Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

کیا واقعی چالیس سال کے بعد انسان بوڑھا ہوجاتا ہے؟

ماہنامہ عبقری - اپریل 2019ء

اتنی مدت گزرنے کے باوجود سائنس بڑھاپے کے بارے میں کوئی جامع اور ٹھوس نظریہ پیش نہیں کرسکی ہے۔ سائنس دانوں کے عمومی خیال کے مطابق انسانی جسم میں بڑھاپے کے عمل کی موجودگی کا مقصد نسل انسانی کی بقا و سلامتی ہے۔

جوانی میں پانی پیو تو سرور آتا ہے، دھوپ، چھائوں سے زیادہ اچھی لگتی ہے۔ ’’چلنا، چلنا مدام چلنا‘‘ کی کیفیت نچلا نہیں بیٹھنے دیتی۔ کوہ و دمن دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ مرغ چمن نغموں پر اکساتا ہے۔ جی ورزش اور محنت کو چاہتا ہے۔ سچی بھوک نان جویں کو مرغ و ماہی سے زیادہ لذیذ بنا دیتی ہے۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے کو جی چاہتا ہے، لیکن جب بقول غالب عناصر میں اعتدال ختم اور اعضا مضمحل اور یہ سارے ولولے ختم ہوجاتے ہیں۔سکندر جیسے فاتح اعظم کی ہوس جہانگیری نے بھی جوانی کو شباب دائم کا خواہاں بنا رکھا تھا۔ کسی نے اسے کان میں کہہ دیا تھا ہ آب حیات یا امرت پی کر لوگ ہمیشہ جوان رہتے ہیں۔ چوں کہ فاتح انسان تھا، جوئندہ یا بندہ (تلاش کرنے والا پا جاتا ہے) کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اس پانی کے چشمے کی تلاش میں نکل پڑا اور اور حضرت خضر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رہنمائی میں اس چشمے تک پہنچ گیا لیکن یہ امرت پینے والوں کا حشر دیکھ کر پانی پئے بغیر لوٹ آیا۔ وہ سب زندہ تو تھے لیکن بے حس و حرکت گوشت کے لوتھڑوں کی طرح صدیوں سے پڑے صرف سانس لے رہے تھے۔گویا شباب کی شرط یہی ہے کہ نقل و حرکت کی صلاحیت ہو، جسمانی سرگرمیاں جاری رہیں، زندگی کی ندی زور شور سے بہتی اور بڑھتی رہے،یہ جوانی کی ندی دھیرے دھیرے کیوں تھم جاتی ہے اس میں کائی کیوں جم جاتی ہے؟ یہ سوال اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ خود انسانیت کی تاریخ۔ زمانہ قدیم سے آج تک اس سلسلے میں کاہنوں، ساحروں اور معالجوں نے مختلف نظریے اور رائے پیش کی ہیں جن میں سے زیادہ اگر محض افسانہ قرار دی جاسکتی ہیں تو بہت سے نظریات آج بھی اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ جدید نظریات پیش کرنے والوں نے ان سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ اچھی غذا، ورزش اور مقوی دوائوں، حلووں کے استعمال سے عضلات، اعصاب اور غدود بالخصوص خصیوں کو تحریک دے کر طاقت و شباب کا سامان کرنے کا نظریہ بہت قدیم ہے تو طب جدید بھی انہی خطوط پر آگے بڑھ رہی ہے۔
اتنی مدت گزرنے کے باوجود سائنس بڑھاپے کے بارے میں کوئی جامع اور ٹھوس نظریہ پیش نہیں کرسکی ہے۔ سائنس دانوں کے عمومی خیال کے مطابق انسانی جسم میں بڑھاپے کے عمل کی موجودگی کا مقصد نسل انسانی کی بقا و سلامتی ہے۔ اس اعتبار سے ہماری زندگی کا سب سے اہم وقت توالدو تناسل کا عہد ہے یعنی مرد و زن کا عہد شباب جب ان کے اشتراک سے نئی زندگیاں جنم لیتی ہیں۔ خالص حیاتیاتی اعتبار سے 40سال کے بعد ہم کار آمد اور مفید نہیں رہتے، اگرچہ سماجی اعتبار سے زمانے کے نشیب و فراز سے گزرنے والے بڑی عمر کے افراد اپنے تجربات اور جمع شدہ دانائی کی وجہ سے نسل نو کے لیے بہت مفید ثابت ہوتے ہیں۔
ہم بوڑھے کیوں ہوتے ہیں؟ اس سلسلے میں اس وقت خلوی (Cellular) اور سالماتی (Molecular)اعتبار سے جو نظریات پیش کیے جارہے ہیں انہیں دو عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے: ایک کے مطابق بڑھاپا ایک طے شدہ عمل ہوتا ہے اور دوسرے کے مطابق یہ ایک حادثاتی عمل ہوتا ہے۔ پہلے کے مطابق جو نظریات پیش کیے جارہے ہیں وہ اس مفہوم پر مبنی ہیں کہ استقرارِ حمل سے موت تک انسان کی نشوونما کو حیاتیاتی گھڑی کنٹرول کرتی اور آگے بڑھاتی ہے۔ یہی گھڑی رونما ہونے والی مختلف تبدیلیوں کا وقت بھی طے کرتی ہے۔ بینائی میں آنے والی تبدیلیاں، ہڈیوں میں کیلشیم کی کمی، سننے کی صلاحیت میں فرق اور پھیپھڑوں کی طاقت و صلاحیت میں رونما ہونے والی کمی یہ سب اس کی مثالیں ہیں۔ بڑھاپے کے بارے میں حادثاتی نظریات کی بنیاد یہ تصور ہے کہ جسم یکایک رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے کم زور ہوتا رہتا ہے مثلاً فری ریڈیکلز (مضر نقصان دہ اجزا) کی وجہ سے ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان یا محض زندگی کی بھاگ دوڑ سے اس میں گھسائو یعنی انحطاط کا عمل۔ ان مختلف نظریات کے جائزے سے پہلے یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ بڑھاپے کے بارے میں ان مفروضوں کا جائزہ لے لیا جائے جو بڑھاپے کے علم (علم پیری) میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔بڑھاپا، ایک ارتقائی عمل: عمر میں اضافے کے ساتھ ہم میں پختگی بھی آتی جاتی ہے، اس طرح ہم وقت اور عمر کے اعتبار سے نہیں بلکہ نمو کے اعتبار سے بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ وقت اور عمر کے اعتبار سے ایک ساٹھ سالہ شخص کی جسمانی صلاحیتیں پینتالیس سالہ شخص جیسی ہوسکتی ہیں یا پھر پچاس سال کا ایک شخص اسی سالہ شخص کی طرح بیمار اور کمزور ہوسکتا ہے۔بڑھاپے کا فرق: بڑھاپے اور امراض کے لحاظ سے بڑھاپے میں فرق ہوتا ہے مثلاً کم عمری میں ذیابیطس یا گنٹھیا کی شکایات میں مبتلا ہونے والا شخص قلب اور شریانوں کے امراض یا ہڈیوں کے انحطاط اور گھلائو کی شکایت میں وقت سے پہلے مبتلا ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں موروثی اثرات یا طرزِ حیات اہم کردار ادا کرتے ہیں جب کہ عمر میں اضافے کے ساتھ موتیا کی شکایت معمول کے مطابق قرار دی جائے گی کیونکہ یہ بڑھاپے ہی کی شکایت ہوتی ہے۔طویل عمر، ۲۰ویں صدی کا تحفہ: اس صدی میں امراض کے ٹیکوں،انسولین،ہائی پوٹینسی ادویات کی دریافت، سرجری کے نئے بہتر انداز، ہارمونی دوائوں کے استعمال کے فروغ اور مہلک امراض کے علاج کی دریافت سے عمر میں اضافہ ممکن ہوگیا ہے۔ بڑھاپے کے سلسلے میں اس وقت چار بڑے اور اہم نظر توجہ اور تحقیق کا موضوع بنے ہوئے ہیں: (۱)انحطاط کا نظریہ، (۲)عصبی دروں افرازی نظریہ، (۳)جینیاتی کنٹرول کا نظریہ، (۴)فری ریڈیکلز کا نظریہ۔
انحطاط کا نظریہ: جرمنی کے ماہر حیاتیات ڈاکٹر آگست ویزمین نے ۱۸۸۲ء میں یہ نظریہ پیش کیا کہ ہمارے جسم اور اس کے خلیات کو غلط عادات اور جسم کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے سے نقصان پہنچتا ہے۔ ہماری غذا میں شامل مضر اور زہریلے اجزا اور ماحول کی وجہ سے جگر، معدے، گردے اور جلد متاثر اور کمزور ہوجاتے ہیں۔ ان اشیا میں چربی، شکر، کیفین، الکوحل، نکوٹین (تمباکو)، سورج کی الٹراوائلٹ شعاعیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ جسم کو جسمانی اور ذہنی و جذباتی دبائو سے بھی نقصان پہنچتا ہے اور یہ نقصان خلیات کی سطح پر واقع ہوتا ہے۔ انحطاط کا یہ عمل بدپرہیزی نہ کرنے کے باوجود پہنچتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ بے احتیاطیوں سے
یہ عمل زیادہ تیز ہوجاتا ہے اور ہم چاہے کتنے ہی صحت مند کیوں نہ ہوں، خلیات میں انحطاط ضرور واقع ہوتا ہے۔جوانی میں جسم میں چونکہ اپنی اصلاح اور مرمت کرنے کی صلاحیت زیادہ مستعد ہوتی ہے، اس لیے شدید بے احتیاطیوں کے باوجود جسم انہیں برداشت کرلیتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ثقیل اشیا بکثرت کھانے کے باوجود نوجوان انہیں ہضم کرلیتے ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ قوت اور صلاحیت کمزور ہوہی جاتی ہے اور پھر بڑھاپے میں معمولی غذائوں کا ہضم کرنا بھی ممکن نہیں رہتا۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 460 reviews.