دور جدید کے والدین کا یہ قصہ پہلا نہیں ہے‘ ہمارے ایسے بہن بھائی اور رشتہ دار جو باہر کے ملک میں مقیم ہیں اور ان کے بچوں کے ناجائز تعلقات تک ہوتے ہیں‘ شرابی‘ جواری ہوتے ہیں (میں احتیاط سے قلم استعمال کررہی ہوں مگر ضبط نہیں ہورہا‘ کسی کو بُرا لگا تو معذرت مگر یہ سچ ہے)
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! آج میں بہت خوشی سے خط لکھ رہی ہوں‘ جو قرض ہم نے بینک سے لیا تھا وہ اسی مہینے ادا ہوگیا ہے‘ حالانکہ ابھی ایک سال کی اقساط باقی تھیں۔ مگر میرے شوہر نے اس مہینے کی تنخواہ میں کچھ اور رقم ڈال کر ادا کردیا‘ اب ہم سود ادا کرنے سے بالکل پاک ہیں‘ اگرچہ یہ مہینہ انتہائی تنگی میں گزر رہا ہے مگر ایک خوشی ہے کہ ہماری جان سود سے چھوٹ گئی‘ یہ سب کچھ تسبیح خانہ سے جڑنے اور اعمال کرنے کا انعام ہے۔
اب میں ایک واقعہ قارئین کی نذر کرنا چاہتی ہوں۔ لکھتے ہوئے کچھ دل اداس بھی ہے۔ ہوا یہ کہ ایک ٹیچر جو کہ میری دوست بھی ہے اور اس کی بیٹی میری بیٹی کی دوست ہے‘میری اس دوست کے گھر ہروقت موبائل فون‘ ٹیب‘ فیس بک چلتی رہتی ہے اور میری بیٹی کی سہیلی کی لڑکوں سے بے حد دوستیاں ہیں اور اکثر و بیشتر تحائف کا سلسلہ بھی چلتا ہے‘ جبکہ اللہ کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے گھر میں ایسی کوئی چیز نہیں‘ میرے پاس صرف 2000 روپے والا موبائل ہے‘ جو کہ پیڈ والا ہے‘ اس میں نہ فیس بک‘ نہ چیٹ‘ نہ واٹس ایپ اور نہ ہی کوئی دوسری بلا ہے۔ میری بیٹی اپنی نانی اماں کی بیسٹ فرینڈ ہے۔ درج بالا ساری باتیں میری بیٹی نے اپنی نانی اماں کو بتائی ہیں کہ یہ تمام کام چھ ماہ سے مسلسل ہورہا ہے۔گزشتہ چاند رات کو بھی میری بیٹی جب ان کے گھر گئی ہوئی تھی تو کچھ لڑکوں نے گھر کے دروازہ پرآکر اس بچی کو تحائف دئیے اور عید مبارک باد کہا او ریہ سب کچھ محلے داروں او رشتہ داروں کے سامنے ہوا۔ پہلے پہل میں خامو ش رہی مگر بعد میں ہمت کرکے یہ ساری باتیں اس بچی کی والدہ جو کہ میری بہت اچھی دوست تھی اس سے کیں‘چونکہ اس بچی کی والدہ اور والد دونوں انتہائی شریف‘ ہروقت تسبیح ‘ ذکراعمال کرنے والے‘ نماز کے سختی سے پابند تو میں نے انہیں بتانا مناسب سمجھا۔ لیکن اس وقت میری اور میری دوست کی دوستی میں دراڑ آگئی جب انہوں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ ’’ ایسے ’راز‘ ایسی لڑکیوں کو مت بتایا کرو جو تمہارا راز چھپا نہیں سکتی‘‘ اشارہ میری بیٹی کی طرف تھا‘ یوں ان دونوں لڑکیوں کی دوستی ختم ہوگئی مگر ان ماں، بیٹی کا اعتماد کہ وہ میری بیٹی کو قصور وار سمجھ کر اس سے تعلق توڑ گئیں۔ بچی نے سکول میں تمام بچیوں کے سامنے بڑے فخر سے کہا کہ میری ماں نے تو مجھے کچھ نہیں کہا مگر تمہارا بھانڈا پھوٹ گیا کہ تم راز دار نہیں ہو‘ ان بچیوں کی عمریں صرف اور صرف 14 سال ہیں‘ ان کی ماں اب بھی ملتی ہیں اور میں بھی ملتی ہوں‘ مگر اب دل نہیں ملتے۔
دور جدید کے والدین کا یہ قصہ پہلا نہیں ہے‘ ہمارے ایسے بہن بھائی اور رشتہ دار جو باہر کے ملک میں مقیم ہیں اور ان کے بچوں کے باہر ناجائز تعلقات تک ہوتے ہیں‘ شرابی‘ جواری ہوتے ہیں (میں احتیاط سے قلم استعمال کررہی ہوں مگر ضبط نہیں ہورہا‘ کسی کو بُرا لگا تو معذرت مگر یہ سچ ہے) مگر ماں باپ کہتے ہیں بچے جو کرنا ہے کرو‘ مگر احتیاط سے کرو‘ کسی کو خبر مت ہونے دینا‘ کہیں پاکستان میں ہمارا امیج خراب نہ ہوجائے‘ میں یہ سب سن کر کڑھتی ہوں۔ اب تو کسی کو مشورہ دینے پر بھی خوف آتا ہے میری دوست کی بچی جسے لکھتے ہوئے مجھے دکھ ہورہا ہے کہ وہ بے راہ روی کی ڈگر پر چل پڑی ہے‘ اس نے اپنی والدہ سے سیدھا کہ ’’جاؤ جو کرنا ہے کرلو‘ میں نے اسی راہ پر چلنا ہے‘‘ اللہ کریم اس کی اور ہمارے بچوں کی عزتیں محفوظ رکھے۔مگر میرے اندر سے بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر نماز، ذکر، اذکار، تسبیح، اعمال سب کرلیے مگر اپنی جوان ہوتی اولاد کو سلیقہ نہ سکھایا‘ ادب و آداب نہ سکھائے‘ بچی باپ کے کندھوں تک آگئی ہے اور ماں باپ نے سر ڈھانپنے کا حکم نہیں دیا‘ اینڈرائیڈ موبائل لے کر دے دئیے اور پھر کبھی پوچھا تک نہ کہ بیٹی تم سارا دن اسے لے کر کیوں پھرتی ہوں‘ اس میں سے کیا تلاش کرتی رہتی ہو؟ بلکہ فخر کرنا ہے کہ میری بیٹی توفلاں کمپنی کا موبائل استعمال کرتی ہے۔ خدارا اپنی جوان ہوتی نسلوں کو بچالیں‘ کہیں سٹیٹس کے چکر میں سب کچھ گنوا نہ بیٹھیں۔ میری باتیں شاید کسی کو بُری لگی ہوں تو معذرت چاہتی ہوں میں نے وہی لکھا جو معاشرہ میں دیکھا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں