گھر میں موجود ماں جو کہ شادی سے قبل بیٹے کی توجہ اور محبت کی تن تنہا مالک ہوتی ہے، بہو کو ایک چیلنج سمجھنے لگتی ہے جس نے اس سے بیٹے کا پیار چھین لیا ہے جبکہ بیوی کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ گھر میں آتے ہی شوہر کی تمام تر محبت اور توجہ کا حق اسے حاصل ہوگیا ہے
بے جا الزامات‘ بدزبانی‘ پرانی بات
بے جا الزامات اور بدزبانی اب ایک پرانی بات ہوچکی ہے جس میں ساس اور بہو مصروف کار نظر آتی ہیں لیکن حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کا کوئی فائدہ، مقصد یا عام زندگی میں کردار نہیں ہے‘ سوائے اس کے کہ گھروں کا ماحول مکدر ہوتا رہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس تمام تر مسلسل مشق کے خاتمے پر فریقین خود ایک دوسرے کی باتوں پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سسرالی اور بہو حالات کی بہتری میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کریں اور وہ ایسا کریں گے تو گھر کے ہر فرد کیلئے زندگی ایک حسین چیز بن جائے گی۔ الزامات کے جواب میں الزامات اور ساس بہو کے مابین نوک جھونک برسہا برس پرانی بات سہی لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے معاملات میں لوگوں کی عقل کہاں رخصت ہو جاتی ہے کہ وہ بعض چیزوں کو جانتے ہوئے بھی سمجھنا نہیں چاہتے اور ایسے پہلوئوں پر ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں جن کو بڑی آسانی سے باہمی طور پر حل کیا جاسکتا ہے۔
بیوی پر غیرضروری خرچے
کسی جگہ یہ شکایت منہ کھولے کھڑی ہوتی ہے کہ لڑکا اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ ماں کے حوالے کیوں کردیتا ہے اور کہیں یہ مسئلہ الجھن پیدا کرتا ہے کہ بیوی پر غیر ضروری خرچے کیوں کئے جارہے ہیں؟ کہیں یہ گلہ سامنے آتا ہے کہ دفتر سے آنے پر لڑکا کئی گھنٹے ماں کے پاس گزار دیتا ہے تو کہیں یہ بات برداشت نہیں ہوتی کہ وہ بیوی کے ساتھ کمرے میں کیوں گھسا رہتا ہے؟ گھریلو کاموں کی تقسیم اور بعض دوسرے مسئلے بھی گھروں کو میدان جنگ بنائے رکھتے ہیں حالانکہ فریقین انہیں سمجھداری کے ساتھ باہمی طور پر مل کر حل کرسکتے ہیں اور جگ ہنسائی سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ ایسی صورتحال میں کسی کا کچھ نہیں جاتا صرف گھرانے کی نیک نامی دائو پر لگ جاتی ہے اور لوگ باتیں بناتے ہیں۔جب ان معاملات کو سلجھا کر پرسکون زندگی گزاری جاسکتی ہے تو پھر یہ آسان راستہ کیوں اختیار نہیں کیا جاتا؟ اگر لوگ ایک دوسرے کی ضرورتوں کو سمجھنے لگیں اور خواہشات کا احترام کریں اور ایک دوسرے کو سراہتے رہیں تو ہم آہنگی پیدا ہونا کوئی کٹھن کام نہیں ہے اور یہ وصف تعلقات کے حوالے سے معجزہ ثابت ہوسکتا ہے لیکن انا اور نام نہاد حکمرانی کا شوق اس کی راہ میں رکاوٹ بنا رہتا ہے۔
شوہر کی محبت کی تن تنہا مالک
شادی کے بعد بننے والے رشتوں کے مابین دراڑ کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے بلکہ اہم بھی کیونکہ اس کی جڑیں بڑی گہری ہیں جن کی نفسیات کو سمجھے بغیر کسی قسم کی تبدیل ممکن نہیں ہے۔گھر میں موجود ماں جو کہ شادی سے قبل بیٹے کی توجہ اور محبت کی تن تنہا مالک ہوتی ہے، بہو کو ایک چیلنج سمجھنے لگتی ہے جس نے اس سے بیٹے کا پیار چھین لیا ہے جبکہ بیوی کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ گھر میں آتے ہی شوہر کی تمام تر محبت ار توجہ کا حق اسے حاصل ہوگیا ہے اور وہ تن تنہا اس کی مالک ہے جس پر کوئی اپنا حق نہیں جما سکتا ہے۔ دو عورتوں کے مابین حقوق کی اس جنگ میں ایک شخص مسلسل پستا رہتا ہے جو ایک بیٹا ہی نہیں ایک شوہر بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تعلقات میں کشیدگی اور ماحول میں کھچائو بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گھر کے دیگر افراد دو اہم فریقین میں بٹ جاتے ہیں اور کچھ ماں کی جبکہ کچھ بہو کی حمایت میں پیش پیش رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پورا خاندان ایک دوسرے کے مدمقابل آجاتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے میں سب سے زیادہ مددگار دو مختلف نوعیت کی محبتوں کو سمجھنا ہوتا ہے۔
بیٹے کی ماںسے محبت جبلی ہے!
بیٹے کی ما ں سے محبت جبلی ہے جس کی نہ تو ٹریننگ ہوتی ہے اور نہ ہی یہ بات سکھانا پڑتی ہے۔ یہ محبت پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے اور پرورش کے دوران ذہنی،جسمانی اور نفسیاتی طور پر بڑی قربت سے ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس شوہر کا پیار اپنی بیوی سے ایک ضرورت کے تحت جنم لیتا ہے اور دونوں طرز کی محبتوں کا اثر بالکل واضح ہوتا ہے جنہیں ایک دوسرے پر فوقیت کو کھرچ کر پھینکا جاسکتا ہے۔ اگر ماں اور بیوی دونوں ہی اس حقیقت کو تسلیم کرلیں تو اپنے اپنے طور پر اور اپنی اپنی جگہ اطمینان اور سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہیں۔
رشتوں کی صحت مندانہ تعمیر
اس سارے معاملے کو کسی اور طرح سے دیکھنا بھی ضروری ہے اور سمجھنا بھی۔ جب شادی بیاہ کی تقریبات کا گلیمر دم توڑ دیتا ہے تو پھر ایک بالکل نئی دنیا سامنے آتی ہے جس میں نوبیاہتا کو قدم رکھنا پڑتا ہے۔ روزمرہ کے کاموں کا جھنجھٹ، تقاریب کا انداز جس میں اسے اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے اس سے کچھ تقاضے کرتے ہیں، کچھ توقعات وابستہ کی جاتی ہیں، کچھ ڈیمانڈز ہوتی ہیں یہاں تک کہ گھر میں پکائے جانے والے کھانوں اور انہیں پیش کرنے کا انداز تبدیل ہو جاتا ہے اور بہت کچھ مختلف دکھائی دینے لگتا ہے۔ لڑکی کو ایک نئے گھر اور مختلف ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے جس کے لیے ابتداء میں ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کا طریقہ کار بھی اپنانا پڑتا ہے جس کے ذریعہ رشتوں کی صحت مندانہ تعمیرممکن ہو جاتی ہے۔
نوبیاہتا دلہن کا فرض
لڑکی کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ پوری دلچسپی کا مظاہرہ کرے اور خود کو ماحول میں ڈھالنے کی ضرورت کو محسوس کرے اور ساتھ ہی اپنے حسن و سلوک سے گھر کے افراد کا دل جیت لے تو تمام چیزیں اپنی جگہ پر آجائیں گی۔ اگر وہ اپنی انا کے ہاتھوں مجبور ہو کر ضد پر اڑی رہی، محض اپنی خوشیوں کو اولیت دیتی رہی اور غیر دوستانہ رویہ اختیار کئے رکھا تو پھر یہ کسی بڑی تباہی کے اجزائے ترکیبی ہیں اور معاملات میں بگاڑ یقینی ہے جس کے لیے ایک جملہ ہی کافی ہے مگر سدھارنے کو مذاکرات کا طویل سلسلہ بھی کافی نہیں ہوتا کیونکہ بات سے بات نکلتی بلکہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔عزت کریں اور احترام پائیں:یہ بڑی افسوسناک سی صورتحال ہے کہ چھوٹی چھوٹی سی یہ باتیں گھر کا شیرازہ بکھر دیتی ہیں اور ان کے اثرات گہر ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن یہ صرف بہو کا رویہ ہوتا ہے جو کہ سسرال کے لوگوں کو احساس اور فخر سے محروم کردیتا ہے۔ اپنے آپ کو برتر ثابت کرکے شادی کے بعد کوئی لڑکی نئے گھر میں لوگوں کے دل نہیں جیت سکتی ہے بلکہ وہ دوسروں کی عزت کرکےہی اپنے لئے احترام کی فضا قائم کرے تو یہ بہتر ہے۔(باقی صفحہ نمبر41 پر )
(بقیہ:ساس اور بیوی کی لڑائی میں گھاس کی طرح پستے شوہر)
اسے اپنا کردار اس طرح نبھانا چاہیے کہ گویا وہ بھی ان میں سے ایک ہی ہے اور ان سے اتنی ہی انسیت رکھتی ہے جتنی کہ گھر کے دیگر افراد میں ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے ساتھ ہی سراہنے کا عمل ایسا جادو ہے جو رشتوں کے قیام میں معجزاتی تبدیلی لاسکتا ہے اور ساس کے ساتھ بہو کے تعلقات مثالی ہوسکتے ہیں۔ اگر سسرالی اپےن عمل اور ردعمل کے اظہار کے حوالے سے حق کا استعمال کرتے رہیں اور ان کی من مانیاں واضح رہیں تو آگے چل کر بہت سارے دلوں میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں۔کسی ساس، بہو یا بھابھی کی ایسے الفاظ میں تعریف کرنے میں کیا حرج ہے کہ وہ بہت سگھڑ اور امور خانہ داری میں ماہر ہیں اور یہ بتانے میں کیا قباحت ہے کہ آپ کو ان سے کچھ سیکھا کر اچھا لگے گا۔ بہو اگر طاہری بناتے ہوئے ایک مرتبہ آلو زیادہ ڈال دے اور شکایت کرنے پر اگلی مرتبہ آلو تلاش کرنا پڑیں تو اس سے بچنے کے لیے کیا بہتر یہ نہیں ہے کہ کسی سے تناسب پوچھ لیا جائے مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ کسی سے پوچھنے کو اپنی ہتک سمجھا جاتا ہے۔ کسی تقریب میں جانے سے قبل اگر نندیں اپنی بھابھی کو کوئی خاص ڈریس پہننے کا مشوردیں جو کہ محفل میں ان کی شان میں اضافہ کردے تو ان کی یہ فرمائش پوری کرنے میں کوئی حرج ہے؟ گھر میں پکائی جانے والی کسی ڈش کے اچھے ذائقے کا اظہار کرنے پر آپ کا کوئی خرچہ نہیں ہوگا مگر محض ایک تعریفی جملہ دل جیت لے گا۔ دن بھر میں آپ کو ایسے سینکڑوں مواقع میسر آتے ہیں جب چند تعریفی یا توصیفی کلمات ماحول کو خوشگوار بناسکتے ہیں۔
لیکن آپ خواہ ساس ہوں یا بہو اگر ان جادوئی اثرات کے حامل الفاظ سے گریز کرتی ہیں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ ایک سنہری موقع گنوایا جارہا ہے اور ایک درست چیز کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ ہمارے چند مثبت جملے اور کچھ اچھے الفاظ بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم ان کی اہمیت کو تسلیم کرنے یا جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ صرف ذراسی برداشت، معمولی سا درگزر اور ہلکی سی سمجھداری رشتوں کو مضبوط اور مستحکم کرسکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر زبان اور الفاظ کی ادائیگی کا طریقہ کار ہے جسے پھسلنے سے محفوظ کرکے رشتوں کو بکھرنے اور ٹوٹنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ کیا محبت کرنے والی ماں اور پیار کرنے والی بیوی اس شخص کے لئے اتنا بھی نہیں کرسکتیں جو ایک کا بیٹا اور ایک کا شوہر ہے!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں