جنات تو ٹوٹ ہی پڑے: یہ رمضان بھی کچھ عجیب رمضان تھا‘ ویسےتو ہر رمضان ہی عجیب ہوتا ہے۔ اس میں تو جنات ٹوٹ ہی پڑے‘ قرآن پاک سننے‘ سنانے‘ ختم قرآن کی محافل‘ مجالس ‘حفاظ کا ایک سے بڑھ کر دوسرے کو سنانا‘ بتانا غلطیاں نکالنا ‘ویسے ان کی قرأت میں غلطیاں نہیں ہوتیں‘ کبھی کبھار کوئی غلطی نکل آئے تو مضائقہ نہیں۔ ختم القرآن کی محفل میں انوکھا منظر:ایک ختم قرآن کی محفل میں‘ میں سترہ رمضان المبارک کو گیا‘وہاں ایک انوکھا منظر دیکھا جو منظر میرے دل پر ابھی بھی نقش ہے منظر کیا تھا؟ ایک درمیانے طبقے کے فرد نے مجھے دعوت دی‘ بہت مالدار نہیں تھا لیکن نہایت مفلس اور غریب بھی نہیں تھا ‘دوسرے لفظوں میں ایک سفید پوش جن نے مجھے دعوت دی جب میں اس کے گھر گیا وہاں اس نےاور بہت سے جنات کو جمع کیا ہوا تھا اب ہر طرف جنات تھے اور ان میں‘ میں اکیلا ہی انسان تھا‘ خاموشی تھی‘ اس کا بیٹا قرآن ختم کرچکا تھا اور ختم قرآن میں تمام اعمال وتر وغیرہ ہوچکے تھے بس صرف میرا ہی انتظار تھا کہ میں آخر میںدعا کراؤں اور ان سے کچھ کلمات عرض کروں‘ بس اسی کیفیت میں وہ سارے خاموش میرےمنتظر تھے‘ مجھے کچھ پہنچتے ہوئے تاخیر ہوگئی جس کی میں نے ان سے باقاعدہ معذرت کی۔ انسان گناہ کیسے کرتا ہے؟:میں نے ابتدائی کلمات کے بعد اس سارے مجمع سے ایک سوال کیا آپ یہ بتائیں انسان گناہ کیسے کرتا ہے؟ کیا اس میں کچھ جنات کا عمل دخل ہوتا ہے‘ کیا جنات اس کا ذریعہ بنتے ہیں؟ اسے بہکانے کیلئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سے دور کرنے کیلئے کیا اس پر کوئی شیطانی حملہ آور حملہ کرتا ہے۔ تو مجھ سے کہنے لگے سوفیصد ایسا ہوتا ہے اور سوفیصد ایسا ہونے کے سوفیصد چانس ہیں۔میں خالص دھوئیں سے بنا ہوں: ان میں سے ایک جن کھڑا ہوا‘ کہنے لگے : میں وہ جن ہوں جو خالص دھوئیں سے بنا ہوں‘ تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم آگ سے نہیں بنے؟ کہا آگ جب بالکل جل جاتی ہے تو وہ ایک کالے دھوئیں کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور دھوئیں سے بنے ہوئے جنات بہت زیادہ ہیں لیکن آگ سے بنے ہوئے جنات سے بہت کم ہیں اور دھوئیں سے بنے ہوئے جنات ایک حد تک بہت خطرناک ہوتے ہیں‘ وہ ا گر خیر کی طرف جائیں تو ان سے زیادہ خیر کی طرف کوئی جا نہیں سکتا اور اگر وہ شر کی طرف جائیں تو ان سے بڑا کوئی شریر‘ شرارتی ‘ بدمعاش‘ کمینہ‘ خبیث شاید کوئی ہو نہ سکے۔ پھر اس نے سر جھکایا اور ایک دور بیٹھے بوڑھے جن کی طرف توجہ اور انگلی کرکے اشارہ کیا کہ مجھے تو اس ہستی نے خیر اور نیکی کی طرف متوجہ کیا ہے‘ ورنہ تو میرے دن رات ایسے گزرتے تھے کہ میں لوگوں کو مسلسل تکالیف دیتا تھا اور لوگوں کو مسلسل تکلیف دینا میرا بہترین مشغلہ تھا اور میں نے اس کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا تھا اور میں اپنی اس زندگی پر مطمئن تھا۔میری زندگی کا مشغلہ: دن رات لوگوں کو تنگ کرنا پریشان کرنا اور لوگوں کے جسموں میں بیماریاں‘ تکالیف‘ دکھ‘ گناہ‘ الجھنیں ‘پریشانیاں‘ ناکامیاں منتقل کرنا میری زندگی کے دن رات کا یہی مشغلہ تھا اور میں اپنے اس مشغلے پرمطمئن تھا۔ پھر خاص بات جو دھوئیں سے بنے جنات کی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دھوئیں سے بنے ہوئے جنات بہت خطرناک ہوتے ہیں‘ یہ اگر کسی کوہاتھ لگالیں یا چھو بھی لیںیا ان کے جسم کا کچھ حصہ کسی کے جسم کو لگ جائے حتیٰ کہ جنات بھی ہم دھوئیں سے بنے جنات سے ڈرتے ہیں کیونکہ ہم کالے جنات ہوتے ہیں اور بہت خطرناک ہوتے ہیں اور ہمارا خوف اور ڈر اکثر اسی طرح خطرناک ہوتا ہے کہ جس طرح
انسان بچھو اور سانپ سے ڈرتا ہے اور بچھو اور سانپ کی وجہ سے جسم اکثر متاثر ہوتے ہیں یا بیماری یا موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔صحت مند شخص کا عبرتناک حال: کتنے لوگ ایسے تھے جو صحت مند تھے‘ مجھے ان کی صحت پر رشک آتا تھا‘ ایک شخص کو میں نے پہاڑوں پر سے دیکھا کہ اپنے چھوٹے سے کھیت میں فصل بو رہا تھا‘وہ بہت صحت مند تھا ‘عمر کوئی اس کی چالیس بیالیس سال ہوگی‘ میرے جی میں آیا کیوں نہ اسے تکالیف اوربیماریوں میں مبتلا کروں‘ بس میں اس کے قریب گیا اور جاکر میں نے اپنا ہاتھ اس کے سر سے لے کر پیٹھ تکپھیرا‘ اسے بظاہر کچھ محسوس نہیں ہوا میں اپنا کام کرکے چلا گیا۔ اسی وقت اس کے جسم میں بے چینی‘ پریشانی‘ اکڑاہٹ اور گھبراہٹ شروع ہوگئی وہ کام کرتا رہا لیکن بڑی مشکل سے اس نے اپنا کام مکمل کیا‘ گھر گیا تو ہائے ہائے کرتا بستر پر لیٹ گیا بظاہر بخار ہوگیااور بخار کئی ہفتے رہا۔ بہت علاج معالجے کروائے ‘ علاج معالجے سے بخار ٹوٹ جاتا لیکن پھر ہوجاتا ۔کسی نے کہا کسی پیر اور بابے کو دکھائیں‘ پیر اور بابے کے پاس لے گئے۔ انہوں نے کچھ تعویذ پہننے اور کچھ پینے کیلئے دئیے۔ ان کے تعویذوں کا اثر یہ ہوا کہ یہ کالی چیزیں جو اس کے ساتھ تھیں وہ ساری کی ساری دور ہوگئیں لیکن مریض نے اس بابے اور پیر کی بات کو سوفیصد نہیں مانا اور پھر اسی مرض میں مبتلا ہوگیا پھر کسی اورعامل کے پاس گیا لیکن اس کا علاج کارگر نہیں تھا وہ صرف مال‘ دولت اور پیسے بنانے والا تھا‘ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا حتیٰ کہ آہستہ آہستہ یہ شخص کمزور ہوتا چلا گیا اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا گیا میں کبھی کبھی اس کے گھر کے قریب سے گزرتا تھا تو مجھے خوشی ہوتی تھی‘ آج احساس ہوتا ہے کہ کسی کو تکلیف دے کر خوشی کیوں ہوتی ہے کیا میں بچھو تھا کیونکہ بچھو کو ڈس کر خوشی نہیں ہوتی‘ سانپ کو ڈس کر مزہ نہیں آتا بلکہ اس کے ڈسنے سے لوگ صحت مند قبروں میں چلے جاتےہیں آخر مجھے اس کا احساس بعد میں کیوں ہوا؟ اب تو خیر میں سوچ کر پریشان ہوتا ہوں۔ میں اس شخص کو دیکھتا رہا‘ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا‘ کوئی علاج معالجہ اس پر کارگر نہیں ہورہا حالانکہ اس پیر بابے کے کلام سے اس کو فائدہ ہوا تھا وہ اس نے کرنا چھوڑ دیا اس نے غفلت کی تھی آخر کار پورے ستائیس ماہ کی تکلیف اوربیماری میں مبتلا ہوکر وہ شخص مر گیا جس وقت اس کا جنازہ اٹھا اس کا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا گوشت نہیں تھا وہ ایک مردہ لاش سے بھی آخری حالت میں تھا‘ مجھے بہت خوشی ہوئی قبر پر گیا ‘دفن ہوتا دیکھا مجھے انوکھی راحت ہوئی۔کھلے بالوں والی خاتون کا حال: ایک اور واقعہ سنانے لگا کہنے لگا کہ میں ایک جگہ جارہا تھا ایک خاتون کو دیکھا وہ کھلے بالوں کے ساتھ اپنے شہر کے کسی پارک میں بیٹھی تھی‘ اس کے بچے کھیل رہے تھے‘ وہ مجھے بہت پسند آئی‘ میرے جی میں آیا کہ اس کے ساتھ برائی کروں‘ لیکن پھر سوچا یہ تو میں بارہا کرچکا ہوں اس کو میں کسی اور طرح پریشان کروں‘ اس کو تنگ کروں بس میں نے اس کے کھلے بالوں پر ہلکا سا ہاتھ پھیرا اور چلا گیا۔ اس خاتون کو فوری طور پر کچھ محسوس نہ ہوا اور اس کا جسم کسی بیماری میں مبتلا نہ ہوا لیکن اسی وقت اس کو اپنے بچوں کے اوپر غصہ آنا شروع ہوا حالانکہ بچے تو شرارتیں پہلے بھی کررہے تھے اور کھیل رہے تھے اور اب بھی کھیل رہے تھے لیکن اس نے بچوں کے ساتھ چیخنا چلانا شروع کردیا‘ انہیں جھڑکنا شروع کردیا‘ اسے اتنا غصہ آرہا تھا کہ ہر آتا جاتا اس کی چیخ وپکار کو دیکھ رہا تھا اورناگواری محسوس کررہا تھا پھر اچانک بچوں کو لے کر پارک سےباہر آئی‘ بچوں کو گاڑی میں ڈالا اور اسی غصے اور جھنجھلاہٹ میں اس نے گاڑی تیز چلائی‘
غصہ اور جھنجلاہٹ کی وجہ سے اس کی تیز گاڑی فٹ پاتھ سے ٹکرائی اور گاڑی کا اگلا حصہ بری طرح ٹوٹ گیا‘ وہ نیچے اتری اور آنے جانے والی گاڑیوں پر چیخنا اور چلانا شروع کردیااور قصور وار راہگیروں اور گاڑیوں کو قرار دیا۔ اسے اپنے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے اور اسے بالکل بھی احساس نہیں ہورہا تھا پھر وہ گھر گئی اور گھر جاکر بھی اپنی اسی حالت پر مطمئن رہی‘پھر اس نے گھر میں ہر چیز سے لڑناچاہے وہ جاندار ہو یا بےجان‘ ہر چیز سے الجھنا حتیٰ کہ چند دنوں میں اس کا گھر جہنم بن گیا‘ اسے غصہ آتا تھا‘ چڑچڑا پن تھا‘ جھنجھلاہٹ تھی‘ اکتاہٹ تھی‘ گھبراہٹ تھی‘ اس کی نیند اڑ گئی تھی‘ اس کا کھانا پینا کم ہوگیا تھا‘ وہ گھر میں رہنا پسند نہیں کرتی تھی‘ وہ معاشرے کے ہر فرد کو قصوروار قرار دیتی تھی صحت کے ساتھ تعلق ختم ہوگیا‘ پیار اس سےختم ہوگیا‘ پھر چند ہی ہفتوں کے بعد اسے خودکشی کے خیال آنا شروع ہوگئے‘ وہ کہنےلگی کہ سارا معاشرہ جھوٹا ہے‘ فریبی ہے‘ دھوکے باز ہے‘ میرا شوہر مجھے نہیں چاہتا‘ وہ کسی اور سےمحبت اور پیار کرتا ہے‘ مجھے میرے شوہر نے‘ سسرال نے حتیٰ کہ میرے ماں باپ نے مجھے ذلت دی ہے‘ میں نے زندگی میں کوئی خوشی نہیں دیکھی‘ میں نے کوئی سکھ نہیں دیکھا‘ میں نے کوئی چین آج تک زندگی میں دیکھا ہی نہیں‘ سنا ہی نہیں بس اس
طرح کی کیفیات ہروقت اسے آتیں‘ پھر اس نے خودکشی کرنے کی بھرپور کوشش کی وہ زخمی ہوگئی لیکن بچ گئی‘ پھر وہ دل کی مریضہ بن گئی‘ بلڈپریشر کی ادویات کھانے لگی‘ بلڈپریشر اس کا بڑھتا چلا گیا‘ ڈاکٹروں نے اس سے کہا کہ آپ کو بہت ڈیپریشن ہے اورآپ ٹینشن میں چلی گئی ہیں‘ لہٰذا آپ کو ڈیپریشن اور ٹینشن کی ادویات کھانا پڑیں گی پھر اس نے ڈیپریشن اور ٹینشن کی دوائیں پھانکنا شروع کردیں اس کا جسم موٹا ہوگیا اس کے خوبصورت بال اڑنا شروع ہوگئے حتیٰ کہ اس کی بھنوؤں کے بال بھی اڑنا شروع ہوگئے۔ بچوں پر توجہ ختم ہوگئی‘ ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے بچوں کے اخلاق بُرے ہوگئے بچوں میںبداخلاقی اور بے حیائی بڑھتی چلی گئی۔ یہ طبیعت اور مزاج ان کا بڑھتے بڑھتے حتیٰ کہ اس کا بڑا بیٹا جس کی عمر سولہ سال تھی‘ اس نے نشہ کرنا شروع کردیا ‘اسے سکون کی تلاش تھی‘ اسے ممتا کا سکون نہ ملا‘ وہ کبھی کبھی سوچتا تھااس کی ماں کو کیا ہوگیا‘ یہی ماں جو محبت کرتی تھی ‘ڈانٹتی نہیں تھی‘ پیار سے پیش آتی تھی‘ محبتیں اور الفتیں اس ماں کے آنگن میں ہمیشہ رہتی تھیں اس ماں نے اسے بڑی چاہت سے پالا‘ بڑی چاہت سے جھولے میں لوریاں دیں‘ آخر اس ماں کو ہوہی کیا گیا‘ اس کے دن رات بدل گئے اس کی صبح و شامیں بدل گئیں‘ اس کے لمحے بدل گئے‘ ماں خود بیماریوں میں مبتلا ہونے لگی۔ اس کی شوہر سے توجہ ہٹ گئی‘ وہ ہر کسی سے لڑتی تھی‘ ہر کسی سے الجھتی تھی حتیٰ کہ شاپنگ کرنے جاتی تو لوگ اس کے رویے پر چونک اٹھتے اور کچھ لوگ تو کہہ اٹھتے میڈم آپ کو کیا ہوگیا آپ تو صحت مند تھیں‘ آپ تو ایسا نہیں بولتی تھیں۔ ٹھیلے والے‘ سبزی والے‘ پھل والے کہتے باجی آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ آپ کی زندگی میں ایسا کیوں ہے؟ آپ بہت تلخ ہوگئیں جو اسے ٹوکتا اسی کو برا بھلا کہنا شروع
کردیتی‘ لوگ اس سے جدا ہوگئے‘ لوگ اس سے دور سے دور
ہوتے چلے گئے اور وہ تنہا ہوگئی۔ ہمارا طلسماتی جادو ہوتا ہی ایسا ہے: یہ بات کہتے ہوئے اس کالے جن نے ٹھنڈی آہ بھری اور پھر بولا کہ دراصل بات یہ ہے کہ ہمارا جادو اور ہمارا طلسماتی اثر ہوتا ہی ایسا ہے کہ آنکھیں بند ہوجاتی ہیں‘ سوچیں ختم ہوجاتی ہیں دماغ پر تالے لگ جاتے ہیں عقل ماؤف اور انسان پاگل ہوجاتا ہے وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقل مند اور سب سے زیادہ صحت مند سمجھتا ہے‘ اسے اپنے علاوہ ہر بندہ بیوقوف نظر آتا ہے اس کی زندگی میں بس ایک ہی چیز ہوتی ہے کہ میں ہی سچا ہوں اور میں ہی سب سے زیادہ عقل مند ہوں اور میرے علاوہ باقی سب بے وقوف اور احمق ہیں میں دیانت دار ہوں۔ قارئین یہ بات میں سن رہا تھا بلکہ یہ ساری باتیں دھوئیں سے بنے جن سےسن رہا تھا اورمیں حیران تھا کہ کالےاور خبیث جنات ہماری زندگیوں میں کس طرح کی پریشانیاں بانٹتے ہیں‘ ہم پریشانیوں کی اصل کو نہیں دیکھتے بلکہ پریشانیوں کو ہم علاج معالجے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ میں علاج معالجے کا قائل ہوں‘ میں علاج معالجے کو غلط نہیں سمجھتا لیکن آپ سوچ نہیں سکتے اصل چیز جس کی وجہ سے انسان کی زندگی خطرناک سے خطرناک ہوجاتی ہے ‘وہ جناتی‘ شیطانی اور خاص طور پر کالے آگ کے بگڑے ہوئے دھوئیں سے بنے ہوئے شیطان ہیں( یعنی جنات ہیں) جو انسان کی زندگی کو خطرناک حد تک تلخ کردیتے ہیں وہ جن پھر بولا اور کہنے لگا کہ حتیٰ کہ وہ سارا گھر برباد ہوگیا‘ ایک عورت کی وجہ سے سارا گھر تلخیوں‘ پریشانیوں میں مبتلا ہوگیا کچھ عرصہ کے بعد اس کے شوہر کو شوگر ہوگئی اور اس کا شوہر بلڈپریشر میں مبتلا ہوگیا اور اس کی زندگی میں بس کانٹے ہی کانٹے تھے اور یوں میں نے اس گھر کو تباہ وبرباد اور ذلیل ہوتے دیکھا اور پھر ساری بنیادی وجہ میں تھا۔ بس میں نے اس کو اپنا شیطانی ہاتھ لگایا تھا اور شیطانی ہاتھ سے وہ سب کچھ یعنی سکون‘ چین‘ راحت‘ رحمت‘ برکت‘ خوشیاں خیریںاس کی زندگی سے ختم ہوگئیں اور ایسے ختم ہوئیںکہ جیسے آج
تک انہیں کچھ ملا ہی نہیں۔ مجھ سے مخاطب ہوکر وہ کالا جن کہنےلگا آپ نے یہ سوال کیا ہے کیا ہماری زندگی کے گناہوں میں یعنی انسانوں کی زندگی کے گناہوں میں جنات کا دخل بھی ہوتا ہے تو کہنے لگا:یقیناً ہوتا ہے ۔جنات کا زندگیوں میں دخل:جنات کا دخل اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ آپ گمان نہیں کرسکتے پھر اس کی مثال دی۔اس مثال میں کہنے لگا کہ میرے گھر کے قریب انسان بہت زیادہ رہتے ہیں‘ ہم جنات بھی رہتے ہیں‘ ایک بوڑھی خاتون جس کے پوتے اور پوتیاں ہیں‘ میرے دل میں اچانک ایک خیال آیا کہ کیونکہ میں دن رات شرارتیں سوچتا تھا ‘شر سوچتا تھا‘ خیر کبھی میرے قریب نہیں آئی تھی دن رات بدی اور بدکاری سوچتا تھا نیکی کو آج تک میں نے سونگھا اور سوچابھی نہیں۔ مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اس نیک خاتون کو میں گناہوں اور برائیوں میں مبتلا کروں میں جانتا تھا وہ تہجد گزار نماز پڑھنے والی تسبیح اور صدقہ دینے والی ہروقت اللہ اللہ کرنے والی ‘نظروں میں حیا ‘بولوں میں پاکیزگی‘ طبیعت میں سچائی ‘خیال اورگمان میں ہروقت خوف خدا اور یہی چیز اس نے اپنی نسلوں میں منتقل کی ۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں