گیہوں کے بجائے جو، بیسن، جوار، مکئی، باجرہ اور چاول کو غذا میں شامل کیاجائے۔ ہم نے اپنے گھر میں دیکھا کہ دادی اور والدہ سردیوں میں بطور خاص باجرے اور مکئی کی روٹی پکاتی تھیں اور اس پہ اصلی گھی لگاکر سب گھر والوں کو کھلاتی تھیں
گندم الرجی کیاہے؟ بہت افسوس ہوا یہ جان کر کہ کسی کی بیٹی، بہن، بھتیجی یا بھائی اور بیٹا اس کا شکار ہیں۔یقین کیجیے کہ مجھے خود بھی اس کا زیادہ پتہ نہیں تھا۔ تین سال پہلے میری ایک کولیگ پروفیسر کی پوتی کا نہ قد بڑھ رہا تھا نہ وزن اور نہ ہی اسے بھوک لگتی تھی ایک دن وہ یونہی باتوں باتوں میں کہنے لگیں ’’لو اور سنو اتنے سارے ٹیسٹ ہوئے کہ بھوک کیوں نہیں لگتی‘‘ تو ڈاکٹر صاحب نے رپورٹ دیکھنے کے بعد کہاکہ ’’بچی کو گندم کی بنی ہوئی کوئی چیز نہ کھلائی جائے۔ یہی اس کا علاج ہے‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے لاپرواہی سے کہا ’’لو بھلا گندم سے بھی کوئی بیماری ہوسکتی ہے۔‘‘میرے دل میں یہ بات اچانک اٹھی کہ کیا دیسی گندم کی دوبارہ کاشت نہیں کی جاسکتی؟ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی غذائیں ضائع کردی جاتی ہیں جن کے بارے میں ہلکا سا شبہ بھی ہو کہ یہ انسانی صحت کے لیے مضر ہیں۔میری اس بات سے بہت سے لوگ اتفاق کریںگے کہ غذائی عادات اور اس کی اہمیت سے جس طرح ہمارے بزرگ واقف تھے ہم اس معاملے میں بالکل کورے ہیں۔ آج صرف لذت کام دہن کے علاوہ کسی بھی بات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ گھروں میں کھانا کم پکتا ہے، بازار سے زیادہ آتا ہے۔ ویک اینڈ پہ باربی کیو باہر جاکر کھانا بھی لازمی ہے۔اسی لیے اب گھروں سے نہ دال بگھارنے کی سوندھی خوشبو آتی ہے جس سے اشتہا بڑھ جاتی تھی اور نہ ہی آلوگوشت، بس پڑے پڑے دھنیے کی خوشبو، شب دیگ، مغلیٔ قورمہ، یخنی پلاؤ اور شاہی بریانی بھی خواب وخیال ہوئی۔ سارا زور نوڈلز اور چائنیز کھانوں پر۔ پندرہ بیس سال پہلے تک بھی صورت حال اتنی خراب نہ تھی گھروں میں موسموں کے حوالے سے کھانے پکتے تھے۔ اسی لیے صحتیں بھی اچھی رہتی تھیں۔ رات کو دیر سے کھانے کی عادتوں نے بھی بہت خرابی پیدا کی ہے۔ صبح کا ناشتہ تین بجے سہ پہر اور رات کا کھانا گیارہ بجے کے بعد بہت عام سی بات ہے۔
لہٰذا جب ہر طرف افرا تفری اور کم وقت میں زیادہ پیسہ کمانے کی دوڑ لگی ہو تو ایسے میں گلوٹین الرجی فری غذائیں کہاں سے ملیںگی۔ اس سلسلے میں صرف یہ تجویز دی جاسکتی ہے کہ جن گھروں میں کوئی بھی فرد اس بیماری میں مبتلا ہے اس گھر کی خواتین کو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے وہ اس طرح کہ گیہوں کے بجائے جو، بیسن، جوار، مکئی، باجرہ اور چاول کو غذا میں شامل کیاجائے۔ ہم نے اپنے گھر میں دیکھا کہ دادی اور والدہ سردیوں میں بطور خاص باجرے اور مکئی کی روٹی پکاتی تھیں اور اس پہ اصلی گھی لگاکر سب گھر والوں کو کھلاتی تھیں۔میرے والدکی زندگی کا زیادہ تر حصہ چونکہ انگریزوں کے ساتھ گزرا اس لیے ان کی غذائی عادات تھوڑی مختلف تھیں۔ وہ جوار، باجرہ، مکئی اور جو کی روٹی بالکل پسند نہیں کرتے تھے لیکن دادی کے حکم پر پانچوں اناجوں کو ملاکر جب روٹی پکائی جاتی تھی تو وہ انھیں نورتن سبزی کے ساتھ ضرورکھانی پڑتی تھی۔ اسی طرح سردیوں ہی میں باجرے کی روٹی کا ملیدہ بنایا جاتا تھا۔گڑ،گھی اور سفید تلوں کے ساتھ۔ یہ بھی صرف ذائقے کے لیے نہیں بلکہ طبی فوائد کے لیے۔ لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ وہ ان تمام اجناس کو استعمال میں لائیں۔ کبھی مریض کے لیے بیسن کی روٹی پکادی، کبھی مکئی کی،کبھی باجرے کی اور کبھی ان سب میں تھوڑا سا چاول کا آٹا ملاکر چپاتی بنائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح خواتین گھر میں بسکٹ اور مٹھائی وغیرہ بھی بناسکتی ہیں۔ بازار میں بیسن کے لڈو اور اندرسے با آسانی دستیاب ہیں۔اندرسے صرف چاول اور سفید تلوں سے بنائے جاتے ہیں۔چاول کے آٹے کی پوریاں بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بہت ضروری ہے کہ مریض میں اس الرجی کی آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن نشین کروا دیا جائے کہ ’’گلوٹین الرجی‘‘ خدا نہ کرے کوئی خطرناک بیماری نہیں ہے۔ آخر شوگر کے مریض بھی تو چینی کا استعمال اور ہائی بلڈ پریشر کے نمک سے پرہیز کرتے ہیں۔ اگر گندم نہیں ہے تو اس کی متبادل دیگر اجناس بھی تو ہیں، ہماری ایک کولیگ اکثر حلیم میں دالوں کے ساتھ گندم کی جگہ باجرہ ڈالا کرتی تھیں اور ہم سب کو کھلایا کرتی تھیں، بہت لذیذ حلیم ہوتا تھا۔ اسی طرح دہلی اور یوپی والے ایک ڈش بناتے ہیں جس کو ’’شولہ‘‘ کہتے ہیں اس کو مونگ کی چھلکوں والی دال، چاول، قیمہ اور پالک ملاکر پکایاجاتا ہے۔ٹماٹر اور دیگر مصالحے ملاکر بعد میں ہری مرچ، ہرا دھنیا، ادرک، لیموں،گرم مصالحہ اوپر سے ڈالا جاتا ہے اور پیازکا بگھار لگاکر کھایا جاتا ہے۔ یقینا ’’گلوٹین الرجی‘‘ سے متاثر لوگوں کو یہ غذا ضرور پسند آئے گی۔ اسی طرح جو کا دلیہ بھی غذائی اعتبار سے نہایت اہم ہے بچوں کو دودھ میں دلیہ پکا کرکھلایا جاسکتا ہے۔ اگر بیکنگ آتی ہو تو بیسن اور چاول کے آٹے کی ڈبل روٹی بھی بنائی جاسکتی ہے۔میڈیا بھی اس میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اپنے ٹاک شوز میں وڈیروں اور جاگیرداروں کی توجہ اس جانب دلوائی جائے کہ وہ دیسی گندم جو وہ اپنے استعمال کے لیے اگاتے ہیں اسے وہ قیمتاً ’’گلوٹین الرجی‘‘ کے مریضوں کو فراہم کردیں۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا پہ بھی اس بیماری سے آگاہی کے لیے ایک مہم چلائی جائے اور دیسی گندم کے رکھوالوں سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنی اپنی قبریں روشن رکھنے کے لیے اس جانب توجہ دیں۔ مناسب قیمت پرمتاثرین کو گلوٹین فری گندم فراہم کریں۔ساتھ ہی ڈاکٹر صاحبان سے گزارش کروںگی کہ وہ اس بیماری کے حوالے سے عوام کو آگا ہی دیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں