بارہ بجے دوپہر کو ہم لوگ سنگرور کی جامع مسجد پہنچے‘ ظہر کی نماز میں لوگوں کو جمع کرکے دینی تعلیم اور ارتداد سے متاثرہ لوگوں میں دعوت و اصلاح کیلئے ترغیبی بات چیت کرنی تھی‘ امام مسجد کے ہونہار بیٹے ریحان نے(جو کچھ دنوں قبل سونی پت میں پوری زندگی کو دعوت دین کیلئے وقف کرنے کا عہد کرکے آئے تھے) موقع کو غنیمت جانا‘ اسکوٹر اٹھایا چھتری لی اور مجھ سے کہا تھوڑی سی تکلیف آپ کو دینی ہے۔ ایک دکان پر پہنچے‘ دکان موٹرمکینک کی تھی‘ پگڑی باندھے ایک سردارجی دکان کے مالک تھے‘ ان کے پاس گئے ان سے ملوایا کہ ہمارے بڑے مولانا صاحب آئے ہیں‘ ان سے مل لیجئے وہ اخلاق سے پیش آئے‘ ریحان میاں نے بتایا کہ یہ پہلے مسلمان تھے‘ اب سردار بن گئے ہیں‘ دوسری‘ تیسری‘ چوتھی‘ پانچویں دکان پر تقریباً دو گھنٹے مجھے لے کر پورے شہر میں پھرتے رہے اور اسی طرح لوگوں سے ملاتے رہے جو یا خود یا ان کے اجداد 1947ء سے پہلے مسلمان تھے‘ اللہ کا شکر ہے سبھی لوگ اخلاق سے ملے اور کھڑے ہوئے باہر تک رخصت کرنے آئے اور کئی نے ٹھنڈا پانی پینے کیلئے اصرار کیا۔ اگست کی تپتی دھوپ میں دو گھنٹے گشت کے بعد جب ہم لوگ جامع مسجد پہنچے تو ریحان میاں بڑے درد سے گویا ہوئے ’’حضرت آپ سونی پت میں فرما رہے تھے جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہوگا وہ ایک نہ ایک دن جنت میں ضرور جائے گا خواہ گناہ کی سزا پاکر یا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے یوں ہی بخش دیں‘ آپ کو ایسی سخت گرمی میں‘ میں نے اس لیے تکلیف دی‘ معاف کیجئے گا میں آپ کو ان کی دکان پر لے کر گیا اور ان لوگوں نے یہ سمجھ کر ہمارے دین کے بڑے پیشوا مسلمانوں کے مولانا صاحب آئے ہیں آپ کو اپنا سمجھ کر ملاقات کی‘ آپ کیلئے کھڑے ہوئے اور باہر تک چھوڑنے آئے‘ انہوں نے اپنے کو کچھ تو مسلمان سمجھا‘ رائی کے دانہ کے برابر تو ان کا ایمان ہو ہی گیا‘ بس اس خیال سے ساری دوپہر میں آپ کو پھراتا رہا کہ ہمارا تھوڑی دیر دھوپ میں پھرنا ان کیلئے کم از کم ہمیشہ کیلئے آگ سے بچنے کا ذریعہ تو ضرور ہوجائے گا۔
راقم سطور کو اس نوجوان صاحب درد داعی پر بڑا رشک آیا اور اپنے اللہ تعالیٰ کے حضور دل ہی دل میں عرض کرتا رہا: مولائے کریم آپ جس کو عطا فرماتے ہیں کاسہ بھی خود ہی دیتے ہیں اور بھیک بھی خود ہی دیتے ہیں‘ آپ جب کسی کو اپنے محبوب کام دعوت دین کیلئے منتخب فرماتے ہیں تو دعوتی درد اور کام میں اسی درجہ حِس بھی عطا فرماتے ہیں۔
ملت کے کتنے اہل علم،مسلک اور مذہب کی جنگ میں نبی کریم ﷺ کے مشن کے بالکل برعکس ملت کے افراد بلکہ دینی قائدین اور علماء کو کافر بنانے کی تدبیریں نکالتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اسی امت میں ایسے افراد بھی پیدا فرماتے ہیں جن کو دعوت میں لگا کر ایسا دعوتی درد اور حس عطا ہوتی ہے کہ کسی طرح کوئی بہانہ ایسا مل جائے جس کو وہ اللہ کے حضور ان کے ایمان کے ثبوت کے طور پر پیش کرسکیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح اللہ کے رسول حضور نبی کریم رحمۃ اللعالمین ﷺ اپنے چچا ابوطالب سے ان کی موت کےوقت ارشاد فرماتے تھے کہ اے میرے چچا! میرے کان میں کلمہ پڑھ لیجئے تاکہ میں کل اللہ کے حضور اس کی شہادت دے سکوں۔ کسی نے خوب کہا ہے:محبت تجھ کو آداب محبت خود سکھادے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں