Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

ڈائٹنگ کو خدا حافظ کہا تو زندگی میں سکون آیا!

ماہنامہ عبقری - نومبر 2018ء

ورزش کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ دوران ورزش تحول کی رفتار تیز رہتی ہے بلکہ ورزش کے بعد بھی یہ رفتار بعد میں برقرار رہتی ہے۔لہٰذا اگر آپ دس منٹ جاگنگ کرتے ہیں تو اس سے آرام کی حالت کے مقابلے میں آپ کے جسم میں90 سے 120 تک زیادہ حرارے جلیں گے۔

موٹاپا بہت سے لوگوں کی طرح میرے لیے بھی مصیبت بنا ہوا تھا۔ سب کی طرح میں نے بھی اس سے نجات پانے کے لیے پرہیزی کھانے بلکہ نیم فاقہ کشی کی مشہور و معروف راہ اختیار کی۔ عرف عام میں ڈائٹنگ کرنے والے اس طریقے کے بارے میں آپ کو بے شمار کتابیں بازاروں میں مل جائیں گی۔ اس فاقہ کشی کے دوران مجھے یہ علم ہی نہ ہوسکا کہ میرے موٹاپے کی اصل وجہ کیا ہے، میری کھانے کی زیادتی یا پھر والدین سے ورثے میں ملا ہوا موٹاپا؟ کم از کم میں نے جو کتابیں پڑھیں ان میں اس کا کوئی جواب موجود نہیں تھا، ہاں البتہ یہ تمام کتابیں ایک بات پر متفق تھیں کہ موٹاپے سے نجات کے سلسلے میں ورزش سے کوئی مدد نہیں لی جاسکتی۔
میں نے ان کتابوں کی ہدایات پر ایک دو نہیں پورے دس سال تک عمل کیااور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا یعنی اپنے وزن سے زیادہ وزن کم کرنے کے باوجود میں موٹا ہی رہا۔ یہ حالت دیکھ کر میں نے ڈائٹنگ کو خدا حافظ کہا، کیوں کہ جب اس اذیت کا کچھ حاصل ہی نہیں تھا تو پھر اس کا جاری رکھنا کونسا کارِ ثواب تھا!پھر ہوا یہ کہ میں ایک دن میں لندن کے مشہور ہائیڈپارک جانکلا۔ خزاں کا موسم تھا اور اس دن لندن ٹائمز کی جانب سے ایک لمبی تفریحی دوڑ کا انتظام کیا گیا تھا جس میں بہت سے لوگ شرکت کررہے تھے۔ ان میں بہت سے مجھ سے دوگنی عمر کے لوگ بھی شامل تھے۔ یاد رہے کہ اس وقت میری عمر 40 سال تھی۔ لوگوں کے جوش و خروش نے مجھے بھی ورزش پر اُکسایا اور میں نے جاگنگ شروع کردی۔ مجھے یقین تھا کہ اس سے میرا موٹاپا رخصت ہوجائے گا حالانکہ ڈائٹنگ کی کتابوں میں اسے فضول قرار دیا گیا تھا۔ میں مستقل مزاجی سے جاگنگ کرتا رہا۔ اگلی گرمیوں کے موسم تک میں ساڑھے چار میل کی دوڑ لگانے لگا تھا اور میرا وزن دس پائونڈ کم ہوکر 128پائونڈ ہوگیا تھا۔ اب کیفیت یہ ہے کہ میرا وزن اسی سطح پر برقرار ہے اور مجھے ڈائٹنگ کی اذیت سےنجات مل گئی ہے۔ اب میں سب کچھ کھاتا ہوں لیکن وزن نہیں بڑھتا۔اپنے اس تجربے کی بنیاد پر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ڈائٹنگ کی کتابوں میں ورزش کو بے کارقرار دینے کے والے غلط ہیں۔ ورزش موٹاپے کو دور کرنے کا ایک بہترین اور صحت بخش تجربہ ہے۔ میرے تجربے نے اس کی توثیق کردی ہے۔ڈائٹنگ کے برخلاف جس میں انسان تھکتا اور کمزور ہوتا چلا جاتا ہے ورزش سے اس کی صحت و توانائی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے بشرطیکہ صحیح قسم کی ورزش کی جائے بعض ورزشیں جیسے دوڑنے سے توانائی و صحت میں اضافے اور وزن میں کمی کی رفتار تیز ہوجاتی ہے جسم کا تخوتی (میٹابولک) نظام تیزی سے کام کرنے لگتا ہے جب کہ فاقہ کشی میں یہ نظام سست پڑجاتا ہے۔ ورزش کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ دوران ورزش تحول کی رفتار تیز رہتی ہے بلکہ ورزش کے بعد بھی یہ رفتار بعد میں برقرار رہتی ہے۔لہٰذا اگر آپ دس منٹ جاگنگ کرتے ہیں تو اس سے آرام کی حالت کے مقابلے میں آپ کے جسم میں90 سے 120 تک زیادہ حرارے جلیں گے۔ ورزش کے بعد تحول کی رفتار کا انحصار ورزش کے علاوہ انفرادی ہوتا ہے بعض میں زیادہ اور بعض میں کچھ کم۔بہت سے قارئین کے لیے یہ بات یقیناً نئی ہوگی اس کی وجہ یہ ہے کہ ورزش اور تحول کے بارے میں جو تحقیق ہوئی ہے وہ بالکل جدید ہے۔ 1980ء تک یورپ کے ملکوں میں بہت کم لوگ زندگی بھر سرگرم اور فعال زندگی گزارتے تھے عمر میں اضافے کے ساتھ ان کی سرگرمیاں گھٹتی چلی جاتی تھیں۔ اس تحقیق کا موضوع وہی لوگ بنے جو عمر میں اضافے کے باوجود سرگرم زندگی گزارنے کے خواہاں تھے۔ گویا اسی قسم کے لوگوں نے سائنس دانوں کے لیے تحقیق و مطالعے کا موقع فراہم کردیا اور وہ نظام تحول پر ورزش کے اثرات کا مطالعہ کرنے کے قابل ہوئے۔موٹاپے کے بارے میں برطانوی رائل کالج آف فزیشنز کی 1983ء کی رپورٹ کے مطابق یہ بات یقینی ہے کہ ہفتے میں تین دن 20منٹ کی معتدل ورزش قلب و شرائین کو اس قابل رکھتی ہے کہ انسان آرام کے ساتھ جسمانی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکے۔ اس سرگرمی کے نتیجے میں صحت مند اور توانا ہونے کا احساس بھی حاصل ہوتا ہے۔ گویا ایک خاص وقت یا مدت کے لیے کی جانے والی کسی ورزش سے آپ خود کو صحت مند محسوس کرتے ہیں۔ یہ احساس عطا کرنے والی ورزش ایروبک یا ہوازی ورزش کی تعریف میں آتی ہے۔ہوازی ورزش معتدل ہوتی ہے۔ نہ بہت سخت نہ بہت ہلکی اس کا اصل راز اور معیاد یہ ہے کہ یہ ورزش کم از کم پانچ منٹ بلکہ بہتر یہ ہے کہ دس منٹ تک جاری رہے اور برداشت کی جائے اور اس مدت میں قلب کی انتہائی رفتار میں20 سے 80 فیصد اضافہ ہو جائے۔ یہ مدت اور معیار، قلب اور ورزش کے ماہرین کا مقرر کردہ ہے۔60فیصد سے کم اضافے والی ورزش ایروبک یا ہوازی کی تعریف میں نہیں آئے گی یعنی اگر آپ کے قلب کی انتہائی رفتار میں60 فیصد سے کم اضافہ ہوتا ہے تو یہ ہوازی ورزش نہیں ہے۔ اسی فیصد تک اضافے کے متحمل صرف بہت ہی صحت مند افراد ہوتے ہیں۔ہوازی ورزشوں میں بسا اوقات ترقی ایک سطح تک برقرار رہتی، پھر اس میں یکایک اضافہ ہوتا ہے یعنی آپ مزید ورزش کے متحمل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ کی قوت برداشت اور ورزش کرنے کی رفتار مسلسل بڑھتی جائے۔ اس قسم کی ورزشوں کے تربیتی پروگراموں میں بالعموم یہ غلطی ہو جاتی ہے۔اس میں جاگنگ اور دوڑ کے علاوہ بولنگ(کرکٹ) بھی شامل ہے۔ بشرطیکہ کہ آرام اور سستی سے نہ کی جائے۔ اسی طرح فٹ بال، ہاکی، باسکٹ بال اور اسکواش بھی ہوازی ورزشوں میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ بشرطیکہ تیز کھیل کھیلے جائیں۔ اسکواش میںمحض پسینے کا آنا کافی نہیں ہے، اس سے ہوازی ورزش کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے مذکورہ معیار کو پیش نظر رکھیے یعنی قلب کی انتہائی رفتار میں 60فی صد سے زیادہ اضافہ ہو، جوڈو، ڈارٹ، باکسنگ، کراٹے اور یوگا کو ہوازی ورزشوں میں شامل نہیں سمجھنا چاہیے۔ تیز قدمی بالخصوص پہاڑی علاقے کی سیر ہوازی ورزش میں شامل کی جاسکتی ہے اسی طرح بوڑھوں کے لیے گولف بھی ہوازی ورزش بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ گیند کو ہٹ لگانے کے بعد اس کے پیچھے تیز رفتاری سے چلیں۔ایسی ورزشیں انسان کو صرف دبلا پتلا نہیں کرتیں بلکہ آپ کی صحت کو قابل رشک بھی بنا دیتی ہیں۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 094 reviews.