Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

معجزاتی درخت!نیم لگائیں، بیماریاں بھگائیں

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2018ء

انسان اگر درختوں اور پودوں کو محبت کے ساتھ لگاکر ان کی دیکھ بھال اور پرورش کرتا ہے تو پودے بھی جواب میں اسے بہت سارے فوائد سے نوازتے ہیں مگر یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ پودوںاور درختوں کی بعض اقسام کو باغبانی کے شوق کا حصہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ بس یہ پیدا ہو جاتے ہیں اور بنی نوع انسان پر اپنے بیش بہا فوائد بکھیرتے رہتے ہیں۔ گرم ممالک میں پیدا ہونے والا ایک سدا بہار درخت نیم بھی ہے جسے گھر کے باہر بطور سایہ دار درخت لگایا جاتا ہے اور یا ضرورت کے وقت اس کے پتوں، شاخوںاور نمبولیوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے لیکن درخت کے اعتبار سے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ ہزار ہا برس سے انسانوں کے لئے نسخہ شفا کا کام دینے والے اس درخت کی شفائی صلاحیتوں کو 320 قبل مسیح میںہی تسلیم کرلیا گیا تھا اور تاریخ طب کی کتابیں اس کے ان گنت فوائد سے بھری پڑی ہیں۔
اطباء کے مطابق بعض درخت ایسے ہوتے ہیں جن کے پھول تو زہریلے مگر شاخیں تریاق کا درجہ رکھتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے رہنے والے دو ہزار برس سے زائد کا عرصہ ہوا اس مفید درخت کی شاخوں کی مسواک استعمال کررہے ہیں۔ نیم کو عام طور پر اس کے فوائد و خواص کے سبب ’’دیسی شفاخانہ‘‘ اور ’’معجزاتی درخت‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ نیم کا پودا لگانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ اسے ابتدا میں مناسب دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے مگر ایک مرتبہ جڑ پکڑنے کے بعد یہ تیزی سے پھلتا پھولتا ہے اور اسے پانی کی بھی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کی جڑیں زیر زمین نمی کو چوس کر درخت کو بڑھانے میں مدد دیتی رہتی ہیں۔ نیم کا بطور دوا استعمال تو اسی وقت شروع ہو جاتا ہے جب اس کی کونپلیں پھوٹتی ہیں، پتے نمودار ہوتے ہیں اور جب اس کے درخت پر نمبولیاں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ نمبولی کچی حالت میں کڑوی مگر پکنے پر میٹھی ہو جاتی ہے۔ اس کا مغز ملین، قاتل کرم شکم اور دافع بواسیر ہے۔ اس کے مغز سے سے نکالا گیا تیل انتہائی خراب زخموں کو بھی اچھا کردیتا ہے نیز اسے جذام کے مرض میں بھی استعمال کرایا جاتا ہے اور اس کی افادیت میں اضافے کے لئے روغن چال موگرا بھی شامل کرلیتے ہیں۔ محض نیم کے ست کا چھڑکائو کیڑے مکوڑوں کی دو سو سےزائد اقسام کو بھوکا مارنے کے علاوہ ان کی تولیدی صلاحیت بھی ختم کر ڈالتا ہے یوں ان کی افزائش نہیں ہو پاتی۔ یہ بھی کسی حد تک ایک حیران کن امر ہے کہ نیم کا ست چھڑکنے سے صرف ایسے کیڑے مکوڑے ہلاک ہوتے ہیں جو کہ انسانوں کے لئے مضر ہوتے ہیں جبکہ مفید اور کارآمد کیڑوں کو نقصان نہیں پہنچتا۔
نیم کا پھل نمبولی کہلاتا ہے جو کچی حالت میں سبز اور پکنے پر پیلے رنگ کا ہو جاتا ہے اور پکنے پر پیلے رنگ کا ہو جاتا ہے اور پکنے پر اس کے گودے سے میتھین نامی گیس بھی تیار کی جاسکتی ہے نیز اسے گودے سے حاصل شدہ نشاستہ صنعتی استعمال کے لئے خمیر بھی بناسکتے ہے۔ نیم کے بیجوں سے نکلنے والا تیل بہت کارآمد ہوتا ہے جس کو صابن کے علاوہ حسن و آرائش کی مختلف آرائش کی مختلف اشیاء میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تیل حاصل کرنے کے بعد باقی بچ جانے والا پھوک بہترین کھا کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے جس میں قدرتی کھاد کے مقابلے میں کہیں زیادہ کیمیائی اجزاء موجود ہوتے ہیں جو کیچوے اور دیمک کو بھی ہلاک کرڈالتے ہیں۔ اسی طرح نیم کے پتے بھی کھاد کا کام دے سکتے ہیں جنہیں کھیت میں بکھیرایا جائے تو چاول اور تمباکو کی بہت عمدہ فصل ہوتی ہے جبکہ نیم کی کھلی سے گنے اور سبزیوں کے لئے موثر کھاد بنائی جاسکتی ہے۔
جس خطے میں ہم رہتے ہیں وہاں نیم کے فوائد صدیوں سے اٹھائےجاتے رہے ہیں اور شاید اسی لئے سنسکرت میں نیم کو ’’تمام روگوں کا علاج‘‘کہا جاتا ہے۔ گھریلو ٹوٹکوں اور ترکیبوں میں بھی اس کا استعما ل عام ہے، مختلف قسم کے درد، بخار، انفیکشن اور جلدی امراض کے علاوہ بعض دوسرے عوارض سے نجات کے لئے اس کا سہارا لیا جاتارہا ہے جبکہ اس کی مسواک تو دانت صاف کرنے کیلئے انتہائی موثر سمجھی جاتی ہے اور جدید دور کے ماہرین امراض دندان بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’’نیم کے استعمال سے مسوڑوں کا ورم جاتا رہتا ہے اور دانت بھی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں‘‘ یہ ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ مچھروں سے پھیلنے والے ملیریا کے اثرات 100 ملین سے زائد افراد کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں جن میں سے دس لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اب دوا سازا اداروں نے نیم کو ملیریا کے خلاف موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے ۔ نیم میں وائرس کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک عمدہ جراثیم کش ہونے کے ساتھ ہی اینٹی فنکس بھی ہے یعنی پھپھوند سے محفوظ رکھتا ہے۔ برصغیر میں چیچک اور خسرہ جیسے متعدی امراض کا مقابلہ نیم کے پانی سے کیا جاچکا ہے اور اس کے جوشاندے سے چیچک کے زخموں کو دھونے سے افاقہ ہوتا ہے تو دوسری جانب مسے بھی غائب ہو جاتے ہیں۔ آج کل جوتے پہننے والوں خصوصاً کھلاڑیوں میں پیروں کی پھپوند کا مرض عا م ہے جسے محض نیم کے پتوں کا لیپ لگا کر دور کیا جاسکتا ہے۔
جلد کے امراض میں بھی نیم کا استعمال تیز بہدف سمجھا جاتا ہے اور تحقیق کرنے والوں کی اکثریت اس بات پر پوری طرح متفق ہے کہ نیم کو ایگزیما، داد، کنٹھ مالا اور کسی بھی نوعیت کی کھجلی اور خارش کو دور کرنے میں کمال کا درجہ حاصل ہے۔ کہتے ہیں کہ درد دور کرنے والی موثر دوا اسپرین کا جوہر سبلی سیلک ایسڈ بید کے درخت سے حاصل کیا جاتا ہے مگر یہی صلاحیت نیم میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے جو کہ کم خرچ بھی ہے۔ اس کی پیشاب آور صلاحیت کا علم ہونے کے بعد سائنسدان اب اس سے پیشاب کے علاوہ ورم دور کرنے والی موثر دوائیں بھی تیار کررہے ہیں جبکہ اس پودے سے مانع سرطان ادویہ تیار کرنے کا سلسلہ تو برسوں سے جاری ہے۔ نیم محض ایک پودا یا درخت نہیں بلکہ ہزارہا فوائد کا مجموعہ ہے۔ اس کثیر المقاصد درخت کی لکڑی، پتے، پھل، پھول اور بیج کے علاوہ چھال کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی لکڑی میں چونکہ دیمک نہیں لگتی لہٰذا اس سے تیار کردہ فرنیچر اور دیگر اشیاء انتہائی مضبوط اور پائیدار ہوتی ہیں نیز اس کی لکڑی سے چھتوں میں استعمال کئے

جانے والے شہتیروں سے لے کر فصلوں میں چلائے جانے والے ہل تک بھی تیار ہوتے ہیں۔ نیم کے تنے سے ایک گاڑھا مواد خارج ہوتا ہے جسے ’’نیم کا مد‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ کڑوا نہیں ہوتا اور اس کے پیسے سے فساد خون، خارش اور صفراوی پھنسیوں کا علاج موثر طور پر ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے مصفی خون ہونے کی وجہ سے آتشک اور جذام میں بھی استعمال کرنا مفید رہتا ہے۔ جسم کی جلن، پیاس اور سوزش کو دور کرنے کے ساتھ ہی حکماء کا یہ کہنا ہے کہ نیم کا سایہ بھی بیماری کو دور کرتا ہے۔ اگرچہ کہ نیم کی چھال کو زیادہ تر بخار دور کرنے والی ادویہ میں شامل کیا جاتا ہے اور اس کا جوشاندہ ’’نوبتی بخار‘‘ میں اکثیر ہے مگر اس سے پیٹ کے کیڑے مارنے کے ساتھ ہی پھیپھڑوں کی دق، کوڑھ اور عام نقاہت سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جنوبی بھارت میں کچھ لوگ نیم کے پھول کو بطور غذا، سوپ اور مسالے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ معدے کے لئے بہت عمدہ دوا بھی ہے۔ بخار اترنے کے بعد نیم کے پھول سے تیار کردہ ٹانک کو بھی کارآمد سمجھا جاتا ہے جبکہ پھولوں کا جوشاندہ شدید بدہضمی میں موثر ثابت ہوتا ہے۔ نیم کے پتوں میں ذیابیطس کا علاج بھی پوشیدہ ہے جنہیں استعمال کرنے سے خون میں شوگر لیول کم ہو جاتا ہے اور پتوں سے تیار کردہ جو شاندہ بہترین اینٹی سپیٹک سمجھا جاتا ہے۔اگرچہ کہ نیم ایک مفید پودا ہے جس کے بارے میں کتابیں لکھی جاسکتی ہے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ عصر حاضر کی تحقیق اور برسہا برس سے جاری مشاہدوں کے انکشافات کے بعد بھی ہمارے یہاں نیم پر مناسب توجہ نہیں دی گئی ہے حالانکہ محض اس درخت کو بڑی تعداد میں لگاکر ماحولیاتی آلودگی کے طوفان کا بھی مقابلہ کیا جاسکتا ہے جو کہ شہری زندگی میں سب سے بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ نیم بعض دوسرے پھلدار درختوں کی طرح نہ تو اشتہار بڑھانے والے پھل دے سکتا ہے اور نہ ہی اس کے پھولوں کی مہک کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے مگر اس کے ڈھیروں طبی فوائد کے پیش نظر اسے بھی باغبانی کے شوق میں شامل کرکے بنی نوع انسان کی ان دیکھی خدمت کی جاسکتی ہے جبکہ خود بھی ہزاروں مسائل سے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 934 reviews.