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے، وہ جس کو پسند کرتے ہیں، اسے حاصل کرلیتے ہیں۔ پسند تو میں بھی کر بیٹھا ہوں مگر کوئی بھی وعدہ کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ پورا نہ کرسکوں گا۔ میری امی کہتی ہیں کہ تمہاری بڑی بہن کی شادی ہر حال میں تم سے پہلے ہوگی۔ اس وقت میری عمر بیس سال ہے جس کو پسند کرتا ہوں وہ بھی اتنی ہی عمر کی ہوگی مگر وہ میری بہن کی شادی کا انتظار نہ کرے گی۔ اسے خاندان کے لڑکے بھی پسند کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہے تم نے دیر کی تو میں ان میں سے کسی کا انتخاب کرلوں گی۔ میں کسی حال میں اس کو کھونا نہیں چاہتا۔ نہ پڑھائی ہوتی ہے نہ کسی اور کام میں دل لگتا ہے۔ دماغ ہر وقت تھکا تھکا سا رہنے لگا ہے۔ (وسیم احمد، ملتان)
جن لڑکوں پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی وہ کسی کو پسند کرکے شادی کرلیتے ہیں تو ان پر ایسی بہت سی ذمہ داریاں آجاتی ہیں جو شادی شدہ لوگوں پر ہونی چاہیں اور غیر شادی شدہ لوگوں پر نہیں ہوتیں، خواہ ان کی بہنیں ہی کیوں نہ ہوں۔ والدہ کی بات ٹھیک ہے، ابھی تو آپ کی عمر بیس سال ہے تعلیم مکمل کریں۔ لڑکی حقیقت پسند معلوم ہوتی ہے وہ کسی اور کا انتخاب کرسکتی ہے تو آپ کو بھی اس سے اچھی لڑکی مل سکتی ہے۔ جو خوشیاں کچھ انتظار کے بعد ملیں وہ دیرپا ہوتی ہیں۔
شوخ طبیعت:
میں اپنی زندگی سے بے راز ہوں۔ یہاں آنے سے پہلے اس قدر خوش تھی کہ ملک سے باہر جارہی ہوں۔ ایک نئی دنیا دیکھنے کو ملے گی مگر شوہر بہت خشک مزاج ہیں۔ ہم زیادہ تر گھر میں رہتے ہیں۔ اگر میں کوئی شکوہ شکایت کروں تو ان کا مزاج خراب ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں میکے میں جاکر کچھ عرصہ رہ لو، جب دل خوش ہو جائے توآجانا۔ امی حیات نہیں، ابو نے دوسری شادی کرلی ہے۔ میرا میکے میں کوئی اپنا نہیں ہے۔ کبھی کہتے ہیں پڑھ لو، یہ سوچ کر گھبراہٹ ہوتی ہے۔ میں نے تو اپنے ملک میں ہی میٹرک کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ زندگی کی ناکامی اور شادی کے ٹوٹنے سے ڈرتی ہوں، اس لئے صبر کررہی ہوں۔ ان ساری باتوں کی وجہ سے میں پہلے کی طرخ شوخ طبیعت نہیں رہی۔ (کرن، آسٹریلیا)
وجہ خواہ کوئی بھی ہو یہ اچھی بات ہے کہ آپ صبر کررہی ہیں۔ صبر کرنے پر مایوسی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ تو ایک مثبت رویہ ہے۔ صبر کا مطلب منفی ردعمل سے رکنا اور بے سوچے سمجھے اقدامات کرنے سے خود کو روکنا، خاص طور پر جذبات میں آکر فیصلہ نہ کرنا بلکہ سوچ سمجھ کر شعوری صلاحیت کو کام میں لاتے ہوئے وقتی مایوسی اور ناامیدی کو برداشت کرکے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے کام کرتے جانا۔ شوہر کی طرف سے پڑھنے کا مشورہ بہت بہترین ہے۔ اس سلسلے میں وہ بھی آپ کی مدد کریں گے۔ شوخ طبع لوگوں میں دوسروں کو خوش رکھنے کی بے شمار صلاحیتیں ہوتی ہیں آپ بھی اپنی کسی امتیازی خصوصیت سے کام لیں اور گھر کی بے زار اور بور فضا کو خوشگوار صورتحال میں بدل دیں۔ بعض اوقات صرف مسکراہٹ اور ہمدردی کے چند الفاظ ادواجی زندگی پر کشش بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
قوتِ ارادی
ایف ایس سی کی طالبہ ہوں۔ ہر وقت کوشش کرتی ہوں کہ مثبت انداز میں سوچوں مگر اکثر اوقات منفی خیالات میرے دماغ پر مسلط رہتے ہیں، ان کی وجہ سے کوئی بھی کام مثبت انداز میں اور باقاعدگی کے ساتھ نہیں کرسکتی۔ اس مسئلے کی وجہ سے تعلیم متاثر ہورہی ہے۔ (عائشہ علی،ساہیوال)
دماغ میں ہر وقت خیالات کا آنا جانا، ایک فطری بات ہے۔ ذہنی طور پر صحتمند لوگ اپنے دماغ میں آنے والے خیالات کو کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ کوئی منفی خیال آئے اسے مثبت میں بدل کر خوف اور بے چینی سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ عام طور پر منفی خیالات کا تسلط اس وقت ہوتا ہے جب ہم بار بار کسی تکلیف وہ خیال کو ذہن میں لاتے ہیں اور پھر وہ خود بہ خود ذہن میں آنے لگتا ہے۔ اس نجات حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی منفی خیالات دماغ میں آئیں، کہیں رک جائیں۔ اس کے علاوہ جو کام کررہی ہوں ارادہ کریں کہ تمام توجہ کا مرکز یہی کام رہے۔ جو لوگ اپنی کوشش اور ارادے کے باوجود منفی خیالات کو دماغ سے نہیں نکال سکتے، ان کو اس سلسلے میں ماہر نفسیات سے مدد لینی چاہئے۔ خیال رہے کہ اس مرض کے علاج میں ادویات بھی وہ کام نہیں کرتیں جو مضبوط قوت ارادی سے لیا جاسکتا ہے۔
تفکرات اور جسمانی امراض
اتنے دکھ دیکھے، قدم قدم پر مشکلات برداشت کیں کہ اب ذرا سی بات بری لگتی ہے۔ لگتا ہے میرے اندر غصہ ہے اور نفرت بھی ان لوگوں سے ہے جو مجھے خوش نہیں دیکھ سکتے تھے۔ میرے خلاف سازشیں کرتے، شوہر کو بڑکاتے، ہمارے گھر میں جھگڑے کرواتے۔ آج سب کچھ یاد آتا ہے تو غم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس عمر کی خواتین سے زیادہ بڑی نظر آتی ہوں۔نیند نہیں آتی، وقت کے ساتھ بھوک بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ باتیں یاد آتی ہیں تو اضطرابی کیفیت ہو جاتی ہے۔ (فوزیہ خان، ایبٹ آباد)
جذبات کا انسانی صحت اور بیماری سے گہرا تعلق ہے اور اگر جذبات کا بہائو تخریب کی طرف ہوتو نظام صحت میں خلل پڑتا ہے۔ پے درپے صدمات، غم و غصہ اور نفرت کے ساتھ تفکرات ایسے ایسے ذہنی اور جسمانی عوارض کو جنم دینے کا سبب بنتے ہیں جو موروثی اثرات اور ماحول کی خرابی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ منفی جذبات اور نفرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تخریبی قوت انسان کی تعمیری صلاحیتوں کو تباہ کرڈالتی ہے۔ اضطراب اور ہیجانی کیفیات کے زیر اثر انسان اپنا وقار، سکون، اعتماد، اخلاق، خوش مزاجی سب ہی کچھ کھو بیٹھتا ہے۔ نیند اور بھوک کا غائب ہونا بھی انہی اذیتناک یادوں کا نتیجہ ہے جو آپ کے ذہن میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ اگر انسان خود اپنی بہتری کے لیے کوشش کرتا رہے تو سازشیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ اپنے سکون اور خوش رہنے کے لیے سب کو معاف کردیں۔ یہ مشکل ہوتو ناگوار باتوں کو فراموش کرنا سیکھیں۔ آپ کی ہر صبح ایک نئی اور خوشگوار زندگی کا پیغام لائے گی۔

 

 

 

 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 680 reviews.