راقم کو ایک طویل عرصہ قبل پاﺅں کے انگوٹھے میں اکثر تکلیف ہوتی تھی‘ ناخن کے اوپر گوشت پھیل جاتا جس کے اندر وقتاً فوقتاً پیپ پیدا ہو جاتی تھی۔ چلنے پھرنے میں تکلیف ہوتی تھی۔ حالت نماز میں جب سجدہ میں جاتا تو تکلیف ہوتی‘ پاﺅں سیدھانہیں رکھ سکتا تھا۔ ایک دوست نے بتایا کہ بعد از نماز پنجگانہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ سُبحَانَکَ اِنِّی کُنتُ مِنَ الظّٰلِمِینَ پڑھا کریں اور دم کریں۔ ہر نماز کے بعد درج بالا پاکیزہ کلمات (مقدس آیت) پڑھتا رہا (تین یا پانچ مرتبہ اول آخر درود مبارک) دم کرتا رہا۔ الحمد للہ تکلیف بالکل ختم ہو چکی ہے۔ ایک دفعہ درابن کلاں کے ایک دوست نے اپنے بچے پر ( جس کے چہرے پر آنکھ کے قریب دانہ نکلا ہوا تھا) دم کرنے کےلئے کہا میں نے انکار کیا کہ دم وغیرہ تو میں نہیں کرتا۔ اس نے اصرار کیا کہ دیکھو حافظ قرآن بھی ہیں، وضو کی حالت میں ہیں (وضو کر کے بندہ کہیں جا رہا تھا) کافی علاج کر چکے ہیں ،افاقہ نہیں ہو رہا۔ آپ بسم اللہ کریں۔ یہی آیت مبارکہ( جو اوپر تحریر کر چکا ہوں) پڑھ کر دیا کافی عرصہ بعد جب وہ آدمی ملا ( جس نے بچے پر مجھ سے دم کرایا تھا) اس نے کہا یقین جانیں دانہ رفتہ رفتہ دم کرنے کے بعد بالکل ختم ہو چکا ہے‘ صرف نشان باقی ہے۔ ادھر اُدھر پھیلا نہیں‘ اللہ کا شکر ہے صرف ایک ہی دم کافی ہو گیا تھا۔ اَللّٰھُمَّ لَکَ الحَمدُ وَلَکَ الشُّکرُ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کسی رنگ و نسل پر موقوف نہیں
طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک حبشی آنحضرت اکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہا آپ اہم سے حسن وصورت اور حسین رنگ میں بھی ممتاز ہیں اور نبوت و رسالت میں بھی۔ اب اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لے آﺅں جس پر آپ ا ایمان رکھتے ہیں اور وہی عمل کروں جو آپ ا کرتے ہیں تو کیا میں بھی جنت میں آپ اکے ساتھ ہو سکتا ہوں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ ہاں ضرور! (تم اپنی حبشیانہ بد صورتی سے نہ گھبراﺅ) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ،جنت میں کالے رنگ کے حبشی سفید اور حسین ہو جائیں گے،اور ایک ہزار سال کی مسافت سے چمکیں گے‘ اور جو شخص لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا قائل ہو اس کی فلاح و نجات اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہو جاتی ہے۔ اور جو شخص سُبحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمدِہ پڑھتا ہے اس کے نامہ اعمال میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔
یہ سن کر مجلس میں سے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہا! جب اللہ تعالیٰ کے دربار میں حسنات کی اتنی سخاوت ہے تو پھر ہم کیسے ہلاک ہو سکتے ہیں یا عذاب میں کیسے گرفتار ہو سکتے ہیں؟ آپ انے فرمایا ( یہ بات نہیں)حقیقت یہ ہے کہ قیامت میں بعض آدمی اتنا عمل اور حسنات لے کر آئیں گے کہ اگر ان کو پہاڑ پر رکھ دیا جائے تو پہاڑ بھی ان کے بوجھ کا تحمل نہ کر سکے لیکن اس کے مقابلہ میں جب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں آتی ہیں اور ان سے موازنہ کیا جا تا ہے تو انسان کا عمل ان کے مقابلہ میں ختم ہو جاتا ہے۔ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کو اپنی رحمت سے نوازیں۔
اس حبشی کے سوال و جواب ہی پر سورہ دَہر کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ھَل اَتٰی عَلَی الاِنسَانِ حِین مِّنَ الدَّھرِ لَم یَکُن شَیئاً مَّذکُورًا(الدھر:1)حبشی نے حیرت سے سوال کیا یارسول اللہ ا !میری آنکھیں بھی ان نعمتوں کو دیکھیں گی جن کو آپ ا کی مبارک آنکھیں مشاہدہ کریں گی؟ آپ ا نے فرمایا: ہاں ضرور! یہ سن کر حبشی نو مسلم نے رونا شروع کیا یہاں تک کہ روتے روتے وہیں جان دے دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے اس کی تجہیز و تکفین فرمائی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں