داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ (پھلت):حضرت مولانا عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
مجھ پر احسان کریں اور مجھے ٹیوشن پڑھادیں
وہ ایک اچھے سکول میں سائنس کی استاد تھیں اور ان کی اولین ترجیح اپنے طلباء کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا تھااس کے لیے دن رات کسی وقت بھی ان سے استفادہ کیلئے کوئی طالب علم بلاجھجک ان کے پاس آجاتا تھا‘ پورے علاقہ میں وہ اپنے اس شوق اور طلباء سے ہمدردی کے لیے مشہور ہوگئی تھیں۔ ایک روز شام کو ان کے پاس ایک طالب علم آیا جو بارہویں کلاس میں تھا‘ اس نے ان سے کہا بورڈ کا امتحان ہے‘ میری والدہ کی خواہش ہے کہ میں امتیازی نمبروں سے پاس کروں اگر آپ مجھ پراحسان کریں اور مجھے ٹیوشن پڑھادیں تو امتحان کے بعد میں آپ کے ٹیوشن فیس ادا کروں گا۔ طالب علم کے شوق کی وجہ سے آسیہ نے شام پانچ بجے کا وقت اس کو دے دیا‘ وہ شوق اور پابندی کے ساتھ ٹیوشن پڑھنے آتا اور تقریباً روز اپنی سعادت مندی سے ان کا شکریہ ادا کرتا‘ امتحان قریب آگئے اور نصاب پورا ہوگیا تو ایک دن وہ آیا اور بولا میڈم مجھے اپنا نصاب دہرانا ہے کیا آپ مجھے نصاب میں سے امپورٹنٹ اسباق بتاسکتی ہیں۔
کتاب میں موجود بے ہودہ خط نے ہوش اڑا دئیے
آسیہ نے کہا: کیوں نہیں ضرور تم کل کتاب دے جانا میں رات میں نشان لگا کر اگلے روز واپس کردوں گی۔ وہ دیکھتی تھی کہ روزانہ جس سبق کو اسے پڑھنا ہوتا وہ اسے ایک کاپی پر نقل کرکے لاتا تھا‘ آسیہ اس سے پوچھتی تم کتاب لے کر کیوں نہیں آتے وہ کہتا میڈم لکھنے سے مجھے کچھ سبق یاد ہوجاتا ہے اور مجھے لکھنے کی مشق بھی ہوتی ہے اگلے روز وہ کتاب لایا اور دے کر چلا گیا۔ آسیہ نے خاص خاص اسباق پر نشان لگانے کے لیے کتاب کھولی تو آگ بگولہ ہوکر رہ گئی‘ اس کتاب کے درمیان ایک خط تھا‘ جس میں انتہائی فحش انداز کا لو لیٹر موجود تھا۔
اس کمینہ کی جرأت کیسے ہوئی؟
وہ جھلا کر رہ گئی کہ اہم اسباق پر نشان کے بہانے وہ مجھے یہ لو لیٹر دینا چاہتا تھا‘ رات بھر اسے نیند نہیں آئی‘ اس کمینہ کی ایسی جرأت کیسے ہوئی؟ وہ اگلے روز اسی سعادت مندی کیساتھ پڑھنے آیا تو آسیہ نے بے دردی سے اس کی پٹائی کی اور دروازہ سے بھگادیا کہ تم جیسے کمینہ لڑکے کو میں نہیں پڑھاسکتی‘ کم ظرف کیساتھ احسان کرنا بھی کم ظرفی ہے‘ وہ آسیہ کو سوالیہ نگاہوں سے تکتا ہوا ‘معافی مانگتا ہوا ڈبڈبائی نگاہوں سے رخصت ہوا۔
نہر میں ڈوب کر خودکشی کرلی
اگلے روز ایک لڑکا آسیہ کے گھر آیا اور معذرت کے ساتھ اس نے کہا میڈم کل ندیم جو میرا دوست تھا‘ اس کے والد کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا‘ وہ چنے اور کافی بیچ کر والدہ کی کفالت کرتاتھا‘ والدہ کی بیماری کا خرچ کی وجہ سے وہ کتابیں نہیں خرید سکا تھا روزانہ میری کتابوں سے ایک سبق نقل کرکےلاتا تھا کل خاص اسباق پر نشان لگوانے کیلئے وہ میری کتاب مانگ کر لایا تھا میڈیم مجھے وہ کتاب چاہیے معافی چاہتا ہوں کہ اس میں میرا ایک خط بھی تھا جو غلطی سے رہ گیا تھا‘ آسیہ دھک سے رہ گئی اور پوچھا کہ ندیم ہے کہاں؟ اس نے کہا آپ نے اخبار میں تو پڑھا ہی ہوگا کہ اس نے رات میں نہر میں ڈوب کرخودکشی کرلی ۔
لاچار بیوہ کے جگرگوشہ کے قتل کا گناہ
اس معصوم کی ڈبڈبائی اور پاکیزہ آنکھیں جو آسیہ کے دل میں چبھی ہوئی تھیں اس کو کھائے جارہی تھیں اب اسے رازمعلوم ہوا کہ وہ کتاب کے بجائے روزانہ کسی ردی کے کاغذ پر نقل کرکے کیوں لاتا تھا؟ وہ اپنے کو جذبات اورانفعال پر ندامت کے حال میں بھی نہیں پاتی تھی‘ جلدبازی میں بغیرتحقیق کے انفعالی فیصلہ کی وجہ سے ایسے پاکیزہ جذبہ والے کسی لاچار بیوہ کے جگرگوشہ کے قتل کے گناہ سے وہ کیسے عہدہ برآہوسکتی ہے۔ وہ زندگی بھر اس غم میں گھلتی رہی مگر اس کی تلافی کے لیے کوئی حل زندگی بھر سمجھ میں نہیں آیا۔
کاش! ہم صبرو تحمل کرنا سیکھ جائیں
جذبات و انفعال میں ہم لوگ کتنے ایسے فیصلے کرلیتے ہیں جن کی تلافی بھی ہمارے لیے ناممکن ہوتی ہے۔ اس لیے دین رحمت نے صبر و تحمل کی اس قدر تلقین کی کہ قرآن مجید میں جتنی بار ایمان کا لفظ آیا ہے اتنی بار صبر کا ذکر کیا ہے اور صبر کے معنی قرآنی زبان میں امید کے خلاف مزاج کے خلاف‘ مفاد کے خلاف‘ بغیر منفعل ہوئے اپنی بھلائی پر جمے رہنا ہے‘ رب کائنات نے یہاں تک ہدایت دی ہے کہ ترجمہ:(کسی جماعت کی دشمنی تم کو اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو انصاف کرتے رہو وہ تقویٰ سے بہت قریب ہے) کاش! ہم اس طرح کے ناقابل تلافی نقصان سے بچنے کیلئے جلدبازی میں انفعالی اور جذباتی فیصلوں پر انتقام کے بجائے صبرو تحمل سے کام لینے کے عادی بنیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں