قارئین! وقت کا استعمال صحیح کیا جائے تو پھر وقت کم ہی بچتا ہے‘ کچھ ایسی ہی صورت حال میرے ساتھ بھی ہے‘ غمی اور خوشی کے موقع پر بہت سی ساتھیوں سے ملاقات ہوتی‘ کوئی نہ کوئی ساتھی اپنے گھر آنے کا کہتی تو جواب ہوتا ان شاء اللہ آنے کی کوشش کروں گی‘ وعدہ نہیں کرتی۔ ایک دن ایک ساتھی کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے پورا کروا دیا۔ میرے ہمسفر کو اس طرف جانا تھا‘ جہاں پر میری سہیلی کا گھر تھا‘ اپنے ہمسفر(شوہر) سے کہا کہ مجھے فلاں سہیلی کے گھر چھوڑتے جائیے‘ واپسی پر لے لیں۔ ماشاء اللہ اچھی مزاج کی سہیلی تھیں‘ پردے کا اہتمام ان کے گھر تھا‘ بہت اطمینان سے شب آٹھ بجے ان کے گھر پہنچ گئی۔ میرے ہمسفر مجھے باہر ہی چھوڑ کر آگے چلے گئے۔ ان کے گھر قدم رکھا تو محسوس ہوا کہ میری سہیلی کہیں جانے کی تیاری کررہی ہے۔ مجھے دیکھا تو انتہائی خوشی سے ملیں‘ پھر میرے پاس بیٹھ گئیں‘ بات کرتی رہیں‘ میں نے محسوس کیا میری سہیلی بار بار کچھ کہنا چاہ رہی ہیں لیکن کہہ نہیں پارہی‘ بے چینی سے پہلو بدل رہی تھیں۔ آخر راقمہ نے ہی یہ مشکل آسان کردی کیا آپ کچھ کہنا چاہ رہی ہیں‘ ان کے تو دل کی کلی کھل گئی‘ کہتی ہیں: میری پڑوسن کی بیٹی کی شادی ہے‘ آج رسم حنا ہے‘ یہ موقع تو زندگی میں ایک بار ہی آتا ہے‘ بہت دھوم دھام سے مہندی کی رسم ہورہی ہے‘ آپ بھی میرے ساتھ چلیں‘ ہم نے دور تھوڑا ہی جانا ہے‘ دیوار کے ساتھ دیوار جڑی ہے‘ دیوار کی طرح ہم دونوں پڑوسنوں کے دل بھی جڑے ہوئے ہیں‘ آپ بھی میرے ساتھ چلیں نا؟میں نے کہا۔ میرا تو مخلصانہ مشورہ ہے آپ بھی اس محفل میں شرکت نہ کریں‘ جس محفل میں جانے کیلئے آپ اصرار کررہی ہیں‘ وہاں صرف شیطان کا ناچ اور ابلیس کا راج ہے۔ وہاں سے گناہوں کا ہار اپنے کندھوں پر لیے واپس لوٹیں گی‘ ایسی رسومات میں میں نہ تو خود جاتی ہوں اور تمام بہنوں سے بھی گزارش کروں گی کہ وہ منگنی‘ ابٹن‘ مہندی‘ مایوں جیسی رسومات
کو اپنے گھروں سے رخصت کریں‘ یہ کینسر سے بدترین بیماری ہے جو ہمارے گھروں میں گھس آئی ہے۔اپنی سہیلی کو بہت روکا لیکن ان کا اصرار تھا میرا بہت دل چاہ رہا ہے دو چار گانے سن لوں اور ڈھولکی پر بیٹھ کر دو چار گانے گالوں‘ ایسے موقع کون سے روز روز آتے ہیں‘میں نے پھر ایک بار کہا اپنی محبت کو اللہ کی یاد سے جوڑیں‘ اس خالق کے ذکر سے تعلق جوڑیں‘ ہماری ذات اسی صورت میں اچھی زندگی گزار سکتی ہے‘ میری بات انہوں نے سن لی لیکن عمل ابلیس کی بات پر کیا۔ وہ انہیں اپنے ساتھ لے گیا‘ وہ جاتے ہوئے بڑی بیٹی کو بھی ساتھ لے گئیں۔ نو سال اور سات سال کے بچے گھر پر تھے۔ آپ جارہی ہیں تو مجھے جائے نماز اور قرآن مجید دیتی جائیں‘ یہ دو خزانے موجود ہوں تو کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ ساتھی جاتے ہوئے موبائل نمبر دے گئیں تھیں‘ ان کے جاتے ہی جائے نماز بچھالی اور اللہ سے تعلق جوڑ لیا۔ کتنا سرور تھا‘ اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنے میں‘ گیارہ بجنے کو تھے لیکن وہ ساتھی واپس نہ آئیں‘ آخر فون کیا کہ میں اب اپنے گھر جانا چاہ رہی ہوں‘ میرے ہمسفر آتے ہی ہوں گے آپ بھی واپس تشریف لے آئیے تاکہ اجازت لے کر رخصت ہوسکوں۔ سہیلی نے انتہائی شور میں بہت اونچی آواز میں کہا کہ میرا دل چاہ رہا ہے ایک دو گانے اور سن لوں‘ بہت مزہ آرہا ہے۔ان کا جواب سن کر میں مایوس سی ہوگئی اور دوبارہ جائے نماز پر بیٹھ کر کلمہ پڑھنا شروع کردیا اور ساتھ اپنے ہمسفر کا انتظار کرتی رہی۔تقریباً اپنی سہیلی سے بات کیے آدھ گھنٹہ گزرا ہوگا پڑوسن کے گھر سے آہ و بکا کی آواز آرہی تھی‘ جیسے کوئی ہنگامہ ہو اوراچانک خوفناک حادثہ ہوگیا ہو‘ ایک آواز بہت نمایاں تھی کوئی بچی روتی ہوئی کہہ رہی تھی ’’ہائے میری ماں‘‘ رونے دھونے کی لرزا دینے والی آوازیں سنیں‘ میں نے گاؤن پہنا اور بھاگتی ہوئی ساتھ والے گھر میں چلی گئی‘ وہاں جو منظر دیکھا تو اپنے پاؤں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی‘ میری سہیلی کے ہاتھ ڈھولک پر تھے زبان پر ابلیس کے بول تھے‘ گردن ایک طرف ڈھلک گئی تھی‘ حضرت عزرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام روح قبض کرکے جاچکے تھے‘ خوشی کا گھر ماتم میں تبدیل ہوچکا تھا‘ میں سوچتی رہی‘ کاش! یہ موت جائے نماز پر آتی‘ ان کی بیٹی غم سے چیخیں مار رہی تھی۔
کسی کو ہوش ہی نہیں تھا کہ مردہ خاتون کو چارپائی پر لٹادیں اور وہ فرائض پورے کریں جو سنت ہے‘ کچھ منٹ ایسے ہی گزر گئے‘ ہمت کرکے ایک سمجھدار خاتون کا انتخاب کیا‘ آپا جی پاک چارپائی منگوائیں اور اس پرپاک چادر بچھائیں‘ اس پر فوت ہوئی اپنی سہیلی کو لٹایا‘ یہ مرحلہ بہت مشکل تھا بہرحال کرنا تو تھا ہی۔ اس کے بعد ایک اور تکلیف دہ مرحلہ آیا کہ خواتین نے آوازیں کسنا شروع کردیں:۔ ارے یہ منحوس کاہے کو یہاں آگئی تھی‘ اسے بھی یہاں ہی مرنا تھا‘ ہمارے رنگ میں بھنگ ڈالنے آگئی‘ یہ ڈائن میری بچی کی خوشیوں کو نگل گئی‘ ڈھولک پر ایسے ہاتھ لگائے کہ ڈھولک ہی بند کرگئی۔ یہ وہ خاتون بول رہی تھیں جن کے متعلق میری سہیلی کچھ دیر پہلے بڑے مان سے کہہ رہی تھیں ہماری دیواریں نہیں ہمارے دل جڑے ہوئے ہیں۔ ہم چند خواتین سہیلی کی لاش اٹھا کر اس کے گھر لے آئیں۔ جیسے ہی ہم وہاں سے نکلے کھانا کھول دیا گیا اور خواتین سب کچھ بھول کر کھانے میں جت گئیں۔ دوسرے دن آخری دیدار کیلئے وہاں پہنچی۔ بیٹی غم سے بیہوش تھی‘ جنازہ جاچکا تھا‘ خواتین کی زبان پھر چلی ارے اب اس نصیبوں جلی کو کون بیاہنے آئے گا‘ ارے ان کی ماں تو دوسروں کی خوشیاں بھی لوٹ گئی‘ یہ چند جملے قارئین بہنوں کو آگاہ کرنے کیلئے لکھے ہیں۔بہنو! خود بھی غلط بات کرنے سے رکو اوردوسروں کو بھی روکو‘ جھوٹ غیبت ‘ چغلی‘ عیب جوئی‘ ان باتوں سے پناہ مانگیں‘ جانے والی اپنے اصلی اور ہمیشگی گھر جاچکی تھی۔ایسی خرافات ہمارے گھروں میں جھگڑے‘ تنگدستی اور وبال لے کر آتی ہیں۔ خدارا خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ کاش! میری سہیلی کو موت ڈھولک کی بجائے مصلیٰ پر آئی ہوتی۔ میری تمام قارئین سے التماس ہے کہ گھروں میں خوشحالی چاہتے ہیں تو سنت پر آجائیے۔ پھر دیکھیں نہ جادو ہوگا‘ نہ وبال آئے گا‘ نہ بیماری‘ نہ شوہر کی بے رخی‘ نہ بیوی جھگڑالو بنے گی اور نہ ہی بچے معذور پیدا ہوں گے پھر ہرطرف خوشحالی ہی خوشحالی‘ امن اور سکون ہی سکون ہوگا۔ مگر شرط صرف یہی ہے کہ مسنون اعمال کو اپنا لیجئے۔ ہندوانہ رسم و رواج سے خود بھی پناہ مانگیے اور دوسروں کو بچائیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں