پھلوں کی شان میں صرف اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن مجید اور بائبل دونوں میں پھلوں کا ذکر تعریف سے آیا ہے۔ ہزاروں برس کی انسانی تاریخ میں پھلوں کو ہمیشہ بہترین غذا سمجھا گیا ہے۔ جب شکر (چینی) دریافت نہیں ہوئی تھی تو مٹھاس کا واحد ذریعہ پھل تھے۔ پھلوں میں اکثر حیاتین پائی جاتی ہیں۔ ان میں خاص طور پر حیاتین ج قابل ذکر ہے۔
پھلوں میں اکثر معدنی نمک پائے جاتے ہیں
پھلوں کے دوائی فوائد: جتنے بھی پھل ہیں ان میں کوئی نہ کوئی دوائی فوائد موجود ہیں۔ مغرب نے پھلوں میںحیاتین اور معدنی نمک دریافت کیے ہیں، مگر مشرق اس سے بھی پہلے تمام پھلوں کے بعض دوائی خواص معلوم کر چکا تھا۔ اگرچہ لوگ انہیں مٹھاس، ذائقے اور خوشبو کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن اطباءانہیں بطور دوا استعمال کراتے آئے ہیں۔
شکر کی چند قسمیں
طب میں شکر کی چند قسمیں ہیں۔ گنے اور چقندر کی شکر کو سکروس (Sucrose)، انگور کی شکر کو گلوکوز، پھلوں کی شکر کو فرکٹوس اور دودھ کی شکر کو لیکٹوس کہتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ گنے، چقندر وغیرہ کی شکر ”سکروس“ (Sucrose) مستعمل ہے۔ مغرب میں اس کا استعمال 28 کلو گرام فی کس سالانہ ہے۔ چوں کہ یہ شکر حیاتین اور معدنی نمکوں سے خالی ہوتی ہے، اس لیے اس کا معدے، آنتوںاور لبلبے پر بوجھ پڑتا ہے۔ ماہرین نے سفارش کی ہے کہ اس کا استعمال پانچ برس میں 4 کلوگرام گھٹایا جائے اور آئندہ پندرہ برس میں مزید4 کلو گرام کم کیا جائے۔ اس کے بجائے پھل استعمال کیے جائیں۔
گنے کی سفید شکر اور پھل کی مٹھاس کا فرق
پھل کی مٹھاس یا شکر قابل ہضم حالت میں ہوتی ہے۔ جب کہ سفید شکر (سکروس) قابل ہضم حالت میں نہیں ہوتی۔ بدن میں جانے کے بعد آنتوں کے رساﺅ اسے قابل ہضم بناتے ہیں۔سفید شکر سے تیزابیت پیدا ہوتی ہے۔ اگرچہ تھوڑی مقدار میں سفید شکر کے استعمال سے ایسا نہیں ہوتا۔ تاہم تھوڑی مقداروں کا مسلسل استعمال تیزابیت کا باعث بنتا ہے۔ پھلوں میں لیموں، نارنگی اور انناس میں ہلکا تیزابی اثر ہوتا ہے، مگر اس سے تیزابیت نہیں ہوتی۔ تیزابیت سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ کشمش، انجیر، کھجور، مالٹے، کینو، آڑو اور انگور استعمال کیے جائیں۔ پھلوں کی ہلکی تیزابیت توڑ پھوڑ کرنے والے جراثیم کی پیدائش کو روکتی ہے۔ جن امراض میں تیزابی غذاﺅں کا استعمال ممنوع ہوتا ہے، مثلاً اعصابی سوزش اور روماتزم، ان میں پھلوں کے استعمال کی سفارش کی جاتی ہے۔
پھلوں کا گودا بڑی اہم چیز ہے۔ اس سے غذا کو آنتوں میں آگے بڑھانے والی حرکت دودیہ کوتحریک ملتی ہے۔
انگور کا رس خواہ وہ پانی کا سوواں حصہ ہی کیوں نہ ہو، ٹائیفائیڈ بخار کے جراثیم کو چندمنٹ میں ہلاک کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایسی ہی قوت لیموں، نارنگی اور انناس کے رس میں بھی ہوتی ہے۔ شکم میں ہضم کا عمل بھی ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس میں جراثیموں کو بھی مارا جاتا ہے اس سے شکم جراثیم سے پاک ہو جاتا ہے۔ بچوں کو بھی پھل کھانے کی ترغیب دینی چاہیے اور پھل کھانے کا طریقہ بھی سکھانا چاہیے۔ ماﺅں کا کام ہے کہ انہیں مناسب پھل چن کر دیں۔ اگر بچے بہت چھوٹے ہوں تو پھل کے گودے کو کچل کر نرم کر کے کھلایا جائے۔
پھلوں اور ان کے رس کو آہستہ آہستہ کھانا اور پینا چاہیے تاکہ ان میں منہ کا لعاب شامل ہوتا جائے۔
پھل زیادہ مفید ہیں یا ان کے رس؟
یوں تو پھل کے رس یا جوس میں زیادہ مزہ آتا ہے ورنہ حرارے، سالم پھل اور جوس دونوں میں برابر ہوتے ہیں مثلاً ایک درمیانے سیب میں 75 حرارے ہوتے ہیں اور 8 اونس جوس میں بھی اتنے ہی حرارے ہوتے ہیں۔
لیکن پھل کھانے میں کچھ اور فائدے بھی ہیں
پھل ریشے (فائبر) کا اچھا ماخذ ہوتا ہے۔ ریشہ فالتو چربی کو ختم کرتا ہے۔
جوس میں مرتکز شکر ہوتی ہے۔ یعنی ایک ہی جگہ شکر جمع ہوتی، لیکن پھل میں کم ہوتی ہے۔
اگر آپ پھل کھاتے ہیں تو نفسیاتی طور پر آپ کا پیٹ بھر جاتا ہے یعنی آپ سیر ہو جاتے ہیں۔ جوس میںایسا نہیں ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آپ بہت زیادہ جوس پیتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں