زندگی کا سفر:زندگی کا سفر رواں دواں ہے۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہم اس سفر کے ساتھی نہیں ہونگے اور ویسے بھی ہم سفر آہستہ آہستہ کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔زندگی کے کچھ دوست ہوتے ہیں،کچھ تعلقات والے ہوتے ہیں،انسان کے کچھ دکھ درد کے ساتھی ہوتے ہیں، آہستہ آہستہ اللہ انہیں جدا کرتے ہیں، وہ کم ہونا شروع ہوتے ہیں،کم ہوتے ہوتے پھر انسان محسوس کرتا ہے کہ بس اب میری باری ہے۔جب انجمن ہوتی ہے جب ساتھیوں کا ساتھ ہوتا ہے اس وقت ہمیں احساس نہیں ہوتا۔
فکر آخرت خوش قسمتی ہے:خوش قسمت انسان ہے جس کے ساتھی بہن کی شکل میں، بیوی کی شکل میں، ماں کی شکل میں، بیٹی کی شکل میں، اولاد کی شکل میں، دوستوںکی شکل میں، احباب کی شکل میں، مخلصین کی شکل میںالغرض کسی بھی صورت میں ساتھی موجود ہوں اور پھر بھی یہ احساس ہو کہ میںنے جانا ہے اور احساس بھی شدت سے ہو۔ ایسا احساس کسی کسی خوش قسمت کو ہی نصیب ہوتا ہے ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ وطن عارضی اور مومن اصلی:آہستہ آہستہ ہمارے ساتھی ہم سفر چھٹتے چلے جاتے ہیں ،اور پھر ایک وقت آتا ہے جب انسان تنہا رہ جاتا ہے۔ اپنے ہم جولی، ہم نوالہ و ہم پیالہ چلے جاتے ہیں، پھر یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے کہ میںنے بھی جانا ہے اور میری منزل بھی وہی ہے، میری راہیں بھی وہی ہیںاورمیرا ایک وطن اصلی ہے ایک وطن عارضی ہے، ہم وطن عارضی میں زندگی گزار ہے ہیں، وطن اصلی نہیں ہے یہ وطن عارضی ہے۔
ساری کائنات میں اللہ کو نہ ماننے والے تو بہت ملیں گے، حضور سرورِ کونین ﷺکو نہ ماننے والے بھی بہت ملیں گے لیکن موت کو نہ ماننے والا کوئی نہیںملے گا۔ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کا ماننا مجبوری ہے،جس کو ماننا لازم ہے، موت ہماری زندگی کی ضرورت ہے۔ موت ہماری زندگی کی ضرورت کیسے ہے؟موت میں تو بندہ زندگی کی بازی ہار جاتا ہے، موت زندگی کی ضرورت اس لیے ہے کہ اگر موت نہ ہوتی تو یہاں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ انسان ہوتے، بوڑھے بوڑھے انسان ہوتے، یہ پانچ سوسال پرانا بوڑھا ہے اور گھروں کے اندر لائنیں لگی ہوں، گھرمیںجگہ کم پڑ جائے ،اگر موت نہ ہوتی تو بوڑھوں کی اتنی کثرت ہوتی!!!
اللہ توہر چیز پر قادر ہے۔ میں بس اسباب کی بات کر رہا ہوں اگر موت کا نظام نہ ہوتاتوانسان کیلئے جینے کی،بیٹھنے کی، اٹھنے کی جگہ نہ ہوتی۔ موت زندگی دیتی ہے۔ موت دوسرے آنے والوں کیلئے راستہ بناتی ہے۔ اللہ جل شانہ نے موت بنائی اور موت کے بعد فنا بھی بنائی کیونکہ انسان کے جسم کو اگر فنا نہ ہوتی تو مٹی کھودتے ہوئے بہت سے جسم نکل آتے ۔اگر مٹی کو حکم ہوتا کہ اس جسم کو نہ کھاتو قبرستان میں میتوں کی جگہ نہ ہوتی۔ سارے میتیں بالکل صحیح سالم پڑی ہوتیں کسی میت کو مٹی نے کھایا ہی نہیںہوتا۔ یہ اللہ کا نظام ہے ۔ہمارا اللہ اپنے نظام پر قادر بھی ہے اور مقتدر بھی، یہ سارا نظام اسی کا بنایا ہوا چل رہا ہے اور اس نظام کے تحت ہم وطنِ عارضی سے وطنِ اصلی کی طرف سفر کر رہے ہیں جو دراصل آخرت کا سفر ہے اور وہی وطنِ اصلی ہے ۔وطن اصلی کے باسی میت کا استقبال کرتے ہیں:احادیث میں محدثین نے لکھا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ :جب انسان اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے توجو وطن اصلی کے باسی ہیں وہ منتظر ہوتے ہیں اور سب اس کے آنے سے اکٹھے ہو جاتے ہیں اس کے استقبال کیلئے یہ وطن عارضی سے جاتا ہے تو ادھر وطن عارضی والے کہتے ہیںکہ ہمارے کنبے کافرد کم ہو گیا اور اس کا غم مناتے ہیں۔ ادھر وطنی اصلی والے کہتے ہیں کہ ہمارا کنبہ بڑھ گیااور وطن اصلی کے لوگ اس کا استقبال کرتے ہیں۔ اس سے حال احوال پوچھتے ہیں، فلاں کا کیا حال ہے ،فلاں کیسا ہے؟خوش ہوتے ہیں کہ واہ! واہ! تُو بھی ہمارے کنبے کا ایک ساتھی بن گیا ہے۔ اور پھر وہاں کے استقبال مختلف ہوتے ہیں۔ جس کے پاس جتنے عمل ہونگے، جس کے پاس جتنی نیکیاں ہونگیں، جس کے پاس اللہ جل شانہ کی جتنی رحمت ہو گی،اس کے مطابق اس کا استقبال ہو سکتا ہے۔وہ استقبال کم بھی ہو سکتا ہے۔وہ استقبال بڑا بھی ہو سکتا ہے۔
مکمل اعزاز کے ساتھ آخرت کا سفر: وطن اصلی میں آمد کے وقت اس کو ایک اعزاز دیا جائے گا۔ اور وہ اعزاز یہ ہو گاکہ پہلے یہ بندہ اپنا جوتا خود اتارتا تھا اب حکم ملا یہ جوتا خود نہ اتارے، اس کا جوتا تم اتارو۔یہ اپنا منہ خود نہ دھوئے تم دھلائو، پائوں خود نہ دھوئے تم دھلائو۔ ہاتھ خود نہ دھوئے تم دھلائو۔ اپنا بدن خود نہ دھوئے تم دھلائو۔ ایساکیوںہے؟ کیونکہ یہ اس کا اعزاز و اکرام ہے۔ اسے سفید اعلیٰ لباس پہنانا اکرام کی علامت ہے ۔ انسان جب کسی اعلیٰ جگہ جاتا ہے تو اچھا لباس پہن کر پھر اچھی خوشبو لگاتا ہے، اس کو بھی خوشبو لگائو، اب خوشبولگا کر اس کے لیے شاہی سواری لائو۔
پہلے دور میںبادشاہوںکی سواری پالکیاں ہوتی تھیں جو کندھے پر اٹھائیں جاتی تھیں۔ اب یہ چونکہ وطن اصلی کا باسی ہے اس لیے اس کی بھی شاہی سواری ہو ، تو شاہی سواری یہ ہے ان کو کندھوں پر اٹھائو اور دیکھو نہ زیادہ تیز چلو اورنہ آہستہ چلو کیونکہ اب یہ مہمان ہے وطن اصلی کا۔وطن عارضی میںیہ غریب تھا، یہ فقیر تھا،یہ مالدار تھا،یہ تنگدست تھا،یہ چھوٹا تھا،یہ بڑا تھا،اس کو کوئی اٹھاتا یا نہ اٹھاتا اس کاکوئی احترام ہوتا یا نہ ہوتا لیکن اب یہ وطن اصلی کا باشندہ ہے یہ اسی کا راہی ہے۔ اب اس کا احترام لازم ہے اس کا یہ لباس اسی احترام میں اس کی یہ خوشبو اسی احترام میںہے۔ اسی احترام اور اعزاز کے ساتھ اس کا مکان بنانا ہے اور وہاں جا کر اسے اعزاز سے ہاتھوں سے اتارنا ہے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں