کھانے میں عظیم برکت: حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بارگاہ رسالت کے تین مہمانوں کو اپنے گھر لائے اور خود حضور اکرم ﷺ کی خدت اقدس میں حاضر ہوگئے اور گفتگو میں مصروف رہے یہاں تک کہ رات کا کھانا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دسترخوان نبوتﷺ پر کھالیا اور بہت زیادہ دیر گزر جانے کے بعد مکان پر واپس تشریف لائے۔ ان کی بیوی نے عرض کیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنے گھر پر مہمانوں کو بلا کر کہاں غائب رہے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ کیا اب تک تم نے مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا؟ بیوی صاحبہ نے کہا کہ میں نے کھانا پیش کیا مگر ان لوگوں نے صاحب خانہ کی غیرموجودگی میں کھانا کھانے سے انکار کردیا۔ یہ سن کر آپ اپنے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پر بہت زیادہ خفا ہوئے اور وہ خوف و دہشت کی وجہ سے چھپ گئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کےسامنے نہیں آئے پھر جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا غصہ فرو ہوگیا تو آپ مہمانوں کے ساتھ کھانے کیلئے بیٹھ گئے اور سب مہمانوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھانا کھالیا۔ ان مہمانوں کا بیان ہے کہ جب ہم کھانےکے برتن میں سے لقمہ اٹھاتے تھے تو جتنا کھانا ہاتھ میں آتا تھا اس سے کہیں زیادہ کھانا برتن میں نیچے سے ابھر کر بڑھ جاتا تھا اور جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو کھانا بجائے کم ہونے کے برتن میں پہلے سے زیادہ ہوگیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے متعجب ہوکر اپنی بیوی صاحبہ سے فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ برتن میں کھانا پہلے سے کچھ زائد نظر آتا ہے۔ بیوی صاحبہ نے قسم کھا کر کہا واقعی یہ کھانا تو پہلے سے تین گنا بڑھ گیا ہے پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس کھانے کو اٹھا کر بارگاہ رسالت ﷺ میں لے گئے جب صبح ہوئی تو ناگہاں مہمانوں کا ایک قافلہ دربار رسالت ﷺ میں اترا جس میں بارہ قبیلوں کے بارہ سردار تھے اور ہر سردار کے ساتھ بہت سے دوسرے شتر سوار بھی تھے۔ ان سب لوگوں نے یہی کھانا کھایا اور قافلہ کے تمام سردار اور تمام مہمانوں کا گروہ اس کھانے کو شکم
سیر کھاکر آسودہ ہوگیا لیکن پھر بھی اس برتن میں کھانا ختم نہیں ہوا۔ (بخاری شریف ج1 ص506 مختصراً)
شکم مادر میں کیا ہے؟: حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے اپنے مرض وفات میں اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو وصیت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میری پیاری بیٹی! آج تک میرے پاس جو میرا مال تھا وہ آج وارثوں کا مال ہوچکا ہے اور میری اولاد میں تمہارے دونوں بھائی عبدالرحمٰن و محمد اور تمہاری دونوں بہنیں ہیں لہٰذا تم لوگ میرے مال کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق تقسیم کرکے اپنا اپنا حصہ لے لینا۔یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ اباجان! میری تو ایک ہی بہن ’’بی بی اسماء‘‘ ہیں‘ یہ میری دوسری بہن کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میری بیوی ’’بنت خارجہ‘‘ جو حاملہ ہے‘ اس کے شکم میں لڑکی ہے‘ وہ تمہاری دوسری بہن ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ’’ام کلثوم‘‘ رکھا گیا۔ (تاریخ الخلفاء ص 57)اس حدیث کے بارے میں حضرت علامہ تاج الدین سبکی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا کہ اس حدیث سے امیرالمومنین حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی دو کرامتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ آپ کو قبل وفات یہ علم ہوگیا تھا کہ میں اسی مرض میں دنیا سے رحلت کروں گا اس لیے بوقت وصیت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے یہ فرمایا: ’’کہ میرا مال آج میرے وارثوں کا مال ہوچکا ہے‘‘ دوم یہ کہ حاملہ کے شکم میں لڑکا ہےیا لڑکی اور ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں کا وقت سے پہلے کردینا بلاشبہ و بالیقین پیغمبر کے جانشین حضرت امیرالمومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی دو عظیم الشان کرامتیں ہیں۔ (ازالۃالخفاء مقصد 2 ص 21 و حجۃ اللہ ج 2 ص 860)
نگاہِ کرامت: حضور نبی کریم ﷺ کی وفات حسرت آیات کے بعد جو قبائل عرب مرتد ہوکر اسلام سے پھرگئے تھے‘ ان میں قبیلہ کندہ بھی تھا۔ چنانچہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس قبیلہ والوں سے بھی جہاد فرمایا اور مجاہدین اسلام نے اس قبیلہ کے سردار اعظم یعنی اشعث بن قیس کو گرفتار کرلیا اور لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر اس کو دربار خلافت میں پیش کیا۔ امیرالمومنین کے سامنے آتے ہی اشعث بن قیس نے بآواز بلند اپنے جرم ارتداد کا اقرار کرلیا اور پھر فوراً ہی توبہ کرکے صدق دل سے اسلام قبول کرلیا۔ امیرالمومنین نے خوش ہوکر اس کا قصور معاف کردیا اور اپنی بہن حضرت ’’ام فروہ‘‘ رضی اللہ عنہا سے اس کا نکاح کرکے اس کو اپنی قسم قسم کی عنایتوں اور نوازشوں سے سرفراز کردیا۔ تمام حاضرین دربار حیران رہ گئے کہ مرتدین کا سردار جس نے مرتد ہوکر امیرالمومنین سے بغاوت اور جنگ کی اوربہت سے مجاہدین اسلام کا خون ناحق کیا۔ ایسے خونخوار باغی اور اتنے بڑے خطرناک مجرم کو امیرالمومنین نے اس قدر کیوں نوازا؟ لیکن جب حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے صادق الاسلام ہوکر عراق کے جہاد میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر ایسے ایسے مجاہدانہ کارنامے انجام دئیے کہ عراق کی فتح کا سہرا انہی کے سررہا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے دور خلافت میں جنگ قادسیہ اور قلعہ مدائن و جلولا و نہاوند کی لڑائیوں میں انہوں نے سرفروشی جانبازی کے جو حیرتناک مناظر پیش کئے۔ انہیں دیکھ کر سب کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ واقعی امیرالمومنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی نگاہ کرامت نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ذات میں چھپے ہوئے کمالات کے جن انمول جوہروں کو برسوں پہلے دیکھ لیا تھا وہ اورکسی کو نظر نہیں آئے تھے۔ یقیناً یہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ایک بہت بڑی کرامت ہے۔ (ازالۃ الخفاء مقصد نمبر2 ص39)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں