شیخ صاحب سے اکثر ملاقات مسجد میں ہوتی تھی۔ ویسے وہ ہمارے آبائی گھر کے قریب بازار میں شیخ صاحب رنگ والے مشہور تھے۔ نہایت متقی‘ شریف النفس انسان تھے۔ حلیم اور وضع دار تو تھے ہی کہ ہر ایک کی اچھائی پر نظر رکھتے تھے اور عمر میں بہت بڑے تھے۔ شروع دن ہی سے انہیں مریض دیکھتا چلا آرہا تھا ۔کبھی کبھی دکان سے اٹھ کر مسجد میں آ کر لیٹ جاتے، دکان گھر سے زیادہ دور نہیں تھی۔ اکثر رات کو سوتے سوتے اٹھتے اور دکان کے تالے چیک کرتے کہ کہیں کھلے تو نہیں رہ گئے ۔بعض اوقات بیٹھے بیٹھے کھو جاتے اور اچانک چونک کر اپنے شعور کو بحال کرتے ۔سالہا سال انہیں سوچوں میں گم ہی دیکھا ۔ پھر میرے کالج کا دور شروع ہو گیا۔ اس مسجد سے دوسری مسجد کی طرف رخ بدل گیا اور شیخ صاحب سے ملاقات بھی کبھی کبھار ہونے لگی۔ کچھ عرصے کے بعد ان سے کچھ تفصیلی ملاقات ہوئی تو محسوس کیا کہ موصوف صحت اور باوجود بڑھاپے کے چاق و چوبند اور پہلے سے کہیں زیادہ چست ہیں۔ ان سے اس صحت و تندرستی کی وجہ پوچھی توانہوں نے اپنی بپتا سنائی، وہ قارئین کی نذر ہے۔
ان کے بقول میں گھٹنوں اور جسم کے ہر جوڑ کے درد، سر میں درد، کمر میں درد، اعصابی کچھاﺅ، جسم کی کمزوری، معدے کے نظام میں مسلسل خرابی، چھینکوں کا طوفان‘ہر وقت ناک سے پانی بہنا، نزلہ زکام ‘الرجی، طبیعت کی بے چینی ‘کمزوری، خاص طاقت کی نہایت کمزوری بلکہ صورت حال یہ تھی کہ میں مجموعہ امراض تھا۔ کبھی کوئی دوائی کھاتا کبھی کوئی۔ بعض اوقات واضح محسوس ہوتا کہ میں یا تو ادویات کا عادی ہو گیا ہوں یا دوائیں مجھ پر اثر کرنا چھوڑ گئی ہیں۔ بس یہی دن رات تھے‘ میں تھا اور ادویات تھیں۔ زندگی کے دن رات یونہی گزر رہے تھے اور چین کبھی نصیب نہ ہوا ۔جب بھی کسی اچھے ڈاکٹر‘ ہومیوپیتھک یا حکیم کا تذکرہ سنتا، وہیں پہنچ جاتا اور ادویات استعمال کرتا۔ اسی طرح مجھے پتہ چلا کہ لاہور میں ایک ڈاکٹر یورپ سے اعلیٰ ڈگریاں لے کر آیا ہے اور بے شمار دکھی اس کی طرف رجوع کر رہے ہیں ۔میں نے بھی ملاقات کا وقت لے لیا۔ جب ملاقات ہوئی اور میں نے اپنی رپورٹیں اور ادویات کی فائل ان کے سامنے رکھی تو تسلی سے دیکھ کر کہنے لگے دنیا کی کوئی دوائی آپ نے نہیں چھوڑی۔ میں آپ کو کونسی دوا دوں پھر کچھ سوچ کر پہلو بدلا اور بولے یہ بتائیں کہ آپ سوچتے زیادہ ہیں؟ میں نے جواب دیا کون نہیں سوچتا، میں بھی سوچتا ہوں۔ کہنے لگے میں نے زیادہ سوچنے کا سوال کیا ہے۔ جب انہوں نے کریدا تو میں نے بتایا کہ دراصل میں شروع سے ہی زیادہ سوچتا ہوں۔ماں بچپن ہی میں فوت ہو گئی، باپ نے دوسری شادی کر لی۔ نئی ماں نے تشدد اور سختی سے پرورش کی۔ پھر باپ نے علیحدہ کر دیا۔ خود کماﺅ‘ خود کھاﺅ۔ حالات ساز گار نہ تھے ۔میں ساری ساری رات سارا سارا دن سوچتا۔ اولاد نافرمان نکلی ان کی طرف سے مسلسل پریشانی‘ پھر بیٹے کی بیٹیاں زیادہ ہوگئیں‘ وہ سوچیں۔ الغرض میں سوتے ہوئے سوچتا، جاگتے میں سوچتا ۔میرے دن رات یونہی گزرتے رہے۔ آہستہ آہستہ میں جوڑوں گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہو گیا۔ پھر آہستہ آہستہ اور بیماریوں میں گھرتا چلا گیا اور ادویات کا سہارا لیتا چلا گیا۔ جب یہ درد بھری کہانی لاہور والے ڈاکٹر کو سنائی تو بجائے غم زدہ ہونے کے وہ مسکرایا اور پرُ اعتماد لہجے میں کہا کہ آپ بالکل تندرست ہو جائیں گے بس جو کہوں وہی مانیں کہ آج کے بعد سوچنا چھوڑ دیں ۔کیا آپ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور یقین نہیں رکھتے ؟کیا کوئی طاقت آپ کے کام بنا سکتی ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ چاہیںتو ہمارے ہر کام میں خیر نہیں کر سکتے ہیں ؟کیا آپ کے سامنے وہ حدیث نہیں کہ مفہوم ہے کہ میں بندے کے گمان کے بقدر معاملہ کرتا ہوں۔ پھر آپ کیوں اللہ تعالیٰ پر اچھا گمان نہیں کرتے اور ہر پل یہ کیوں نہیں سوچتے کہ انشا اللہ میری مدد ہوگی‘ حفاظت ہوگی‘ میں صحت مند ہوں ‘مجھے کوئی بیماری نہیں۔ آپ رات اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے اور یہی سوچتے ہوئے سو جائیں اور یہی سوچتے ہوئے اٹھیں کہ آپ بالکل تندرست ہیں۔ ہر چیز آپ کو بہترین ملی ہوئی ہے۔ میں دنیا کا خوش قسمت انسان ہوں۔ میرے پاس ہر نعمت ہے‘ میں کسی نعمت سے محروم نہیں‘ میرا ہر کام نہایت بہترین ہوگا۔ مجھے کسی چیز کی کمی نہیں۔ تین ہفتے کے بعد میرے پاس پھر آئیں۔ میں آپ سے فیس نہیں لوں گا اور مجھے اپنی طبیعت چیک کرائیں۔ شیخ صاحب فرمانے لگے ڈاکٹر صاحب نے مجھے ایک گولی بھی نہ دی بلکہ یہی ہدایات دیں کہ سوچنا چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا شروع کر دیں۔ شروع میں اس کی مشق مشکل تھی لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور تین ہفتے کے بعد جب میں ڈاکٹر صاحب کے سامنے بیٹھا تھا تو ڈاکٹر کے چہرے پر وہی مسکراہٹ کہ آپ بالکل تندرست ہو جائیں گے۔ واقعی میں اسی فیصد بہتر ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے سابقہ ہدایات کو دہرانے کا بھرپور مشورہ دیا اور بغیر فیس کے رخصت کیا اور کھانے کو ایک گولی بھی نہ دی۔ شیخ صاحب مرحوم کچھ عرصہ قبل فوت ہو گئے ہیں لیکن میں نے انہیں زندگی میں پھر کبھی بیمار، پریشان اور لنگڑاتے نہیں دیکھا۔ قارئین میں یہ کہانی سن رہا تھا اور شیخ صاحب کے جسم کو دیکھ رہا تھا کہ واقعی سوچیں لازوال طاقت اور بے مثال معالج ہیں۔ یہ ایک واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے ایسے بے شمار واقعات بحیثیت معالج میری زندگی میں آئے ہیں کہ آپ کے سامنے اگر بیان کرنا شروع کر دوں تو ڈھیروں صفحات درکار ہوں اور ہزاروں لاکھوں الفاظ چاہئیں۔ آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ آپ کیسی بھی تکلیف میں مبتلا ہوں ،چاہے وہ کتنی ہی ناممکن مشکل ہو کیسا ہی لاعلاج مرض ہو، معالج عاجز آ گئے ہیں، گھر والے تھک گئے ہوں یا پھر ایسا لاحل مسئلہ جو کسی عدالت یا کچہری سے حل نہ ہوتا ہو تو آپ بس اتنا کریں کہ اس کے لیے اچھا سوچنا شروع کردیں اور ہر بات میں یہی سوچیں کہ سب بہتر ہوگا۔ اچھا ہوگا، ہر چیز بھلی ہوگی، میں تندرست ہوں مجھے کوئی تکلیف نہیں۔آئیے آپ کو یہ سوچیں دے کر تندرست کریں اور ان سوچوں کو آزما کر آپ معاشرے کے باکمال اور معزز بن سکتے ہیں بس مسلسل مشق اور ہمت شرط ہے۔ سوچوں سے فائدہ پا کر آپ ہمیں ضرور لکھیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 997
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں