بچوں میں موٹاپے کے رجحان میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک تحقیقی جائزے کے مطابق برطانیہ اور سکاٹ لینڈ میں گزشتہ بیس سے تیس سال کے دوران بچوں میں موٹاپا بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور اس نے ایک شدید مسئلے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ادھر امریکہ میں ایک تحقیقی جائزے سے پتا چلا ہے کہ وہاں بارہ سے سترہ سال کے ہر پانچ نوجوانوں میں سے ایک نوجوان کا وزن معمول سے زیادہ ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ بچے بڑے ہو کر بھی موٹے ہی رہیں لیکن اکثر بچپن کا موٹاپا بالغ عمری میں شدید بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے مثلاً یہ کہ موٹاپے کی وجہ سے قلب کے امراض، سرطان، ذیابیطس اور جوڑوں کے ورم کا امکان رہتا ہے۔ ایک اور جائزے کے مطابق یہ بھی پتا چلا ہے کہ فربہ اندام بچوں میں نو سال کی عمر سے ہی فشار خون (بلڈ پریشر) بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور کولیسٹرول کی سطح بھی اپنی عمر کے عام بچوں سے بڑھ جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان بچوں کا کیا علاج کیا جائے؟ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ بچے کی غذا پر شروع ہی سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے مثلاً یہ کہ اگر آپ ایک سال کی عمر سے بچے کو پھل اور سبزیاں کھلانے کی کوشش کریں گے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ ان چیزوں کو پسند کرنا شروع کر دے گا اور پھر یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہے گا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ پہلے ایک سال کے دوران بچے کے وزن کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ایک شیر خوار ‘فربہ اور صحت مند بچے اور ایک ذرا بڑی عمر کے فربہ بچے یا موٹے نوجوان میں بڑا فرق ہے۔ اسکے علاوہ یہ بھی جان لینا چاہئے کہ عمر کے پہلے دو سال کے دوران بچے کے دماغ کی جو نشوونما ہوتی ہے اس کیلئے اسے غذا میں چربی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کس عمر میں بچے کے موٹاپے کی فکر کی جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چار سال کی عمر میں بھی بچے میں موٹاپا موجود رہے تو پھر والدین کو اس کا علاج سوچنا چاہئے۔
سوال یہ ہے کہ بچے کے وزن کو زیادہ یا بچے کو موٹا کب کہا جائے گا؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بچے کے قد اور اس کے وزن کو اس پیمانے پر جانچا جائے جو ماہرین نے قد اور وزن کی مناسبت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیار کیا ہے۔ اگر بچے کا وزن اس کے قد کی مناسبت سے درست نہیں یعنی زیادہ ہے تو بہتر ہو گا کہ معالج سے رجوع کیا جائے۔ غذا کی ماہر ایک خاتون کا مشورہ ہے کہ بچے کی غذا کے بارے میں والدین کی سوچ مثبت ہونی چاہئے۔ ان کا خیال ہے کہ نہ تو یہ کرنا چاہئے کہ بچوں سے خوش ہو کر یا انہیں خوش کرنے کے لئے ہم انہیں ان کی پسندیدہ غذا خوب کھلائیں اور نہ یہ ہونا چاہئے کہ ان سے ناراض ہو کر ان کی پسندیدہ غذا سے بچوں کو بالکل ہی محروم کر دیا جائے۔ اس طرز عمل سے بڑی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ صحیح نشوونما کے لئے بچوں کو خوب حرارے (کیلوریز) اور مقوی اجزا ملیں۔ اگر والدین بچوں کو ایسی غذا دیں گے جس میں چکنائی کم ہو تو اس طرح بچوں کی نشوونما خطرے میں پڑ جائے گی۔
مسئلہ صرف یہ نہیں کہ بچہ کتنا کھاتا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ وہ کیا کھاتا ہے۔ دوکھانوں کے درمیان بچے کو زیادہ حرارے والے سنیک (چپس، برگر، سینڈوچ، کیک وغیرہ) کے بجائے پھل، سبزی اور دیگر کم حراروں والی چیزیں کھلایئے یعنی ایسی چیزیں کھلایئے جن میں چکنائی کم ہو، لیکن تغذیہ (غذائیت) زیادہ ہو۔تحقیق کے مطابق بچپن میں موٹاپے کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض بچے ورزش نہیں کرتے اور بھاگ دوڑ سے بھی کتراتے ہیں۔ اب ایسے بچوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے جو پیدل یا سائیکل پر سکول جاتے ہیں۔ بچوں کو ورزش کرنے کی ہدایت کر دینا کافی نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین کو بچوں کے سامنے مثال پیش کرنا چاہئے۔ بچے یہ دیکھتے ہیں کہ والدین کیا کر رہے ہیں اور پھر وہ ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ماں باپ ورزش میں دلچسپی لیتے ہیں تو اولاد میں بھی یہ رجحان پیدا ہونے کے امکانات روشن ہیں۔
جدید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ دن میں چار پانچ بار دس دس منٹ ورزش کرنا اسی قدر فائدہ مند ہے جتنا کہ بیک وقت چالیس پچاس منٹ ورزش کر لینا، لہٰذا اگر کوئی بچہ زیادہ دیر تک ورزش یا جسم کو حرکت میں رکھنے پر راضی نہیں ہوتا تو زبردستی کرنے کے بجائے اس سے کہنا چاہئے کہ چلو دن بھر میں تھوڑی تھوڑی دیر کر کے چار پانچ بار ورزش کر لو۔ آج کے زمانے میں بچوں کو جذباتی مسائل کا سامنا بھی رہتا ہے۔ والدین کے آپس کے خراب تعلقات، علیحدگی اور طلاق سے بہت سے بچے اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں اور انہیں یوں لگتا ہے جیسے انہیں معاشرے میں نظر انداز کیا جا رہا ہو۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ احساس محرومی ختم ہو جانے پر بسیار خوری میں بھی کمی آجاتی ہے اور پھر اگر ورزش کی جائے اور صحت بخش غذا کھائی جائے تو وزن کم کیاجا سکتا ہے۔بعض تحقیقی جائزوں سے انداز ہوتا ہے کہ بہت سے موٹے بچے بدمزاج ہو جاتے ہیں، ہر چیز میں میخ نکالتے ہیں اور اپنے کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ موٹاپے پر معذوری کو ترجیح دیتے ہیں لہٰذا والدین کو چاہئے کہ صرف بچے کے زیادہ وزن پر ہی توجہ نہ دیں بلکہ اپنے بچے کے مثبت پہلوﺅں پر زور دیں اور بچے کے مسائل کے بارے میں اس سے گفتگو کرتے رہیں تاکہ اس میں یہ احساس پیدا ہو کہ اس کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 898
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں