محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم!آپ کو اللہ نے اپنے علم کےخزانوں سے نواز ے۔ بھلا آپ کس علم سے بے خبر ہوسکتے ہیں ۔ آپکی ایک معمولی سے مرید ہوں۔ اس لئے میری غلطی معاف فرما دیجئے گا۔ خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ ’’علم کے سمندر‘‘ کی خدمت میں ایک بوند پیش کررہی ہوں۔ آپ اعلیٰ ظرف ہیں مجھے یقین ہے کہ آپ قبول کرنے کا شرف بخشیں گے۔بچپن میں یہ حدیث مبارکہ پڑھی تھی کہ آنحضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ میں ’’علم کا شہر ہوں اور علی اس کا شہر کا دروازہ ہے‘‘ اس کے بعد میں نے ’’علم کا نام‘‘ سبق یاد کرنے کے لئے اپنے ذہن پرلکھنا شروع کردیا۔عمل اس طرح ہے کہ شہادت والی اُنگلی پر تین مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کر دم کریں پھر اس انگلی سے اپنی پیشانی پر لفظ ’’اللہ‘‘ لکھیں۔ پھر تین دفعہ کلمہ طیبہ شہادت والی انگلی پر دم کر کے لفظ ’’محمدؐ‘‘ لکھیں۔ یعنی ’’علم‘‘ (محمد ﷺ کا نام)اپنے ذہن میں محفوظ کر کے کچھ بھی پڑھا جائے ان شاء اللہ ذہن نشین ہو جائے گا۔میں نے بچپن سے یقین سےاس عمل کو کیا اور بہت فائدہ ہوا ہے۔فائدہ:اس عمل نے مجھے بنا دیا یہ عمل میری بنیاد ہے۔بچپن میں میں بہت بیمار رہتی تھی۔ جس وجہ سے سکول کم جاتی تھی اور پڑھائی میں بے حد کمزور تھی۔ 6th کلاس سے میں نے یہ عمل کرنا شروع کیا۔ جس کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہوا کہ میرے لئے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے کا راستہ کھلا اور بہترین استانی ملیں۔
مجھے جب بھی قرآن پاک کا یا پھر سکول کا سبق یاد کرنا ہوتا ایک دفعہ یہ عمل کرلیتی اور سبق آسانی سے یاد ہو جاتا اور کبھی بھولتا نہیں تھا۔ اسی سال میں نے 6th کلاس کے سالانہ امتحانات میں ’’A‘‘گریڈ حاصل کیا۔ ہر ٹیسٹ میں بہترین نمبر حاصل کرکے اپنے سبھی کلاس فیلوزاور یہاں تک کہ اساتذہ کو بھی حیران کردیا۔ دن بہ دن ذہن کھلتا رہا۔ مجھے قرآن پڑھانے والی باجی بہت متاثر ہوتی تھیں اور یوں باقی سب کا سبق پوچھنے کا ذمہ مجھے سونپ دیا۔آٹھویں جماعت تک آتے آتے سکول کی چھٹیاں ہونا بہت کم ہوگئیں مجھ میں خود اعتمادی آگئی۔ میں روزانہ یہ عمل کرتی تھی۔ جب امتحان ہوتے تو میں ایک دفعہ یہ عمل کر کے پھر پڑھنے بیٹھتی اور خودبخود اندازا ہو جاتا تھا کہ کونسا سوال یاد کرنا زیادہ بہتر رہے گا۔ اگلے دن جب امتحان ہوتا تو امتحانی پرچہ میں وہ ہی سوال ہوتے تھے جو میں نے یاد کیئے تھے۔پوری کلاس میں صرف میں ہی مسکراتے ہوئے پیپر کرتی اور پیپر ختم ہونے تک خوشی سے مسکراتی رہتی۔بعض دفعہ ٹیچرز کو یہ گمان ہوتا تھا کہ شایدنقل کررہی ہوں‘ یوں وہ میرے سامنے کھڑے رہتے مگر مجھے اس سے کیا فرق پڑسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میری خود رہنمائی کی ہوتی تھی اور میں جتنے بھی مشکل سوال ہوتے الحمد اللہ مجھے جواب یاد ہوتے اور میں کبھی ناکام نہیں ہوئی۔
آٹھویں جماعت میں میں نے 2nd پوزیشن حاصل کی اور آخر نویں جماعت میں میں نے فرسٹ پوزیشن حاصل کرکے اس لڑکی کا ریکارڈ توڑا جس کو سب ان بریک ایبل مانتے تھے۔ وہ کبھی نہیں ہاری تھی اور میں نے ہر بار ہی مقابلے میں اسے ٹکر دی۔ وہ بچپن سے میری کلاس میٹ تھی اور ہمیشہ فرسٹ آتی تھی اور پھر دسویں جماعت میں بھی اس نے A گریڈ حاصل کیا جبکہ میں نے A+گریڈ حاصل کیا۔ میں ریاضی میں بہت کمزور تھی اور اب میں نے ریاضی کی پوری کتاب گھول کر پی ہوئی تھی۔ جو اساتذہ مجھے بچپن سے جانتے تھے کہ میں پڑھائی میں کس قدر کمزور تھی وہ اب حیران رہتے اور باقی اساتذہ متاثر۔ میرے دل میں تعلیم کے لئے ایک شوق سا پیدا ہوگیا۔اور اب میں فزکس میں ماسٹرز کرنا چاہتی ہوں اور پھر ایسٹروفزکس پڑھنا چاہتی ہوں ۔ یہ عمل میرا سب سے قیمتی خزانہ ہے اس عمل نے مجھے کیا سے کیا بنا دیا۔ یہ میرا وہ ہتھیار ہے جس سے مجھے ہمیشہ نمایاں کامیابی ملی اور میں نے باقی سب کو حیران پریشان چھوڑا ہے یہ میرا سب سے بڑا خزانہ ہے اور سب سے بڑا راز بھی اس عمل نے میری بنیاد مضبوط کی ہے اور بنیاد ہی آگے بڑھاتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں