ایک ماں بیٹھی رو رہی تھی۔ کسی نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو آنسو بہاتی ماں نے اپنی کھیل میں مگن بچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’صبح سے اسے ایک انڈہ کھلانے کی کوشش کررہی ہوں، یہ منہ پھیر لیتی ہے۔ اب آپ ہی بتائیے یہ کس طرح زندہ رہے گی‘‘
’’حکیم صاحب !میری بچی کو دیکھیے یہ کچھ نہیں کھاتی‘‘۔ یہ جملے میں کم و بیش روز ہی سنتا ہوں۔ یقیناً دوسرے معالجین کا واسطہ بھی ایسی مائوں سے پڑتا ہے، جو اپنے بچوں کو بھوک نہ لگنے کی شکایت کرتی رہتی ہیں۔ وہ معالج سے توقع رکھتی ہیں کہ کوئی مُشّہی یعنی بھوک لگانے والی دوا تجویز کردی جائے حالانکہ اکثر صورتوں میں نہ اس کی ضرورت ہوتی اور نہ ایسی دوائیں کوئی فائدہ پہنچاتی ہیں۔ بھوک کی کمی ایک مرض ضرور ہے جو اکثر امراض معدہ کی علامت ہوتی ہے۔ معدے کی تیزابی سوزش یا دیگر امراض معدہ کی وجہ سے بھوک اچھی طرح نہیں لگتی۔ معدے کی شدید سوزش یا جلن سے بھوک نہ لگنے کی شکایت ہی نہیں ہوتی، بلکہ مریض کو غذا سے نفرت بھی ہو جاتی ہے۔ بھوک لگتی بھی ہے تو تھوڑا کھانے سے ختم ہو جاتی ہے۔ یہ گویا مرض کی کیفیت ہوتی ہے جس کے لیے علاجی تدابیر ضروری ہوتی ہیں اور یہ صورت بالعموم بچوں کے ساتھ پیش نہیں آتی۔ میرے تجربے کے مطابق اکثر والدین بچوں کے معاملے میں کچھ بہت زیادہ حساس اور فکرمند رہتے ہیں۔ بچہ ایک دو گھونٹ دودھ کم پئے تو انہیں تشویش لاحق ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک ماں بیٹھی رو رہی تھی۔ کسی نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو آنسو بہاتی ماں نے اپنی کھیل میں مگن بچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’صبح سے اسے ایک انڈہ کھلانے کی کوشش کررہی ہوں، یہ منہ پھیر لیتی ہے۔ اب آپ ہی بتائیے یہ کس طرح زندہ رہے گی‘‘ یہ کہہ کر وہ اور رونے لگیں۔غور فرمائیے! ایک دن ایک انڈہ نہ کھانے پر تشویش، بلکہ ماتم کس حد تک درست اور بجا ہوسکتا ہے۔ والدین کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ بچہ اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے، اسی لیے بچپن بادشاہت کا دور کہلاتا ہے۔ بچے کے جسم کے مطالبات بڑوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ جو کچھ بڑوں کے لیے ضروری ہوتا ہے وہ بچوں کے لیے لازمی نہیں ہوتا۔ بچوں کے لیے بڑوں کی مقدار خوراک کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بچے مطمئن ہونے کے بعد کھانے سے منہ پھیر لیتے ہیں جب کہ بڑے کھائے چلے جاتے ہیں۔ ان کی یہی بسیار خوری، وزن میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اگر بچے کی بڑھوتری اور نمو معمول کے مطابق ہے تو پھر کسی تشویش کی ضرورت نہیں۔ بچہ چونچال ہے، کھیل کود رہا ہے تو پھر فکر کس بات کی۔ایک اور بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ بچوں کی رفتا رنمو یکساں نہیں ہوتی۔ عام مشاہدہ ہے کہ بچے یکایک بڑھنے لگتے ہیں۔ مشاہدے اور تجربے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچے موسم بہار میں زیادہ تیزی سے بڑھتے ہیں اسی طرح جاڑوں سے پہلے موسم خزاںمیں بھی ان کے وزن میں زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ نمو کی تیز رفتاری کے دوران ان کی بھوک بھی کم ہو جاتی ہے۔ آپ کا بچہ اگر ناشتہ کم کررہا ہے تو فکر مند نہ ہوں اور اس معمولی بات کو بتنگڑ نہ بنائیے۔ گھر کو سر پر اٹھانے اور بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ رات اس نے اپنے حساب سے سیر ہوکر کھانا کھایا ہو۔ خود آپ بھی جب رات کا کھانا ڈٹ کر کھاتے ہیں، صبح بھوک تیز نہیں ہوتی۔ بچے نے اگر ناشتہ کم کھایا ہے تو اس کا معدہ یقیناً دوپہر یا رات زیادہ کھانے پر اسے آمادہ کر لے گا، بشرطیکہ کہ اسے درمیان میں کچھ اور کھلانے کی بے وجہ کوشش نہ کی گئی ہو۔
اکثر مائیں بچے کو معمول کا کھانا کھاتا نہ دیکھ کر چپس، چاکلیٹ، بسکٹ وغیرہ کھلا دیتی ہیں۔ ان کی خوشبو، کراراپن اور مزہ بچوں کو ان اشیاء کو کھانے پر آمادہ کرتا ہے۔ بظاہر ان ہلکی پھلکی چیزوں کے کھانے کے بعد بچے دوپہر یا رات کا کھانا رغبت سے نہیں کھاتے۔ والدین کو ان اشیا ءکا شمار غذا میں کرنا چاہیے، معدے کو انہیں ہضم کرنے کے لیے وقت لگتا ہے۔ اصولی طور پر بچوں کو یہ اشیا کھلانی ہی نہیں چاہئیں کیونکہ یہ مفید سے زیادہ مضر ہوتی ہیں۔ اب چپس کو ہی لیجئے یہ بالعموم چربی میں تلے جاتے ہیں اور ان میں نمک بھی زیادہ ہوتا ہے، بلکہ چینی نمک کا اضافہ بھی کردیا جاتا ہے۔ کم عمری میں چکنائی اور نمک کا زیادہ استعمال بچوں کے لیے آگے چل کر موٹاپے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور موٹاپا کئی امراض کا سبب بن جاتا ہے۔ کوئی 20سال پہلے یہ مسئلہ موجود نہیں تھا۔ لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے علاوہ پاکستان کے خوشحال گھرانوں میں بچوں کا موٹاپا تیزی سے بڑھنا خطرہ صحت بن گیا ہے۔ یہی حال میٹھی اشیاء بالخصوص نام نہاد فروٹ جوسز کا ہے۔ ان میں شامل شکر کی زیادہ مقدار، مصنوعی خوشبوئیںاور دیگر کیمیکلز صحت کے بجائے مرض کا سبب بنتے ہیں۔
بچوں کو بے وقت اور بے ضرورت ایسی اشیاء کھلانے سے وہ رفتہ رفتہ ہضم اور دانتوں کی خرابی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے بجائے شروع ہی سے انہیں کوئی موسمی پھل کھلانا ہر لحاظ سے بہتر ہوتا ہے۔ اس طرح ان کا وزن معمول پر رہتا ہے اور پھل یا گاجروں وغیرہ کے استعمال سے انہیں حیاتین، قدرتی شکر اور کیلشیم، فولاد وغیرہ جیسے اہم غذائی اجزا بھی ملتے ہیں ۔ ان سے ٹافیوں، چپس کے مقابلے میں ان کی بھوک تیز اور بہتر ہو جاتی ہے کیونکہ کہ معدہ انہیں آسانی سے ہضم کرتا ہے۔ بچوں کو بے ضرورت او ربے وقت کچھ نہ کچھ کھلانے سے بہتر ہے کہ انہیں ایک گلاس پانی پلادیا جائے کیوں کہ مشاہدہ یہ بھی ہے کہ اکثر والدین بچوں کو پانی مناسب مقدار میں نہیں پلاتے۔ میرے تجربے میں ایک ایسا کیس ہے کہ ماں نے اپنے بچے کو ایک سال تک پانی نہیں پلایا۔ پانی کے بجائے کسی پھل کا اصلی رس پلانا بھی بہتر اور مفید ثابت ہوتاہے۔ ڈبوں میں فراہم پھلوں کے رس یا جوس دھوکہ ہوتے ہیں۔ پھلوں کا رس پلانے سے معدے اور جگر کو تحریک بھی ملے گی اور رس میں موجود اہم غذائی اجزا بھی اسے حاصل ہوجائیں گے۔ اس کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اس سے اس کی اگلے کھانے کی بھوک بھی متاثر نہیں ہوگی۔ طب کا یہ سنہری اصول یاد رکھنا چاہیے کہ دو کھانوں کے درمیان کھانا، ایک خراب عادت ہے۔ بچوں کو اس کا بالکل عادی نہیں بنانا چاہیے۔ سکول جانے والے بچوں کی مائیں بریک یا وقفے میں بازاری چیزوں کے استعمال کا عادی بنانے کے لیے انہیں پیسے دے کر محبت کا ثبوت فراہم نہیں کرتیں۔ خود والدین کو اپنی بعض عادات پر نظر ڈالنا چاہیے۔
مشاہدہ گواہ ہے کہ اکثر اوقات دسترخوان پر بڑے جب بھی بچوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ ان کے سامنے اپنی پسند اور ناپسند کا کھل کر اظہار کرتے ہیں مثلاً پالک کا ساگ دیکھ کر اگر باپ یا ماں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کے تو سننے والے بچے بھی بالعموم اس سے کتراتے ہیں۔ بچے اپنے بڑوں کو جو چیز رغبت اور شوق سے کھاتا دیکھتے ہیں، خود بھی بالعموم اسی رغبت کا اظہار کرتے ہیں۔
بڑوں فرض ہے کہ وہ اپنی پسندیدگی کا اظہار زبانی نہ کریں۔ اسی طرح ناپسندیدگی کا اظہار بھی نہ کریں۔ اچھی صحت بخش غذا ناپسند ہوتب بھی اس کی تعریف کریں تاکہ بچے اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کے کھانے کے عادی ہو جائیں۔ رسول اکرمﷺ کا یہ ارشاد ذہن نشین رہنا چاہیے ’’کھانے کی کوئی شے پسند نہ ہوتو نہ کھائو، لیکن اس کے بارے میں کہو کچھ نہیں‘‘۔ یاد رہے کہ بچے اپنے بڑوں کی نقل کرتے ہیں۔ وہ باپ کے جوتے پہن کر اس کا چشمہ لگا کر خوش ہوتے ہیں۔ کھانے کے معاملے میں بھی وہ اپنے بڑوں کی پیروی کرتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اپنی ناپسندیدگی کو راز ہی رکھا جائے۔
ایک صاحب نے اپنا واقعہ سنایا جو سبق آموز ہے۔ ذاتی طور پر انہیں دلیا پسند نہیں تھا لیکن وہ روزانہ ناشتے میں تھوڑا بہت دلیا بہ ظاہر بڑے شوق سے کھاتے اور اس کی غذائی افادیت کی تعریف بھی کرتے تاکہ بچے دلیا شوق سے کھائیں۔ بچوں کے سکول جانے کے بعد وہ اپنی بیگم سے کہتے ’’دلیا بھی کیا نامعقول چیز ہے، مجھے اس سے بڑی چڑ ہے‘‘ انہوں نے بچوں پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔
کھانا سب مل کر کھائیں تو اس کی دیگر برکتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ بچے اپنے بڑوں کو رغبت سے کھاتا دیکھ کر خود بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ اس وقت کھانے کو موضوع گفتگو نہیں ہونا چاہیے اور اگر بات ہو بھی تو کھانے کی اچھائی کا ذکر ہی ہونا چاہیے۔ بچوں کو دسترخوان پر اپنی پسند اور ناپسند کے اظہار کا موقع بھی ملنا چاہیے۔ بچوں کی سونگھنے اور چکھنے کی حِس بہت تیز ہوتی ہے۔ ان کی رائے کھانے کے ذائقے کی بہترین کا ذیعہ بھی بن سکتی ہے۔ اس سلسلے میں سختی اور بے جا اصرار کر کے انہیں کھانے پر مجبور نہیں کرنا چاہے۔ اس سے کھانے سے نفرت کے علاوہ منفی انداز فکر و عمل بھی پیدا ہوسکتا اور خود اس کی وجہ سے بھی ان کی بھوک متاثر ہوسکتی ہے۔ ذہنی اور جذباتی آسودگی کا بھوک سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کھانے کا وقت خوشی اور سکون کا موقع ہونا چاہیے۔ اس کی خوش گواریا دیں تا دم آخر ایک قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں۔اپنے بچپن کو یاد کیجئے آپ میری بات سے یقیناً اتفاق کریں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں