انتخاب: ابولبیب شاذلی
صحابہؓ کرام کا قبر والوں کے کلام کا سننا
امراض و درد سے شفایابی
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ میں بیمار تھا مجھ پر حضورﷺ کا گزر ہو اور میں کہہ رہا تھا اے میرے اللہ! اگر میری موت آگئی ہے تو مجھے راحت دیدے اور اگر متاخر ہے تو اس مرض کو مجھ سے دور کردے اور اگر آزمائش ہے تو مجھے صبر کی توفیق دے، آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے کس طرح کہا؟ میں نے آپﷺ پر اس کلام کا اعادہ کیا تو آپﷺ نے اپنے پیر سے ٹہوکا دیا اور آپﷺ نے فرمایا اے میرے اللہ! اسے شفا دے تو میں نے اپنی اس بیماری کو اس کے بعد نہ پایا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے میری آنکھ میں خیبر کے دن لعاب دہن لگایا تھا اور وہ آنکھ دکھ رہی تھی اسی وقت اچھی ہوگئی پھر اس کے بعد کبھی دکھنے نہ آئی۔
ٹوٹے پاؤں پر سرکار ؐ نے ہاتھ پھیرا اور ٹھیک کردیا
ابو رافع کے قتل میں حضرت عبداللہ بن عتیک کا پاؤں ٹوٹ گیا۔وہ کہتے ہیں کہ میں حضورﷺ کے پاس پہنچا اور میں نے آپﷺ سے بیان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا اپنے پَیر کو پھیلا میں نے اپنے پیر کو پھیلایا آپﷺ نے اس پر اپناہاتھ مبارک پھیرا پس گویا کہ مجھے اس کی بالکل تکلیف نہیں ہوئی۔(حیاۃ الصحابہؓ، حصہ دہم، ص۷۳۷)
زمانہ عمرؓ‘ نیک نوجوان کی موت اور عاشق عورت
یحییٰ بنؒ ایوب خزاعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس شخص سے سنا ہے جو بیان کررہا تھا کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک جوان عبادت گزار تھا، ہر وقت مسجد میں رہتا تھا اور حضرت عمرؓ اس پر بڑا تعجب کرتے تھے اس کا باپ نہایت بوڑھا تھا یہ جب عشاء کی نماز پڑھ چکتا تو اپنے والد کی طرف جایا کرتا تھا اور اس کی گزرگاہ ایک عورت کے دروازے کے سامنے سے تھی‘ وہ عورت اس پر عاشق ہوگئی تھی‘ وہ اپنے آپ کو اس کے لیے اس کے راستہ میں کھڑا رکھتی تھی ایک رات اس جوان کا گزر اسی کی طرف ہوا یہ عورت اسے پھسلانے لگی یہاں تک کہ یہ جوان اس عورت کے پیچھے چلا جب دروازہ پر پہنچا عورت گھر میں داخل ہوگئی اور اسے داخل ہوتے وقت یاد آیا اور اس دروازے سے ہٹ گیا اور یہ آیت کریمہ اس کی زبان پر جاری ہوئی:اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّھُمْ طَآئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاھُمْ مُّبْصِرُوْنَ ترجمہ:’’ یقیناً جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں‘‘۔(الاعراف)
تو وہ جوان بے ہوش ہوکر گر پڑا عورت نے اپنی باندی کو آواز دی، اس کے اٹھانے میں ان دونوں نے ایک دوسرے کو مدد دی اور اس کو اٹھا کر اس جوان کے دروازہ تک لائیں وہ جوان بیٹھ گیا اس نے اپنے باپ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کا والد باہر نکلا، دروازے پر دیکھا کہ اس پر بے ہوشی تھی باپ نے بعض رشتہ داروں کو بلایا، انہوں نے اسے اٹھایا اور اندر داخل کردیا اس جوان کو ہوش نہ آیا یہاں تک کہ رات کا وہ حصہ چلا گیا۔ رات گئے اس کو ہوش آیااس کے والد نے اس سے پوچھا اے میرے بیٹے! کیا حال ہے؟جوان نے کہا خیر ہے‘ باپ نے کہا میں تجھ سے اللہ کا واسطہ دیکر پوچھتا ہوں، تو جوان نے اپنے باپ کو ساری بات کی خبردی‘ باپ نے پوچھا اے میرے بیٹے! تو نے کونسی آیۃ پڑھی جو ان نے وہی آیۃ پڑھ دی اور بے ہوش ہوکر گرپڑا لوگوں نے اسے حرکت دی، لیکن اس کی روح پرواز کرچکی تھی‘ اسے غسل دیکر لے جایا گیا اور رات ہی میں اسے دفن کردیا گیا، جب صبح ہوئی تو یہ قصہ حضرت عمررضی اللہ عنہٗ تک پہنچا، حضرت عمررضی اللہ عنہٗ اس جوان کے باپ کے پاس آئے اور اس لڑکے کے بارے میں اسے صبر دلایا اور فرمایا تم نے مجھے کیوں نہیں اطلاع دی تھی؟ کہا اے امیر المومنین رضی اللہ عنہٗ! رات کا وقت تھا، حضرت عمررضی اللہ عنہٗ نے فرمایا مجھ کو اس کی قبر کے پاس لے چلو تو حضرت عمررضی اللہ عنہٗ اور جو حضرات آپ کے ساتھ تھے قبر پر آئے حضرت عمررضی اللہ عنہٗ نے فرمایا اے فلاں! وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ حَنَّتٰنِ (الرحمٰن) ترجمہ: جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا کئے جانے سے ڈرا اس کے لیے دو جنتیں ہیں‘‘ تو اس جوان نے قبر کے اندر سے جواب دیا۔ اے عمر!(رضی اللہ عنہٗ) رب نے مجھے وہ دونوں باغ جنت میں دیدیئے ہیں اور ایک روایت میں ہے (قبر سے یہ آواز آئی کہ) حضرت عمررضی اللہ عنہٗ کے پاس جائو اور ان سے میرا سلام کہو اور ان سے دریافت کرو اس شخص کی جزا، کیا ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا کئے جانے سے ڈرا؟ اور ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی قبر پر حضرت عمررضی اللہ عنہٗ کھڑے ہوئے اور فرمایا تیرے لیے دو جنتیں ہیں، تیرے لیے دو جنتیں ہیں۔محمد بن حمیر سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے عنہ کا گزربقیع غرقد پر ہوا آپ نے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَآ اَھْلَ الْقُبُوْرْ۔ ہماری خبر تو یہ ہے کہ تمہاری عورتوں نے شادی کرلی ہے اور تمہارے مکانوں میں اور لوگ آباد ہوگئے ہیں اور تمہارے مال تقسیم کردیئے گئے ہیں۔ تو حضرت عمررضی اللہ عنہٗ کو ہاتف نے جواب دیا ہمارے پاس یہ خبر ہے کہ جو کچھ ہم زندگی میں کرچکے تھے اس کو ہم نے پالیا، اور جو کچھ ہم نے خرچ کیا تھا اس کا نفع مل گیا اور جو ہم چھوڑ آئے تھے اس سے ہم خسارے میں پڑ گئے۔(حیاۃ الصحابہؓ، حصہ دہم، ص۶۶۶)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں