پورے گاؤں والے اسے ماما کہتے تھے اور اس کے ہر وقت نشہ کی وجہ سے اسے ایک بُر ا آدمی سمجھ کر حقارت سے دیکھتے تھے‘ یوں بھی وہ ایسا کالا بھجنگ آدمی تھا جیسے افریقہ کا کوئی حبشی ہو‘ پیشہ کے لحاظ سے وہ تیل بیچتا تھا‘ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کی رات آئی تو سب کو حیرت ہوئی‘ سونے سے پہلے نہا دھو کر صاف کپڑے پہنے اور شاید سالہا سال میں آج اس نے شراب بھی نہیں پی تھی بلکہ شراب تو کیا اب وہ اسپرٹ پینے لگا تھا شاید اس لیے کہ پھلت میں شراب مہیا ہونا ممکن نہیں تھا یا اسپرٹ میں نشہ زیادہ تھا‘ صبح کو وہ سحری میں اٹھا‘ سحری کھائی اور پچاس سالہ زندگی میں پہلا روزہ رکھا۔ صبح فجر کی نماز جماعت سے پڑھی‘ مسجد میں اسے دیکھ کر سب حیرت سے ہنس رہے تھے‘ آٹھ بجے اس کو شدید کھانسی کا دورہ پڑا اور منہ سے خون آنے لگا‘ مسلسل شراب نوشی کی وجہ سے اس کے پھیپھڑے گل گئے تھے‘ حالت جب زیادہ خراب ہوئی تو اس کے بھانجے جن کا وہ اصلی ماموں تھا‘ ڈاکٹر کے یہاں لے گئے‘ ڈاکٹر نے اسے دوا کھانے کو کہا‘ مگر اس نے دوا کھانے سے صاف انکار کردیا کہ زندگی کا پہلا روزہ توڑنے والا نہیں ہوں‘ مسلسل خون آتا رہا‘ حالت بگڑتی گئی اور دس بجے اس نے روزہ کی حالت میں دم توڑ دیا‘ جمعہ کی نماز میں جنازہ جلدی کرنے کا مشورہ ہوا۔
پھلت کے اکثر لوگ کاروبار کیلئے قریبی قصبہ کھتولی جاتے ہیں۔ کھتولی میں کوئی ہڑتال تھی‘ سب لوگ پھلت ہی میں تھے‘ رمضان کا آخری جمعہ تھا اور لوگ عید کی تیاری اور کاروبار کیلئے جانے والے تھے مگر نہیں گئے‘ جنازہ میں اتنا جم غفیر تھا کہ شاید ہی بستی میں کسی کو نصیب ہوا ہو‘ اس حقیر کو اس کے جنازہ پر شک آرہا تھا‘ رمضان میں انتقال پر خود بغیر حساب کتاب جنت میں جانے کی بشارت ہے‘ جمعہ کے دن کے انتقال کی الگ فضیلت ہے اور روزہ کی حالت میں انتقال کتنی بڑی بات ہے‘ دل میں خیال آیا کہ ضرور اللہ کی نظر رحمت اس پر ہے‘ اس کے جنازہ کی نماز کاش میں پڑھاتا‘ نہ جانے جامع مسجد کے امام صاحب جو ہمارے استاذ محترم تھے ان کو کشف ہوا میرے اللہ نے ماہ مبارک میں میری چاہت کی لاج رکھ لی مجھ سے فرمایا: مولوی صاحب! نماز پڑھاؤ‘ یہ حقیر نماز کیلئے بڑھا‘ دل چاہا کہ اس کے چہرہ کو دیکھوں‘ کفن ہٹا کر اس کا چہرہ دیکھا تو حد درجہ حیرت ہوئی کہ ایسا نورانی اور خوبصورت چہرہ کہ لوگ حیرت میں آگئے‘ تدفین ہوگئی۔
گاؤں کے سب سے زیادہ بے حس سمجھے جانے والے شرابی پر اللہ کی ایسی رحمت کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں‘ روزہ کی حالت میں انتقال‘ اس کی وجوہات تلاش کرنے کیلئے دل بے چین تھا اور تجسس میں لگا ہوا تھا‘ جماعت کے ایک امیر صاحب نے بیان میں اللہ کے نبی ﷺ کے فرمان کے حوالہ سے یہ بات بتائی کہ تیری وجہ سے ایک آدمی کو ہدایت مل جائے تیری نجات کیلئے کافی ہے تو مجھے اس خوش قسمت کے حسن خاتمہ کی وجہ سمجھ میں آئی۔ اصل میں ماما نے ایک بالکل پسماندہ ذات کی ایک خاتون کو مسلمان کرکے اس سے نکاح کرلیا تھا جس کو سب گاؤں والے مامی کہتے تھے‘ وہ بیچاری گھاس کھود کر اپنا گزارا کرتی تھی‘ پھلت والوں کے کھیتوں پر رکھوالی کی مزدوری بھی کرتی تھی‘ فرائض کے علاوہ نوافل کی پابند‘ ہر وقت تسبیح ہاتھ میں رکھتی تھی بہت نیک اور متقی خاتون تھی‘ کوئی سلام کرتا تو اسے منہ بھر دعائیں دیتی‘ ماما کے پاس مقبولیت کے ساتھ حسن خاتمہ کیلئے اس کے علاوہ کوئی عمل نہیں تھا کہ وہ ایک عورت کو کفر و شرک سے بچا کر اس کے ایمان کا ذریعہ بنا تھا‘ ایک آدمی کی ہدایت پر نجات اور جنت کی فضیلت اللہ کے رسول ﷺ نے بتائی ہے آج تک مجھے خیال آتا ہے کہ مسواک کرنے کے ستر سے زیادہ فائدے ہیں اور نشہ کرنے کے ستر سے زیادہ نقصانات ہیں‘ ان میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ نصیب نہیں ہوگا‘ ہروقت نشہ میں دھت‘ پوری زندگی اسلامی اعمال سےدور رہنے والے‘ پورے گاؤں میں برائی سے مشہور ایک انسان کا ایسا قابل رشک خاتمہ جس پر بڑوں بڑوں کو رشک آجائے صرف سماج کی ایک بے حیثیت عورت کے ایمان کا ذریعہ بننے پر ہی اسے نصیب ہوا‘ اس دنیا میں انسان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ حسن خاتمہ کا ہے زندگی بھر گناہوں‘ نافرمانیوں‘ حرام کاری اور حرام خوری میں ملوث ہم میں سے ہر ایک اپنے حسن خاتمہ کیلئے اس نسخہ کیمیا سے فائدہ اٹھائے اور کم از کم ایک آدمی کو جی جان سے دعوت دے کر اس کی ہدایت کا ذریعہ بن کر اپنے حسن خاتمہ کیلئے اطمینان حاصل کرے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں