شیشم کے درخت کا بیڈشوق سے بنوایا تھامگر
میرا بڑا بیٹا حامد کہنے لگا ابو جان میرے ایک دوست نے شیشم کا ڈبل بیڈ بڑے شوق سے بنوایا تھا لیکن وہ اس پر سو نہیں سکتا اس کا کہنا ہے کہ وہ میاں بیوی جب بھی بیڈ پر سوتے ہیں ان کے جسم میں سوئیاں چبھنے لگتی ہیں میرا دوست کہتا ہے بیڈ ہونے کے باوجود ہم دونوں زمین پر سوتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں یہ بیڈ تم گھر لے جائو اگر آپ کی اجازت ہو تووہ بیڈ میں گھر لے آئوں۔ میں نے کہا لے آئو لیکن تمہارے پاس تو ڈبل بیڈ ہے کہنے لگا آپ اپنے کمرے میں بچھا لینا۔ میں نے کہا اچھا دیکھیں گے ابھی تم لاکر اسے صحن میں ایک طرف رکھ دو۔ حامد دوسرے دن بیڈ لے آیا اور اسے صحن میں ایک طرف رکھ دیا ابھی بیڈ کو آئے ہوئے تیسرا دن تھا میں گھر آیا تو دیکھا میری بیوی کا بھائی شہزاد علی صحن میں چار پائی پر لیٹا تھا۔ اور اس کا چہرہ زرد ہورہا تھا۔ میں نے پوچھا شہزاد علی کیا ہوا کہنے لگا رات کو مجھے کمرے میں گرمی محسوس ہوئی میں نے بیوی سے کہا پنکھے کو ذرا تیز کردو یہ اٹھی اور پنکھے کو پوری سپیڈ پر لگایا تو اس میں سے گردوغبار نکلا اور میرے جسم پر لگا اس کے بعد سے میری طبیعت خراب ہے میں نے اسے دم کیا اور ایک تعویذ بناکر دیا کہ اسے گلے میں پہن لے۔
بزرگ جن برسوں سے میرے ساتھ ہے!
دوسرے دن میں گھر آیا تو شہزاد علی گھر میں موجود تھا میں نے پوچھا شہزاد علی آج پھر کام پر نہیں گیا۔ کہنے لگا ابھی میری طبیعت پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئی کل سے کام پر جائوں گا۔ ہم باتیں کررہے تھے کہ اسی اثنا میں ’’ش‘‘ دم کروانے آگئی۔ اس کے جسم میں جن تھا جو اپنی عمر ایک ہزار سال بتاتا تھا۔ وہ بچپن سے اس کے ساتھ تھا۔ بابا سلطان مرحوم نے اسے دو چار بار کہا بھی کہ اسے نکلوالے۔ وہ کبھی تو تیار ہو جاتی تھی کبھی منع کردیتی کہ بزرگ جن ہے۔ برسوں سے میرے ساتھ ہے میرا کوئی نقصان نہیں کرتا اب اس عمر میں وہ کہاں جائے گا۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ جن بھی وقتاً فوقتاً اس کی مدد کرتا رہتا تھا۔ میں ’’ش‘‘ کو دم کررہا تھا تو میری بیوی نے ’’ش‘‘ سے کہا۔ ذرا شہزاد علی کو تو دیکھ کر تیرا بابا جن بتائے یہ اس کے ساتھ کیا معاملہ درپیش ہے۔ ’’ش‘‘ نے نظر اٹھا کر شہزاد علی کی طرف دیکھا۔ پھر اس کی نظر پلنگ کی طرف گئی تو کہنے لگی یہ پلنگ جو تم نے دیوار کے ساتھ کھڑا کر رکھا ہے۔
وہ سامنے آگئی تو تم لوگ ڈر جاؤ گے
اس میں ایک چڑیل بیٹھی ہے وہ کہہ رہی ہے ان سے کہو اس پلنگ کو بچھائیں، میں نے رات کو آرام کرنا ہے۔ میں نے کہا اسے کہو سامنے آکر بات کرے۔ ’’ش‘‘ نے اسے کہا تو وہ کہنے لگی میں سامنے آگئی تو تم لوگ ڈر جائو گے۔ میں نے کہا سامنے تو آ پھر دیکھیں گے ہم ڈرتے ہیں یا تو ڈرتی ہے۔ لیکن وہ سامنے آنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ میں نے کہا جب تک یہ سامنے نہیں آئے گی یہ پلنگ اسی طرح دیوار کے ساتھ پڑا رہے گا اور یہ یونہی بے آرام رہے گی۔ اس بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ ’’ش‘‘ دم کروا کر چلی گئی۔ دوسرے دن میں بابا سلطان مرحوم کے پاس گیا تو وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے۔ یار حنیف محمد میں تجھے ہی یاد کررہا تھا تجھے ایک بات بتانی تھی۔ میں نے کہا بتائیں۔
رات کے آخری پہر گلی میں کھڑی جوان عورت
کہنے لگے کل رات میں مسجد جانے کے لیے گھر سے نکلا۔ جب تمہاری گلی میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا تمہارے گھر کے سامنے جو کھمبا ہے اس کے پاس ایک عورت سرخ جوڑا لیے خوب بنی سنوری کھڑی تھی۔ پہلے تو مجھے حیرت ہوئی کہ رات کے آخری پہر یہ جوان عورت یہاں کیا کررہی ہے، جب میں اسے کے قریب ہوا تو وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی اس کے دانتوں کی بناوٹ دیکھ کر مجھ پر اس کی حقیقت آشکار ہوگئی۔
اس چڑیل سے پوچھنا تو تھا کیا چاہتی ہے؟
میں نے فوراً لاٹھی کو سر سے بلند کیا اور اسے للکارا۔ دیکھ حرامزادی میں تیرے دانت کیسے توڑتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں اس پر لاٹھی کا وار کرتا وہ نظروں سے اُوجھل ہوگئی۔ میں نے کہا، بابا جی ایک تو جنات کو دیکھتے ہی آپ غصہ سے بے قابو ہو جاتے ہیں۔ اس سے پوچھنا تو تھا وہ کون ہے اور کیا چاہتی ہے؟ کہنے لگے بس یار اگر وہ مجھے دیکھ کر نہ مسکراتی تو میں اسے ضرور پوچھتا لیکن جب وہ مسکرائی اور میں نے اس کے دانت دیکھے تو غیر ارادی طور پر مجھے غصہ آگیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ
میرے گھر ایک لکڑی کا پلنگ آیا ہے۔ یہ اس کی چڑیل ہے۔ میرا ارادہ اس کے ساتھ راہ و رسم کا ہے۔ اگر یہ ہماری دوست نہ بن جائے اور ہمارے عملیات کے کام میں ہماری مدد کرے تو ہمارا کام آسان ہو جائے گا۔ بابا سلطان مسکرائے اور کہنے لگے یہ تیری خام خیالی ہے۔ یہ بہت مغرور ہوتے ہیں اپنے آپ کو ہم سے برتر سمجھتے ہیں۔ دفع کر اس کو کسی مصیبت میں نہ پڑجانا۔ میں نے کہا اب جو ہوگا دیکھا جائے گا آپ ان سے نہیں ڈرتے میں بھی کوشش کرتا ہوں کہ ان سے نہ ڈروں۔
اس کے دو چار روز بعد سارے گھر والے کسی تقریب میں شرکت کے لئے لاہور چلے گئے اس دن چھٹی کا دن تھا عصر کے وقت میں نے ٹی وی لگایا اور خبریں دیکھنے لگا ابھی تھوڑی دیر گزری تھی میں نے محسوس کیا کہ میں خوف زدہ ہورہا ہوں میں نے آیت الکرسی اور چاروں قل پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا لیکن خوف کم نہ ہوا۔ میں نے دوبارہ آیت الکرسی اور چاروں قل پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا اور مسلسل پڑھتا ہی چلا گیا لیکن خوف بڑھتا چلا گیا اس خوف کے سامنے میں بے بس ہوگیا۔ میں جان گیا تھا چڑیل میرے سامنے آنا چاہ رہی ہے۔ لیکن آنے سے پہلے خوف زدہ کرکے مفلوج کرنا چاہتی ہے۔ اب اس کے اس منتر کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا۔ میں نے سوچا میں بے وقوفی کررہا ہوں۔ اگر اس طرح میرا خوف چڑھتا گیا تووہ مجھے نقصان پہنچائے گی۔ چنانچہ میں نے ٹی وی بند کیا اور مسجد میں چلاگیا۔ مسجد میں بیٹھ کر مجھے سکون ملا اور حوصلہ ملا میں مسجد میں بیٹھا رہا اور مغرب کی نماز پڑھ کر اپنے بیٹے کی طرف چلا گیا۔ رات کا کھانا میں نے اس کے ساتھ کھایا اور رات میں نے اس کے پاس گزاری دوسرے دن صبح جو سب سے پہلا کام میں نے کیا۔ وہ یہ تھا کہ میں نے اسی دن وہ پلنگ ایک فرنیچر والے کو اونے پونے بیچ دیا۔ گھر سے پلنگ گیا تو وہ چڑیل بھی چلی گئی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں