Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنات کا پیدائشی دوست

ماہنامہ عبقری - اگست 2017ء

اس جھنڈ میں کوئی خزانہ ہونا چاہیے: نامعلوم مجھے کیا احساس ہوا میرے دل میں ایک خیال آیا کہ اس جھنڈ میں کوئی خزانہ ہونا چاہیے اور بہت پرانا خزانہ ہونا چاہیے ‘وہ جھنڈ ایک بہت بڑے اونچے ایک ٹیلے پر تھا اور اس کے اردگرد کچھ پرانے گرے پڑے کھنڈرات کا احساس بھی تھا اور کچی ٹھیکریاں اور پکے برتنوں کے ٹکڑے بھی اس کے اردگرد میں نے دیکھے‘ میں وہاں پہنچا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہاں پہلے سے ہی جنات کا ایک بہت بڑا گروہ رہتا ہے‘ میں نے سوچا کہ میں کیوں نہ ان سے معلوم کرلوں میں ان کے ایک بڑے بوڑھے کے پاس پہنچا‘ بڑے بوڑھے نے مجھے دور سے دیکھ کر پہچان لیا اور فوراً کہا کہ فلاں قبیلے سے ہو‘ میں حیران ہوا اور ہاں میں سر ہلایا اور ان کے قریب جاکر بیٹھ گیا بیٹھتے ہی مجھ سے کہنے لگے خزانہ کو سونگھ کر یہاں پہنچا ہے مجھے اور حیرت ہوئی‘ میری حیرت کو بھانپ گئے‘ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولے حیران کیوں ہوتے ہو؟ اور پریشان کیوں ہوتے ہو؟ ساری عمر خزانہ کی تلاش میں گزاربیٹھا:میں تو خود ساری عمر اس خزانہ کی تلاش میں گزار بیٹھا ہوں لیکن مجھے خزانہ نہیں ملا‘ وہ دیکھو انگلی کا اشارہ کیا تو سامنے زمین کے نیچے میں نے بہت بڑا خزانہ دیکھا‘ کہا میں اس خزانے کو دیکھ سکتا ہوں ‘پرکھ سکتا ہوں ‘جانچ سکتا ہوں ‘اس کی تعداد حتیٰ کہ ہر چیز میرے مشاہدے میں ہے لیکن میں اس خزانے کو پانہیں سکتا‘ کچھ غیبی طاقتیں ایسی ہیں جو نہ انسان ہیں‘ نہ جن ہیں اور نہ فرشتے ہیں ‘وہ اللہ کی مخلوق کون ہے؟ وہ اللہ کے علم میں ہے‘ وہ مخلوق اس خزانہ کی حفاظت کررہی ہے اگر کوئی شخص اس خزانہ کو پانے کیلئے جبر اور زبردستی کرتا بھی ہے تو وہ ایک پل میں اس کو جلا کر راکھ کردیتی ہے‘لوگوں کو جلتے اور راکھ ہوتے دیکھا:میں نے اپنی صدیوں کی زندگی اور مشاہدے میں کئی لوگوں کو اس خزانہ کی تلاش میں جلتے اور راکھ ہوتے دیکھا ہے‘ میں نے کبھی جرأت نہیں کی ہاں اللہ کے اُس بول‘ لفظ‘ کلام اور حرف کا انتظار کررہا ہوں جس کو میں پڑھوں اور اجازت چاہوں اور وہ اجازت مجھے اس خزانے تک خودبخود لے جائے۔کیاآپ خزانہ کو ابھی تک نہیں پاسکے: میں نے ان کی بات سنی تو میں نے کہا کہ کیا آپ اس خزانے کو ابھی تک نہیں پاسکے تو وہ بوڑھا جن بولا: اگر پالیتا تو میں یہاں بیٹھا ہوتا ؟اب تک خزانہ لے کر اپنے وطن میں نہ جاچکا ہوتا۔میں ایک انتظار میں ہوں! اور ٹھنڈی آہ لے کر وہ بوڑھاجن بولا یہ تمام خیش قبیلہ میرا اپنا ہے‘ میں صدیوں سے یہاں آباد ہوں‘ میری نسل درنسل یہیں ہے میں ایک انتظار میں ہوں کہ اتنا بڑا خزانہ میں کیسے حاصل کرسکتا ہوں؟ حیرت انگیز جن بولا کہ اس بوڑھے جن نے ایک اور بات بھی کہی ۔ ہر کوئی نامراد لوٹا: اس خزانہ کی تلاش میں اب تک کئی انسان آئے مہینوں چلہ کیا‘ مہینوں وظیفے کیے اور جگہ جگہ کھدائیاں کیں لیکن نا مراد واپس لوٹے بلکہ ایک واقعہ تو ایسا ہوا ایک شخص اپنے ساتھ مزدوروں کی بہت بڑی جماعت اور طاقت ور گروہ لایا ‘ان کے ساتھ کھدائی کے سارے آلات تھے‘ وہ بہت دولت مند تھا اس نے زرکثیر خرچ کرکے اس خزانہ کو حاصل کرنا چاہا‘ دراصل اس کو کسی نےسونگھ کر بتایا کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سونگھ کر زمین کے نیچے سے میٹھا پانی اور خزانہ بتادیتے ہیں‘ اس نے سونگھ کر بتایا کہ یہاں خزانہ موجود ہے اور اس خزانہ کو تو حاصل کرسکتا ہے حالانکہ اس نے خزانہ کا صحیح بتایا لیکن معلومات یا تو اس کے پاس ادھوری تھیں یا اس نے ادھوری دیں۔ نہ خزانہ ملا نہ جانیں بچیں: یہ شخص اپنی کھدائی کی پوری جماعت یہاں لے کر آیا‘ ہفتوں کھدائی کرنے کے بعد یہ جماعت ایک بہت بڑی سرنگ بنانے میںکامیاب ہوگئی‘ یہ آگے بڑھ رہے تھے‘ یہ تمام مجمع میں سے تین آدمی وہ خود مالدار شخص اور دو کھوجی باہر تھے ‘وہ گہری سرنگ ایک دم گری اور سب گھوڑے‘ خچر‘ مزدور‘ اوزار وہ سب پورے کا پورا قافلہ اس کے اندر دفن ہوگیا اور وہ سرنگ اتنی گہری تھی کہ لاشوں اور مشینری کو نکالنا ان کے بس میں نہ تھا‘ کئی دن وہ روتا دھوتا وہیں بیٹھا رہا‘ اس کا سارا مال‘ سرمایہ اس کی تمام دولت ہرچیز اسی میں لگ گئی اور نہ خزانہ ملا‘ نہ اس کے وفادار بچے‘ نہ ان کی جانیں‘ وہ ہر چیز کو روتا دھوتا چھوڑ کر یہاں سے چلا گیا۔ دفن شدہ لاشوں کی نشانی:پھر اس بوڑھے جن نے ایک پتھر کے بہت بڑے بنے ہوئے مینار کا بتایا ‘یہ مینار اس نے انہی دفن شدہ لوگوں کی لاشوں کے اوپر نشانی کے طور پر بنایا اور اس مینار کے اوپر لکھا ہوا تھا چونکہ وہ مینار کھجوروں کے جھنڈ میں ایسا گھرا ہوا تھا کہ کسی کو نظر نہیں آرہا تھا‘ وہ بہت لمبا تھا ‘ میںنامراد اور شکست خوردہ شخص ہوں!:مگر اونچائی میں کھجوروں سے اونچا نہیں تھا۔اس مینار پر لکھا ہوا تھا کہ میں وہ نامراد اور شکست خوردہ شخص ہوں جس نے یہاں خزانہ کی تلاش میں اپنی قوتیں‘ طاقتیں‘ افراد‘ جانور اور مال خرچ کردیا‘ میرے بیاسی سے زیادہ جان داراس کے اندر دفن ہوگئے میں ان کو نکال نہیں سکتا کیونکہ اس کے نکالنے کیلئے پھر مجھے ہفتوں کھدائی کرنی پڑتی ہے اور ہفتوں کھدائی کرنے کے بعد مجھے ان کے جسم اس حالت میں ملیں گے کہ ان کی بدبو کو میں نے سونگھ لیا تو میں بھی مر جاؤں گا اور میں ان کو کسی شکل میں نکال نہیں سکتا ‘میں نشانی کے طور پر یہ مینار بنا کر جارہا ہوں کہ کوئی خزانے کا خیال نہ کرے مجھے جس شخص نے اس خزانے کے بارے اطلاع دی تھی اس نے پوری بات نہیں بتائی تھی۔ اے کاش! میں خزانہ کی تلاش کو نہ آتا:اے کاش مجھے وہ پوری بات بتا دیتا میں اس خزانے کی تلاش کو ہرگز نہ آتا ‘مجھے اب پتہ چلا کہ خزانہ ہر شخص اپنی مرضی سے تلاش نہیں کرسکتا مجھے اب علم ہوا خزانہ ہرفرد خود حاصل نہیں کرسکتا‘ چاہے وہ انسان ہو یا جن خزانہ چاہے اس کی زمین اپنی ہو کسی کی ملکیت نہیں ہوتا‘ خزانہ اپنے مالک کا ہمیشہ انتظار کرتا رہتاہے‘ وہ ایک سال کے بعد ہو ‘وہ دس سال کے بعد ہو‘ وہ بیس سال کے بعد ہو‘ وہ سو سال کے بعد ہو یا صدیوں کے بعد ہو‘ خزانہ کو کوئی دنیا کا سیلاب‘ زلزلہ‘ طاقت‘ قوت‘ بادشاہت اور فوجیں حاصل نہیں کرسکتی اور ضائع نہیں
کرسکتی جس طاقت اور قوت نے اس خزانہ کو محفوظ کیا ہوتا ہے وہ طاقت اور قوت اپنی مخلوق پانی کی شکل‘ زلزلہ کی شکل‘ افواج کی شکل میں ہے یا بادشاہت کی شکل میں اپنی مخلوق کو اپنے امر سے سنبھالے رکھتی ہے اور اس کی مخلوق اس کے امر کا انتظار کرتی ہے اور خزانہ کبھی بھی اس کے امر کے بغیر نہ آگے بڑھتا ہے نہ پیچھے‘ مینار پر یہ تحریر لکھی ہوئی تھی۔محمود غزنوی کا وہ سارا واقعہ اور قرآن کی آیت: حیرت انگیز جن کہنے لگا جب مجھے بابے نے یہ تحریر پڑھائی تو مجھے جھرجھری بھی آئی اور حیرت بھی لیکن اس سارے معاملے کے بعد اچانک مجھے محمود غزنوی کا وہ سارا واقعہ اور قرآن کی آیت وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کا سارا منظر سامنے آگیا۔ وہ وقت آن پہنچا جب خزانہ مل کر رہے گا:جب وہ سارا منظر میرے سامنے آیا تو میں اپنی حیرت کو نہ روک سکا میں نے اس بابے سے کہا: بابا وہ وقت آن پہنچا ہے جب خزانہ مل کر رہے گا‘ آپ کے مقدر میں کتنا ہے‘ میرے نصیب میں کتنا ہے‘ اس کی مجھے خبر نہیں لیکن میرے پاس ایک ایسا لفظ اور بول ہے‘ میں نے اس لفظ اور بول کو بے شمار کو بتایا‘ ہاں جس کے مقدر کا تھا اس کو ضرور ملا جس کے مقدرمیں نہیںتھایا تو ملا نہیں یا پھر اس کوخواب میں اشارہ مل گیا اس کام کو چھوڑ جا اور اس مقصد سے ہٹ یا پھر جاگتے ہوئے کسی آواز نے رہبری کردی یا پھر اس سے وظیفہ لے لیا گیا‘ وظیفے کے دوران اسے اونگھ آجاتی تھی اور وہ وظیفہ نہیں پڑھ سکتا تھا یا پھر زندگی میں ایسا موڑ آتا اور آیا کہ وہ اس عمل کو پورا نہ کرسکتا۔ عمل کو صرف وہی شخص پورا کرسکے گا جو اس وظیفے کو پڑھتا پڑھتا اور مسلسل پڑھتا چلا جائے گا۔ کیا میں یہ خزانہ حاصل کرسکتا ہوں؟:بوڑھا جن میری بات سے ایک دم ہشاش بشاش ہوگیا جیسے کہ پرانی جوانی اس کے اندر داخل ہوگئی ہو اور اپنی پرانی جوانی کو پھر سے آواز دے بیٹھا ہو‘ بوڑھا جن بولا :بیٹا! یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا میں یہ خزانہ حاصل کرسکتا ہوں‘ اور میں اس خزانہ کو لےسکتا ہوں میری تو صدیوں کی امیدیں ختم ہوگئیں اور میری صدیوں کی آسیں ختم ہوگئیں میں اپنی ہر آس ااور امید کو گنوا بیٹھا ہوں اور میں اپنی آس اور ہر امید کو فراموش کربیٹھا ہوں‘ میں مایوس ہوگیا اور میری مایوسی کی انتہا ختم ہوگئی کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ میں اس خزانے کو حاصل کرلوں۔بے شمار خزانوں کے منہ کھلتے دیکھے: حیرت انگیز جن کہنے لگا: بابا جی میں دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن میں نے اس کلام اور آیت سے بے شمار خزانوں کے دروازے اور بے شمار خزانوں کے منہ کھلتے دیکھے اور بے شمار خزانوں کےراستے ہموار ہوتے دیکھے‘ میں نے بابا جی کو یہ آیت بتادی ‘باباجی میری طرف حیرت سے دیکھتے رہے اور کہنے لگے: بظاہر تو سمجھ نہیں آتی لیکن میں اللہ کے کلام کا انکار نہیں کرتا‘ اللہ نے اپنے اس کلام میں کیا کیا خزانے کیا کیا راز اور کیا کیا زیر زبر پوشیدہ رکھی ہے مجھے علم نہیں اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے اور اللہ کے کلام کے وعدے سچے ہیں ‘میں حق کہتا ہوں‘ میں شک نہیں کرتا‘ لیکن یہ ہوگا کیسے؟یہاں تو بے شمار آئے نامراد لوٹ گئے: یہاں تو بے شمار آئے اپنی طاقتیں اور قوتیں اور اپنے گُر آزما کر‘ دیکھ کر‘ نا مراد واپس چلے گئے یہاں بے شمار ایسے آئے جو خوشحالی پانے کی امید میں اپنی دولت‘ اپنا مال‘ اپنی چیزیں ہر چیز گنوا کر چلے گئے‘ یہاں تو بے شمار ایسے آئے‘ جوجانیں بھی کھو بیٹھے ‘اپنےسر بھی نہ بچا سکے اور اپنی زندگیاں بھی یہیں قربان کرکے گئے۔ یہ وسیع و عریض ٹیلہ میرا صدیوں کی گواہیوں سے بھرا ہوا ہے میں نے یہاں کئی قدم دیکھے‘ میں نے یہاں کئی انسان اور جنات دیکھے کئی جنات جو اپنی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ آئے لیکن جل کر راکھ ہوگئے۔ اپنے خاندان اور نسلوں کو جلا بیٹھے‘ میری ان بوڑھی نظروں نے بے شمار مشاہدات دیکھے‘ میں نے تو یہاں تک بھی دیکھا کہ کچھ انسان ایسے آئے جنہوں نے اس کے اردگرد ایک بہت بڑی دیوار کرنا چاہی تاکہ وہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہے لیکن کوئی طاقت ایسی تھی وہ دیوار کرکے جاتے تھے صبح دیوار مٹی کا ڈھیر بن جاتی چند بار ایسا کیا اور وہ چلے گئے پھرصدیوں بارش اور طوفانوں نے ان پتھروں کو بھی مٹی کے اندر دفن کردیا۔قدرت کو ویرانہ منظور تھا: ایک ایسا بادشاہ بھی آیا جسےخبر ملی کہ یہاں خزانہ ہے‘ اس نےاپنی نگری یہاں بسانا چاہی پر قدرت کو ویرانہ منظور تھا‘ قدرت نے ویرانےکو ویرانہ ہی رہنے دیا ‘اس نے یہاں فوجوں کے ذریعے قلعہ بنانا چاہا ۔بے شک وہ ھُو ہے اورھُو چاہتا ہے اور جب ھُو چاہتا ہے ھُو کرکے دکھاتا ہے وہ بوڑھا جن مسلسل بولے جارہا تھا۔ حیرت انگیز جن کہنے لگا وہ مجھے بولنےکا موقع ہی نہیں دے رہا تھا‘ میں کیا بولتا‘ شاید محسوس ہورہا تھا کہ اسے کلام الٰہی پر تو یقین ہے لیکن مجھ پریقین نہیں آرہا تھا یہاں تو اس نے کئی کئی مناظر دیکھے کئی کئی کمالا ت دیکھے ہر شخص یہاں سےناکام دیکھا۔میں کبھی بھی ناامید نہ ہوا: بوڑھا جن کہنے لگا جب لوگوں کےا نجام دیکھے کوئی وظیفہ کوئی منتر پڑھنے کی جرأت نہ ہوئی ‘کوئی بول یا کوئی ایسی چیز جس سے مجھے پتہ چلے کہ خزانہ نکل سکتا ہے ‘ہرگز میں نے اس کونہ پڑھا ‘میں ہمیشہ ایک انتظار میں رہا ‘ہاں میرا انتظار اور میرا مشاہدہ کبھی بھی ناامید نہ رہا اور میں نے ہمیشہ اس کو یعنی اپنے سہارے اور حوصلے کو پرامید پایا۔ شاید تو قسمت کا سکندر ہے:بوڑھا جن اپنی پھٹی پھٹی نظروں سے حیرت انگیز جن کو مخاطب کرکے کہنے لگا :آج جوان میں تجھے دیکھ رہا ہوں‘ شاید تو قسمت کا سکندر ہے تو رازوں کا بھیدی ہے ‘تو قدرت کے ان رازوں کو پاچکا ہے جن کو میں صدیوں نہیں پاسکا‘ میں نے بوڑھے جن سے ایک بات کرنے کی اجازت چاہی پھر میں نے اسے سارا واقعہ محمود غزنوی کا‘ ایبک کی دعاؤں کا‘ مرزا کے ساتھ کا اور ایاز کی محنت کا اور وزیراعظم کی نگرانی اور محمود غزنوی کامانگنا‘ گڑگڑانا‘ بھکاری بننا ‘اشک بہانا (قارئین! محمود غزنوی کا تمام قصہ گزشتہ شمارہ میں بیان ہوچکا ہے)اور پھر اس خزانے کے بعد محمود غزنوی کومدد اور قوت ایسی ملی کہ اس نے برصغیر کو اپنے قبضہ میں لےلیا اور پھر وہ جگہ جگہ انوکھی حیرت انگیز تعمیرات کرائیں جو کہ برصغیر کےآخر سےلےکر کابل تک وہ تعمیرات اب تک موجود ہیں جو محمود غزنوی نےاس خزانے سے کرائیں۔آپ کے سچ پر خوشی ہے!: جب میں نے یہ سارا واقعہ اس بوڑھے جن کو سنایا تو بوڑھا جن میری بات کو سن کر بہت مسرور ہوا اور مطمئن ہوا اور کہنے لگا کہ آپ اگر سچ کہتے ہیں تو مجھے آپ کے سچ پر خوشی ہے اور مجھے آپ کے سچ پر اطمینان ہے اورمیں آپ کے اس سچ پر کمربستہ ہوں۔ بوڑھا ایک دم اٹھ کھڑا ہوا‘ اس نے آواز دی‘ اس کے آواز دیتےہی ایک دم بہت ساری عورتیں‘ مرد‘جوان‘ بوڑھے‘ بچے جمع ہوگئے اور کہا: یہ ہمارا مہمان جن ہے‘ اس کیلئے کوئی کھانا پینا لاؤ ۔یہاں تو منظر ہی کچھ اور ہے: حیرت انگیز جن کہنے لگا :میں بھی حیران ہوا میں جاکہاں رہا تھا‘ اچانک میری نظر اس کھجور کے جھنڈ پر پڑی‘ پھر نیچے اترا یہاں تو منظر ہی کچھ اور تھا‘ داستان اور کہانی بھی کچھ اور ہی تھی جو میرے خیال‘ گمان‘ احساس اور ادراک میں بھی نہیں تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کیا ایسا ممکن بھی ہے کہ یہاں اتنا بڑا خزانہ‘ اتنا بڑا خاندان‘ اتنے لوگوں کی قسمت آزمائی اور اتنے لوگوں کا حشر ان کی زندگیوں کا نمونہ عبرت ہونا ‘ان کی ویرانی جان اور مال کا گنوانا‘ بس مجھے وہ سارا منظریاد آیا تھوڑی ہی دیر میں میرے لیے کھانا لایا گیا اور مختلف چیزیں طرح طرح کی بہت پرلطف‘ ایسا احساس تھا جیسے میری دعوت کا انتظام انہوں نےپہلے سےکیا ہو۔ شاید خزانہ میرے مقدر میں نہیں: بابا سے اظہار کیا :کہا نہیں قدرت نے مجھے اپنی برکت کے خزانوں سےکچھ حصہ عطا فرمایا ہے اور میں اللہ سے مانگتا ہوں اور وہ میری ضرورت پوری کردیتا ہے‘ اللہ سے سب کچھ مانگا اللہ نے مجھے ہر چیز دی‘ اللہ سےخزانہ مانگا ہے شاید خزانہ میرے مقدر میں نہیں۔ ایک دفعہ میں نے ایک خواب دیکھاتھا کہ اس خزانہ کے ادرگرد پراسرار سی مخلوق ہے جو پہرہ دے رہی ہے میں نے ان سےجاکر پوچھا: آپ کون ہیں؟یہاں کیا کررہے ہیں؟ بس ہمیں تو اتنا ہی یاد ہے:کہنے لگے: ہم اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ کے حکم سے یہاں ایک خزانہ دفن ہے‘ اس کا پہرہ دے رہے ہیں۔ کہا آپ کتنے عرصہ سے ہیں؟ کہا ہمیں خود یاد نہیں: بس اتنا یاد ہے کئی حکومتیںکئی بادشاہ آئے اور صدیوں حکومتیں چلیں‘ پھر ویران ہوگئیں ‘ہاں اتنا یاد ہے کہ یہاں اس مخلوق نے اپنے بائیں طرف اشارہ کرکے کہا ایک بہت بڑا گھنا جنگل تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہاں ایک شہر آباد ہوا ‘صدیوں وہ شہر رہا‘ پھر شہر ویران ہوا حتیٰ کہ قدرت نے اس شہرا ور شہر والوں کو ختم کردیا‘ وہ شہرکھنڈر بنا‘ پھر وہ صدیوں کھنڈر رہا‘ پھر گردش ایام نے اس کھنڈر کومٹا دیا۔ آج اس کھنڈر کانشان بھی نہیں ہے بس ہمیںتو اتنا ہی یاد ہے۔ ہمیں کوئی اوقات دن سال مہینے کچھ یاد نہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے‘ ہماری ڈیوٹی ہے ہم یہاں کھڑے ہیں۔ہم کچھ کھاپی نہیں سکتے: بوڑھا جن کہنے لگا میں نے خواب میں پوچھا: کیا آپ کچھ کھاتے پیتے نہیںہیں‘ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہا کھانا پینا انسانوں اور جنات کے ساتھ لگا ہوا ہے ہم کچھ کھا پی نہیں سکتے‘ نہ ہمیں ضرورت ہے ۔ اس خزانہ کو بس انتظار ہے کسی کا: پھر میں نے اس پراسرار مخلوق سے پوچھا یہ خزانہ کون نکالے گا؟ تو پراسرار مخلوق کہنے لگی کہ اس خزانہ کو بس انتظار ہے کسی کا؟ وہ آئے گا اور خزانہ نکال لے گا۔ میں نے ان سے پوچھا وہ کب آئے گا؟ کہا کہ بس ہمیں اتنا پتہ ہے باقی اللہ کے علم میں ہے اور میرا خواب ٹوٹ گیا ۔وہ بوڑھا کہنے لگا :شاید آج وہ اللہ کاامر پورا ہورہا اور جوان تم اس خزانہ کو حاصل کرنے میں ضرور میرا ساتھ دو گے یا تو خزانہ پاجائیں گے یا تیری وجہ سے خزانہ کے دروازے کھل جائیں گے یا پھر خزانہ کسی نہ کسی شکل میں مل جائے گا۔خزانہ نکلنے کی بھرپور توقع: یہ تمام گفتگو اس بوڑھے جن اور پراسرار جن کی ہورہی تھی کہ اچانک ایک جن تھال میں کچھ میوے لے کر آیا اس نے میرے سامنے وہ میوے رکھے۔ میں میوؤں کو دیکھتا تھا اور اس بوڑھے بابے جن کو دیکھتا تھا ‘شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بابے کو آج خزانہ نکلنے کی بھرپور توقع تھی اور بابے نے بھی مجھے پرکھ لیا تھا کہ میرے پاس کوئی ایسا گُر یا ایسا کلام یا ایسی چیز ہے کہ جو بابے کو جاکر دل پر لگی ہے اس لیے بابا مسلسل میرے لیے میوے‘ کھانے کی چیزیں انعام اور اکرام منگوا رہا تھا‘ مجھے نہ کھانوں سے دلچسپی تھی اورنہ بابے کے میوؤں سے جو وہ بار بار منگوا رہا تھا۔ یہ بات کہتے ہوئے حیرت انگیز جن خلاؤں میں گھورنے لگا اور وہ خاموش ہوگیا پھر اپنی خاموشی کو خود ہی توڑتے ہوئے بولا۔ بابے کیلئے ترس اور رحمدلی:دراصل بات یہ ہے کہ میرے جی میں بابے کیلئے ترس اور رحمدلی کا احساس شروع ہوگیا اور میرا من کہنے لگا کہ بابا واقعی ایسا ہے کہ اس کے ساتھ رحمدلی محبت اور پیار کیا جائے کیونکہ یہ شخص صدیوں سے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہا تھا اور اس بات کو پرکھ رہا تھا کہ شاید مجھے کہیں سے اس خزانے کا کوئی راستہ مل جائے اور پھر اس نے لوگوں کا انجام بھی دیکھا کتنی کہانیاں دیکھیں‘ کتنے فرد دیکھے‘ کتنے لوگ دیکھے‘ چھوٹے بھی‘ بڑے بھی‘ بادشاہ بھی‘ فقیر بھی‘ سب اس خزانےکی تلاش میں آئے یا تو اپنی موت پاگئےیا پھر ناکامی کے راستے۔میں حیرت انگیز جادوگر بھی ہوں! حیرت انگیز جن کہنے لگا :یہ مسلسل سوچیں تھیںجو میرے دل میں آرہی تھیں اور اس کی وجہ سے میرے دل میں اس بابے کیلئے رحمدلی کا سچا جذبہ بار بار امڈ رہا تھا اور میرا دل کہہ رہا تھا کہ بابے کا کوئی بھلا کیا جائے اور بھلائی کے ساتھ رحم کیا جائےاور بابا یقیناً ایسا ہے کہ اس کو ایسے چھوڑنا نہیں چاہیے‘ میں انہی سوچوں میں غلطاںو پیچاں تھا کہ ایک دم بابے کی آواز سنسناتی ہوئی میرے کانوں میں داخل ہوئی۔ بابا کہنے لگا آپ کو پتہ ہے؟ میں حیرت انگیز جادوگر بھی ہوں‘ اس کی آواز میں سنسناہٹ ترشی اور لہجے کے بدلنے نے مجھے حیران کردیا‘ میں چونک پڑا میں نے بابے کی آنکھوں میں دیکھا تو اس میں شعلے تھے اور تیزی تھی اور سرسراہٹ تھی‘ حیرت انگیز جن کہنے لگا میں نے کہا: میں سمجھا نہیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں‘ کہا کہ میں بہت بڑے بڑے جادو کرسکتا ہوں اور میرے تابع بڑے بڑے سخت قسم کے مؤکلات ہیں اور میں جب چاہوں وہ مؤکلات کسی پر بھی مسلط کردوں۔ میرا خیال اور گمان ٹوٹ گیا: مجھے ایک دم گھبراہٹ سی ہونے لگی۔ حیرت انگیز جن نے اپنی زبان اور ہونٹ کاٹتے ہوئے یہ بات کہی اور کہا کہ اس سے پہلے جو میرا گمان اور خیال اس بابے کے بارے میں تھا یکایک ٹوٹ گیا اور میں نے کہا یہ تو مال کی ہوس رکھنے والا شخص ہے اور اس ہوس میں شاید یہ صدیوں سے کسی شکار کا انتظار کررہا تھا اور اس کی نظر اب مجھ پر پڑگئی ہے اور اس کا بس نہیں چلتا یہ مجھے کچا کھاجائے یا مجھے برباد کردے‘ بوڑھے جن کی گزشتہ باتیں جب میرے ذہن میں آئیں تو میں سمجھا کہ شاید میں غلط سمجھ رہا ہوں میں نے ایک بار پھر بابے سے کہا بابا جی میں آپ کی بات سمجھانہیں براہ کرم مجھے پھر وضاحت کیجئے! بابے نے پہلو بدلا اور بپھرے ہوئے لہجے سے اور سخت الفاظ سے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مخاطب ہوا ۔کالی طاقتیں اور کالی قوتیں: کہنے لگا جوان میری بات غور سے سنو! میرے پاس بہت کالی طاقتیں اور کالی قوتیں ہیں‘ میں ان کالی طاقتوںاور کالی قوتوں سے سب کچھ پتہ کرلیتا ہوں اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ وہ کالی طاقتیں اور کالی قوتیں مجھے خزانے تک پہنچاتو چکی ہیں لیکن میں خزانے کو اب تک نکال نہیں سکا تو ان کالی طاقتوں اور کالی قوتوں نے تومجھے جب تو آیا تھا تب ہی یہ بتادیا کہ اس شخص کے پاس ایک ایساعلم ہے جو اس کو محمود غزنوی کے ذریعے ملا‘ اگر یہ چاہے تو یہ خزانہ نکال سکتا ہے لیکن یہ آدھا خزانہ چاہے گا‘ اس کو آدھا خزانہ تو کیا خزانہ نکالنے کے بعد اس کو فوراً قتل کردیا جائے اور میری کالی طاقتوں اور کالی قوتوں نے میری بھرپور مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے تم میرے قیدی ہو!: اب تم یہاں سے جا نہیں سکتے تم میرے قیدی ہو ‘یہ جو کچھ میوے چیزیں میں نے تمہیں کھلائی ہیں یہ سب چیزیں وہ ہیں جن پر کالا جادو کیا ہوا تھا اور یہ سب چیزیں وہ ہیں جن پر سخت قسم کا اثر تھا اور اس کو کھانے کے بعد جن کے اندر کے تمام علوم جو میرے کالے جادو کا مقابلہ کرسکتے ہیں‘ ختم ہوجاتے ہیں ۔ وہ تمام قوتیں اس کے اندر مرجاتی ہیں جو میرے کالے جادو کو توڑ سکے۔مکار بوڑھا جن فاتحانہ انداز سے کھڑا ہوا: یہ کہتے ہوئے وہ بوڑھا جن فاتحانہ انداز میں کھڑا ہوا اور پھر اس نے ’’میں ‘‘کہا اور ہوا میں ہاتھ پھیلائے اور ایک زور دار قہقہہ لگایا‘ اتنا زور دار کہ تمام وادی میںمیلوں تک اس کے قہقہے کی آواز پھیلتی چلی گئی اور اس کے قہقہے کے ساتھ ہی ہرکونے سے مسلح جنات نکلے اور انہوں نے مجھے اردگرد سےگھیرلیا‘ میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ بوڑھا جن بادشاہ ہے‘ فقیر ہے‘ غریب ہے‘ کون ہے؟ مجھے تو اپنے اس بیٹھنے کا بھی افسوس ہوا جب میں کھجوروں کا جھنڈ دیکھ کر یہاں متوجہ ہوا تھا۔ میں نے تمہارا علم باندھ دیا ہے: ان سب کے ہاتھ میں خطرناک قسم کا اسلحہ تھا اور وہ تمام اس خطرناک اسلحہ کو اس انداز سے لہرا رہے تھے کہ ایک پل میں میرے جسم کو ریزہ ریزہ کردیں گے جب تمام فوجیں میرے اردگرد پھیل گئیں تو اس شخص نے یعنی اس بوڑھے جن نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا اور قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگا: اب تمہیں اپنے علم کو استعمال کرکے مجھے اس خزانے تک پہنچانا بھی ہے‘ خزانہ دلوانا بھی ہے‘ میں نے اس علم کے علاوہ باقی تمام تمہارے علم باندھ دئیے ہیں اور میں نے تمہاری ہر چیز کو تالے لگادئیے ہیں‘ تمہارے تمام علوم چھین لیے ہیں اور تمہارے علوم کیے ہوئے عمل‘ ملے ہوئے عمل اور تمام طاقتیں ختم کردی ہیں اگر تمہیں تجربہ نہیں تو کرکے دیکھو کہ میں واقعی جو کہہ رہا ہوں یہ سچ ہے یا غلط ہے۔ آہ! یہ میں نے کیا کردیا: میں حیران ہوا اس کی بات سن کر مجھے غصہ بھی آرہا تھا اور شدت سے احساس بھی ہورہا تھا کہ میں کہاں آبیٹھا اور میں نے کیا کیا؟ اور پھر اس مکار بوڑھے کو میں بار بار دیکھتا میری ملی جلی کیفیات اس میں خوف بھی تھا‘ اس میں فرار ہونے کی تدبیروں کا احساس بھی تھا‘ اس پر اس کے بڑھاپے پر افسوس بھی تھا لیکن میرے مشاہدے نے مجھے کہا میں جو کچھ سوچ رہا ہوں وہ غلط سوچ رہا ہوں‘اب مجھے کچھ کرنا ہوگا: اب مجھے کچھ سوچنا ہوگا کچھ کرنا ہوگا پھر میرے پاس جتنے بھی علم تھے طاقتور سے طاقتور میں نے وہ سب آزما لیے واقعتاً میرا کوئی علم چلتا ہی نہیں تھا اور میرا ہر علم ختم ہوجاتا تھا اور میں مایوس ہوا‘ بہت پریشان ہوا اور مجھے حیرت ہوئی کہ میرے ساتھ کیا ہوا؟ اور میں کیا کربیٹھا ہوں؟ اچانک بیٹھے بیٹھے میرے دل میں ایک خیال آیا کہ جس وظیفے کی وجہ سے اتنا طاقتور خزانہ مل سکتا ہے اور اتنے طاقتور خزانے کے دروازے کھل سکتے ہیں اس وظیفے سے مجھے آخر بڑی بڑی قوتیں اور بڑی بڑی طاقتیں کیا حاصل نہیں ہوسکتیں؟ کیا اس وظیفے سے میں ان مکار لوگوں سے نجات اور فرار حاصل نہیں کر سکتا؟ میں نے دل ہی دل میںوَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَپڑھنا شروع کیا میں نے ابھی پڑھنا ہی شروع کیا تھا تو بوڑھا مکار جن کہنے لگا: یہ تم کیا پڑھ رہے ہو‘ کیوں پڑھ رہے ہو‘ یہ تو اس وقت پڑھا جاتا ہے جب خزانے کے اوپر جاتے ہیں اور پھر زور سے قہقہہ لگایا اور قہقہہ لگا کر کہنے لگا کہ جتنا پڑھنا ہے پڑھ لو‘ اور جتنا مزید کچھ کرنا ہے کرلو‘ تمہارا کچھ بھی نہیں ہوگا لیکن مجھے اس کے اس انداز سے ایک احساس ہوا مجھے اس پڑھنے سے یقیناً فائدہ ہوگا اور ہوسکتا ہے۔ اس کی زبان بند کردو:میں یہی سوچتا ہوا پھر پڑھنے لگا اس نے پھر مجھے ڈانٹا تم کیوں پڑھ رہے ہو‘ یکایک اس کے دل میں پتہ نہیں کیا جذبہ پیدا ہوا‘ اس نے تین طاقتور جن بلوائے جن کے منہ سے شعلے نکل رہے تھے‘ ناک سے تیز گرم بھاپ نکل رہی تھی‘ کانوں سے گرم گرم شعلے اور بھاپ نکل رہی تھی‘ ان کے جسم ایسے محسوس ہوتے تھے جیسے کہ تپتے ہوئے انگارے یا گرم سرخ لوہا‘ ان کو کہنے لگا: اس کی زبان کو اس وقت تک باندھ کر رکھو جب تک کہ یہ خزانے کے قریب نہ پہنچ جائے اور اس کے ہاتھوں کو‘ باندھ کر رکھو اور یہ تمہارے ذمے ہے ‘انہوں نے مجھے ایسا بُری طرح جکڑا کہ میرے جسم کا انگ انگ دکھنے لگا اور میرا جسم ایسے محسوس ہوا کہ شاید ابھی مٹی مٹی ہوجائے گا یا بھوسہ بن جائے گا۔جنات نے میری زبان کوجکڑ دیا: لیکن ان کے دل میں کوئی احساس نہیں تھا کوئی ترس نہیں تھا آج مجھے پہلی دفعہ یہ احساس ہوا کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جن کے اندر بے حسی ہے اور جن کے اندر ظلم اور ستم کا مزاج ہے اور جن کا مقصد دولت ہے اور اس دولت میں کسی کا لحاظ اور خیال نہیں کرتے۔ اسے زندہ رکھنا ضروری ہے:میں جکڑا ہوا تھا جنات نے میری زبان کو جکڑا ہوا تھا‘ اسی جکڑن میں مجھے تین دن، تین راتیں گزر گئیں ۔میرا احساس بیدار‘ میری آنکھیں بیدار‘ میرا دل سوچ رہا تھا لیکن میری زبان حرکت نہیں کرپارہی تھی‘ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ اسے زندہ رکھنا ہےکیونکہ اگر یہ زندہ رہا تو ہمیں دولت ملے گی اگر یہ زندہ نہ رہا تو خزانہ کہاں سے حاصل کریں گے۔ یہ بات کہتے ہوئے حیرت انگیز جن رو پڑا اور اس کے دکھ بھرے آنسو اتنے کہ ہم بھی اپنا دکھ اور اپنا غم اور اپنے آنسو ضبط نہ کرسکے۔ میرے ساتھ بیٹھے جن نے اسے تسلی دی اور کہنے لگا کہ آپ کا جذبہ اچھا ہے‘ آپ کی نیت اچھی ہے‘ آپ کا خلوص بہت مخلص ہے‘ آپ کو کسی غم کسی پریشانی اور کسی تکلیف کی کوئی ضرورت نہیں آپ اطمینان سے اپنی داستان سنائیں اور اپنے مشاہدے بتائیں۔ آپ پریشان نہ ہوں! ورنہ آپ کی پریشانی سے ہمیں اور زیادہ پریشانی گھیرلے گی۔ اس کو تسلی ہوئی اس نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا میرے منہ میں پھلوں کا کوئی ایسا حیرت انگیز رس ڈالتے تھے جس کے چند قطرے میرے سارے دن کی پیاس اور بھوک سے مجھے نجات دے دیتے تھے لیکن ہر سانس‘ ہر لمحہ‘ ہر لحظہ‘ ہر گھڑی‘ ہر وقت میرے اردگرد جنات تھے اور جنات نے مجھے گھیرا ہوا تھا اب ان کا اصرار تھا کہ میں آگے چلوں اور اس جگہ تک پہنچوں جس جگہ وہ خزانہ دفن ہے اور وہ کلام جو مجھے ملا ہے میں پڑھوں‘ ان تین دنوں میں میرے اوپر ایک انوکھا انکشاف ہوا یہ بوڑھا جن مسلمان نہیں بلکہ مکار تھا اس نے مجھے پڑھنےا ور پرکھنے اور میرے اندر جھانکنے کیلئے سب کچھ کیا تھا؟ اور اس نے اپنے علم سے پڑھ لیا تھا میں جو کچھ بیان کررہا ہوں سچ کہ رہا تھا اور میرے پاس جو علم ہے وہ سچا ہے لہٰذا اپنے علم کی بنیاد پر اس نے میرے سارے علوم کو بند کردیا اور پھر آخری علم میرے پاس آیۃ الکرسی کی یہ آیت تھی۔آخر کروں تو کیا کروں: اس آیت کو بھی اس نے نہیں پڑھنے دیا اور میری زبان میرے جسم کو اس نے جنات کے ذریعے جکڑا ہوا تھا میں دل ہی دل میں تدبیر سوچ رہا تھا کہ آخر کروں تو کیا کروں یہ جنات مجھ سے طاقتور‘ ان کے اسلحہ بہت زیادہ سخت ان کا مزاج بہت ظالم ان کی طبیعت میں ایک فیصد بھی ایک پل بھی رحم کا ذرہ نہیں‘ شفقت اور محبت ان کے قریب سے نہیں گزری مزاج میں نرمی ان کے ساتھ بالکل نہیں۔نفرت سختی شدت حکم آرڈر اور خزانہ!:اور ہر لمحہ ہر لحظہ ان کو بس ایک چیز نظر آرہی ہے کہ بس وہ ہے نفرت سختی شدت حکم آرڈر اور خزانہ! چند دن مجھے ایسے رکھا آخر مجھے دھکیل کر آگے لے گئے اور اس جگہ لے گئے جہاں بوڑھے جن کو پتہ تھا کہ یہیں خزانہ ہے‘ یہاں پہنچ کر بوڑھےجن نے مجھے وارننگ دی کہ یہ لفظ تونے صرف خزانہ کیلئے پڑھنا ہے اور کسی چیز کیلئے نہیں پڑھنا‘ ابھی میں کچھ دیر تجھے سوچنے کاموقع دیتا ہوں نامعلوم اتنے دن شاید اس نے اپنے علم کی بنیاد پر دل دماغ اور سوچیں بھی باندھ دی تھیں اور مجھے اس بات کا احساس نہ ہوا کہ مجھے اپنا کچھ نہ ہو تو دل سے تو پڑھ سکتا ہوں اور کچھ بھی نہ ہو تو زبان بند ہے دل تو بند نہیں جب انہوں نے یہ کہا ہم تمہیں سوچنے کا موقع دے رہے تو میں ایک دم جیسے کوئی جاگ اٹھتا ہے۔ بندشیں ٹوٹ رہی ہیں: شاید اس بوڑھے جن نے اپنا کالاجادو اور اس کے کالے اثرات مجھ سے ہٹائے تھے کیونکہ اسے علم تھا کہ اگر کالا جادو اور کالے اثرات ہونگے تو کبھی بھی یہ شخص مجھے خزانہ نکال کر نہیں دے سکتا‘ بس ان کے اثرات ہٹتے ہی میرا دماغ اور دل بیدار ہوا لیکن میری زبان ابھی تک جکڑی ہوئی تھی مجھے احساس ہوا کہ میری زبان جکڑی گئی لیکن میرا دل تو ابھی بول سکتا ہے بس یہی آیت میں نے نامعلوم کس جذبے‘ کس وجدان‘ کس کیفیت‘ کس درد اور کس انداز سے پڑھنا شروع کردی‘ میں پڑھ رہا تھا اور مجھے احساس ہورہا تھالوہے کی کچھ زنجیریں جو میرے اردگرد بندشوں کی صورت میں ٹوٹتی چلی جارہی ہیں اور کچھ اردگرد چیزیں ہیں جن سے میں خلاصی پاتا چلا جارہا ہوں اور میں پڑھ رہا تھا اور میرے دل کا اور جسم کا ذرہ ـذرہ کھلتا چلا جارہا تھا اور میرا اندر کہہ رہا تھا کہ میں آزاد ہوجاؤں گا۔ طاقتور فرشتوں کی مخلوق:ایک چیز میں نے واضح محسوس کی کہ جب میں یہ آیت پڑھ رہا تھا تو مجھے آنکھوں سےا یک انوکھا منظر نظر آیا میری نظر سے لے کر تا حد آسمان کچھ عجیب وغریب روحانی اور نورانی شکلوں والے لوگ ہیں جنہوں نے سفید اور سیاہ پگڑیاں باندھی ہوئی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں تلواریں جن کی چمک اور جھلک دور دور سے نظر آرہی تھی وہ اتر رہے ہیں اور مجھے ایک بات کا احساس ہورہا ہے کہ اس آیت کے ساتھ اتنے طاقتور فرشتوں کی مخلوق ہے جو یقیناً میری مدد کو پہنچ رہی ہے۔ بوڑھا جادوگر اور اس کی بے بسی: میں انہی سوچوں میں مصروف تھا اور میں دل کی طاقت اور گہرائیوں سے مسلسل وہ لفظ پڑھ رہا تھا اور میں پڑھتے پڑھتے ایک دم رکا تو میں نے دیکھا کہ اس بوڑھے جن کی آنکھوں سے شعلے اور انگارے نکل رہے ہیں وہ تھر تھر کانپ رہا ہے اور غصے سے بول نہیں پارہا ‘اپنی مٹھیاں بھینچ کر اور اشاروں سے مجھے حکم دے رہا کہ جو کچھ دل میں پڑھ رہا اس کو نہ پڑھ جب میں نے اس کی یہ حالت دیکھی تو مجھے بجائے خوف کے خوشی محسوس ہوئی اور میں اپنی خوشی کو سنبھالتے ہوئے اور زیادہ پڑھنا شروع ہوگیا میرا دل اندر سے ان لفظوں کو اُگل رہا تھا اور میرامن کہہ رہا تھا‘ یہ لفظ نہیں حقیقت ہیں‘ ان لفظوں سے سچائی خلوص باہر آئے گی اور یہ مردود اور نامراد سوفیصد ختم ہوجائیں گے۔ میری عمر ڈھل گئی‘ میری نسلیں تو مالدار ہوجائیں:میں انہی سوچوں میں تھا کہ ایک دم اس شخص نے میرے دل کو پکڑ لیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا دل سے کیوں پڑھ رہا؟ پھر اپنا سر زور زور سے درخت کے ساتھ مارنے لگااور کہنے لگا: میں صدیوں سے انتظار کررہا تھا چلو میری عمر ڈھل گئی‘ پر میری نسلیں تو مالدار ہوجائیں کیوں؟ آخر توکیوں ایسا کررہا ؟ اور زور زور سے کہنے لگا ہے کوئی اس کے دل کو روک دے‘ ایک شخص خنجر لے کر آگے بڑھا اور میرے دل کے اوپر خنجر مارنے ہی لگا تھا کہ بابازور سے چیخا اور اس کا ہاتھ پکڑلیا‘ خیال کرو اگر اس کے دل پر خنجر مارا تو یہ مرجائے گا۔ میں نے تو اس سے خزانہ لینا ہے کیا کررہے ہو تم؟ اس کا ہاتھ اچانک رک گیا اور مجھے زہریلی نظروں سے دیکھنے لگا۔ مکار بوڑھے نے میرے سینے پر ہاتھ مار مار کر مجھے زخمی کردیا اور پھر زور سے کہنے لگا اس کی زبان چھوڑ دو ‘ میری زبان چھوڑی تو مجھے احساس ہوا کہ میرے زبان سے تالے ہٹ گئے ہیں۔ مکار بوڑھے کی طاقت ختم‘ جادو ٹوٹ گیا: میں پڑھنے کے قابل بھی ہوں ‘میں بولنے کے قابل بھی ہوں لیکن اچانک میرے دل میں ایک آواز آئی یہ اس کی چال ہے کیونکہ جو دل سے پڑھا ہواہوتا ہے‘ زبان سے پڑھا وہ نہیں ہوتا۔ جو دل سے پڑھے کی طاقت اور تاثیر ہوتی ہے زبان سے پڑھے کی طاقت اور تاثیر وہ نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ اس کا بہت بڑا دھوکہ ہے اور فریب ہے‘مجھے اس دھوکے اورفریب سے بچنا ہے‘ میں نے اپنی زبان کو پھر بھی حرکت نہ دی اور آیۃ الکرسی کے الفاظ پورے یقین‘ دھیان‘ طاقت اور توجہ سے دل میں ہی پڑھتا رہا۔ میں پڑھتے پڑھتے ایک ایسی کیفیت پر پہنچا جب میں نے محسوس کیا کہ بوڑھے کی طاقت ختم ہوگئی ہے اور اس کے اندر کی جان نکل رہی ہے اور اس کا اپنا کالا علم ٹوٹ رہا ہے اور مجھے حیرت ہوئی کہ یہ آیت واقعی کالے علم کیلئے‘ جادو کیلئے اور ان مکار جنات کی طاقت کو توڑنے کیلئے بہت حیرت انگیز ہے۔ سب سے پہلے بوڑھا مکار جن گرا پھر۔۔۔ بس اب کیا تھا؟ میں نے اپنی زبان کو کوئی حرکت نہیں دی‘ میں دل ہی دل میں مسلسل یہی آیت دھراتا جارہا تھا سب سے پہلے بوڑھا گرا‘ پھر وہ تین طاقتور جن جنہوں نے مجھے کئی دنوں سے جکڑا ہوا تھا وہ گرے اور آہستہ آہستہ ان کی فوجیں ایسے گرتی جارہی تھیں جیسے خستہ دیواریں یادرختوں کے سوکھے پتے اور وہ اپنی جان ختم کیے جارہے تھے اور ان کے اندر مردنی چھائی جارہی تھی‘ میں خوش ہوا مجھے حیرت ہوئی‘ میں پڑھتا رہا۔ میرے علوم مجھے واپس مل گئے:نامعلوم کتنے گھنٹے میں پڑھتا رہا‘ اس کے بعد میں نے ہوش کی نظر سے دیکھا اور احساس ہوا کہ وہ ساری چیزیں تو ختم ہوگئیں اور میں تنہا ہوں اور میں اکیلا ہوں اور میں بالکل فرار حاصل کرسکتا ہوں اور میرے اندر کوئی جکڑن نہیں‘ نہ میرا جسم جکڑا ہوا‘ نہ میری زبان جکڑی ہوئی‘ وہ جتنے علوم انہوں نے چھینے تھے وہ سب علوم مجھے واپس مل گئے۔ میں حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا‘ وہ سب بیہوش پڑے تھے‘ ان کی آنکھیں کھلی تھیں لیکن ان کی زبانیں جکڑی ہوئی تھیں اور وہ سب ایسے پڑے تھے جیسے کسی طاقت نے آکر انہیں جکڑ دیا‘ ان کے جسم کی جان کو نکال دیا‘ وہ مردہ نہیں تھے لیکن زندہ بھی نہیں تھے۔ جیسے کوئی نیم مردہ ہوتا ہے اور ان کے اندر سب کچھ ختم ہوچکا تھا اور ان کے اندر ہرچیز ہر طاقت بالکل بے جان ہوگئی تھی۔ یہ سب دیکھ کرمجھے بہت خوشی ہوئی اور میری طبیعت باغ باغ ہوگئی اور میں حیران ہوا اور میرے دل سے ایک آواز آئی کہ علم علم ہوتا ہے اور سچائی سچائی ہوتی ہے اور کبھی بھی سچا علم ضائع نہیں ہوتا اور سچا علم اپنی طاقت اور تاثیر دکھا کر ہی رہتا ہے۔
وہ بوڑھا مکار جن اگر صبر کرتا تو خزانہ اسے مل جاتا: حیرت انگیز جن اپنی تمام باتیں بتارہا تھا اور خود ہم حیرت سے اس کی باتیں سن رہے تھے اور سنتے سنتے ہمیں حیرت ہورہی تھی کہ کیا دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کا کردار یہی ہے اور جن کا مزاج یہی ہے‘ کیا دنیا میں ایسے لوگ ابھی تک بھی موجود ہیں جن کے اندر لوگوں کی خیرخواہی نہیں‘ صرف اپنی غرض ہے میں سوچنے لگا کہ وہ بوڑھا مکار جن اگر تھوڑا سا صبر کرلیتا اور اس کو اپنا علم استعمال کرنے دیتا‘ شاید اس کے مقدر میں کچھ ایسا نکل آتا کہ خزانہ مل جاتا اور وہ خزانہ وہ بوڑھا خود بھی استعمال کرتا اور کچھ اس کو بھی دے دیتا اگر بانٹ کر کھاتا تو کیا اچھا تھا اس نے سب کچھ اپنے اندر ہضم کرنے کا پروگرام بنالیا اور یوں وہ سب کچھ جو کچھ اس نے پانا تھا وہ اس سے لٹ گیا اور ختم ہوگیا۔جادو انسانوں میں زیادہ ہوتا ہے یا جنات میں؟ : ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں میرے دل میں ایک بات آئی‘ میں نے حیرت انگیز جن سے پوچھا ‘یہ بتائیں کہ جادو انسانوں میں زیادہ ہوتا ہے یا جنات میں؟ میرا سوال کیا تھا‘ حیرت انگیز جن نے اپنی پوری کی پوری معلومات اور کہانی شروع کردی۔ وہ کہنے لگے دراصل جن اور جادو دونوں ’’ج‘‘ سے نکلے ہیں۔ جنابت کا تعلق بھی ’’ج‘‘ سے ہے یعنی ناپاکی‘ ایسی ناپاکی جو کے انسان ازدواجی تعلقات کے بعدپاتا ہے ‘اس ناپاکی کو جنابت کہتے ہیں۔ کہنے لگے یہ تین ’’ج‘‘ جن، جادو، اور جنابت یہ انسان کیلئے ایسے زہر ہیں کہ جیسے خنجر بجھا ہوا‘ اور ایسا سم قاتل ہے کہ اس کا ڈسا پانی نہیں مانگتا‘ پھر اس نے وضاحت کی۔ ناپاک انسان سے خاص بُو:حیرت انگیزجن کہنے لگا کہ انسان جب ناپاک ہوتا ہے اور نہاتا نہیں اور ناپاک ہی رہتا ہے تو ہمارے جنات کی دو قسمیں ہیں ایک وہ ہے جو نیک اور صالح ہے وہ ایسے بندے سے دور ہوجاتے ہیں کیونکہ ناپاک انسان سے ایک خاص قسم کی بو ہوتی ہے‘ اس بُو کو سمجھانے کیلئے حیرت انگیز جن نے مجھے مثال دی‘ کہا: ایک بکرا وہ ہوتا ہے جو خصی ہوتا ہے اور ایک وہ جو خصی نہیں اب اس کے اندر جو بُو نکلتی ہے وہ ایسی ہے کہ جسے آپ سونگھ سکتے ہیں ناپاک جسم اور وہ شخص جس کو حالت جنابت ہو اس کے جسم سے ایسی بو نکلتی ہے جو نیک فرشتوں اور نیک جنات کو دور کردیتی ہے بدکار جنات انتظار میں ہوتے ہیں:نیک جنات اور نیک فرشتے جب اس سے دور ہوتے ہیں تو بدکار جنات اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ اس انسان کو شکار بنائیں اور اس کے قریب آئیں پھر اس کے قریب آکر اس کو طرح طرح کی تکالیف دیں اور طرح طرح کے روگوں میں‘ مصائب میں‘ تکالیف میں‘ مشکلات اور مسائل میں اسے مبتلا کریں۔ حیرت ہےجنابت کو لوگ کچھ نہیں سمجھتے! حیرت انگیز جن کہنے لگا: لوگ جادو کو بہت طاقتور وار سمجھتے ہیں‘ جنات کو بہت طاقتور مخلوق سمجھتے ہیں لیکن جنابت کو کچھ بھی نہیں سمجھتے حالانکہ جنابت ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو فرشتوں کی مدد‘ حفاظت اور حصار سے دور کردیتی ہےا ور جنابت ایک ایسی چیز ہے جو کہ فرشتوں کو جہاں دور کرتی ہے وہاں نیک جنات کو بھی اس شخص سے دور کردیتی ہے۔ کیا نیک جنات انسان سے دورہوں تو فرق پڑتا ہے؟میں نے حیرت انگیز جن سے سوال کیا نیک جنات انسان سے دور ہوں یا قریب ہوں اس کا فرق کیا پڑتا ہے؟ کہنےلگے: آپ سوچ نہیں سکتے کہ اس کا کیا فرق پڑتا ہے اور پھر خود ہی کہا کہ دراصل انسان جب ناپاک ہوتا ہے تو اس کے اندر ایک ایسی بو ہوتی ہے ‘جو دور دور تک پھیلتی ہے نیک جن تو دور ہوجاتے ہیں بدکار جن اس بو کو سونگھ کر ایسے کھچے چلے آتے ہیں جیسے گندگی کی بو پر گندی مکھیاں دور دور سے کھچ کر چلی آتی ہیں اور پھر اس کا جو نقصان ہوتا ہے وہ آپ سوچ نہیں سکتے جو شخص حالت جنابت میں بارہ گھنٹے سے زیادہ وقت گزار لے اس کو بیاسی(82) نقصان ہوتے ہیں۔
حالت جنابت میں رہنے کے بیاسی نقصانات:پہلا نقصان: اس سے فرشتوں کی حفاظت ہٹ جاتی ہے۔ دوسرا نقصان: نیک جنات اس سے دور ہوجاتے ہیں۔ تیسرا نقصان: بدکار جنات اس کو تلاش کرتے ہیں۔ چوتھانقصان: مکار جنات کا لقمہ بن جاتا ہے۔ پانچواں نقصان: بدکار لوگ اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ چھٹا نقصان: گندی چیزیں اس کے ساتھ لگ جاتی ہیں۔ ساتواں نقصان: نیک روحیں اس سے دور ہوجاتی ہیں۔ آٹھواں نقصان: دعائیں اس کے قریب آکر آگے نکل جاتی ہیں۔ نواں نقصان: بددعائیں اس کے قریب آکر اس کے جسم میں چلی جاتی ہیں۔ دسواں نقصان: اس کی دعاؤں پر فرشتے آمین نہیںکہتے۔ گیارہواں نقصان: اس کا دل سیاہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بارہواںنقصان: اس کے جسم کا انگ انگ مردہ ہوجاتا ہے۔ تیرہواںنقصان: اس کا وجود ختم ہوجاتا ہے۔ چودھواںنقصان: اس کی روح میں پاکیزگی ڈھلنا شروع ہوجاتی ہے۔ پندرھواںنقصان: اس
کے احساسات ماند پڑ جاتے ہیں۔ سولہواںنقصان: وہ بیماریوں کی طرف بڑھتا ہے۔ سترہواںنقصان: اس سے نماز کی توفیق چھنتی ہے۔ اٹھارواںنقصان: اسے روزہ بھاری معلوم ہوتا ہے۔انیسواںنقصان: صدقہ دینا ختم ہوجاتا ہے۔ بیسواںنقصان: خیر کے کام کی طرف اٹھنے والے قدم رک جاتے ہیں۔ اکیسواںنقصان: وہ مایوس رہتا ہے۔ بائیسواںنقصان: اس کے دل کا سکون اٹھ جاتا ہے۔ تئیسواںنقصان:خواہشات بڑھ جاتی ہیں۔ چوبیسواں نقصان: ضرورتیں کم ہوجاتی ہیں۔ پچیسواںنقصان: طبیعت میں نڈھالی رہتی ہے۔ چھبیسواں نقصان: چستی اور پھرتی اس سے ختم ہوجاتی ہے۔ ستائیسواں نقصان: اس کا جسم ہروقت بے چین رہتا ہے۔ اٹھائیسواںنقصان: روح کی بیداری ختم ہوجاتی ہے۔ انتیسواںنقصان: جادو جلدی اثر کرتا ہے۔ تیسواں نقصان: کالے مکار اور گندے جنات گھیر لیتے ہیں۔ اکتیسواںنقصان: جنات کا جادو بہت جلد اسے جکڑ لیتا ہے۔ بتیسواں نقصان: ہرطرف ویرانی ہی ویرانی اسے نظر آتی ہے۔ تینتیسواں نقصان: مزاج میں اندیشے اور وساوس بڑھ جاتے ہیں۔ چونتیسواں نقصان: طبیعت میں بے چینی اکتاہٹ اور گھبراہٹ زیادہ ہوجاتی ہے۔ پینتیسواںنقصان: اس کا اثر اس کے گھر پر پڑتا ہے۔ چھتیسواں نقصان: اس ناپاکی کا اثر اس کی نسلوں پر پڑتا ہے۔ سینتیسواںنقصان: اس ناپاکی کا اثر اس کے رزق پر پڑتا ہے۔ اڑتیسواں نقصان: اس ناپاکی کا اثر اتنا منحوس ہوتا ہے کہ خزانے ختم ہوجاتے ہیں۔ انتالیسواں نقصان: اس ناپاکی سے طبیعت مردہ ہوجاتی ہے۔ چالیسواں نقصان: انسانوں کی نظر بہت جلد لگتی ہے۔ اکتالیسواںنقصان: جنات کی نظر کے تیر اس کو چیر دیتے ہیں۔ بتالیسواںنقصان: جتنی دیر سو لے پرسکون نہیں اٹھتا۔ تینتالیسواںنقصان: انجانا خوف اس کو جکڑے رکھتا ہے۔ چوالیسواں نقصان: بات کی تاثیر ختم ہوجاتی ہے۔ پینتالیسواں نقصان: گفتگو کا جذبہ اس سے چھن جاتا ہے۔ چھیالیسواں نقصان: طبیعت میں غصہ بڑھ جاتاہے۔ سینتالیسواںنقصان: حلیمی اور کریمی اس سے دور ہوجاتی ہے۔ اڑتالیسواں نقصان: ہروقت گہری سوچوں میں رہتا ہے۔ انچاسواں نقصان: فیصلوں کی استقامت ختم ہوجاتی ہے۔ پچاسواں نقصان: اس کی نسلوں میں برکت چھن جاتی ہے۔ اکاونواں نقصان: اس کی نسلوں سے خیریں دور ہوجاتی ہیں۔ باونواں نقصان: اس کے گھر میں بیماریاں تکالیف بڑھ جاتی ہیں۔ ترپنواںنقصان: میاں بیوی میں محبت کم ہوجاتی ہے۔ چونواں نقصان: میاں بیوی کے درمیان اعتراض کی راہیں نکلتی ہیں۔ پچپنواں نقصان: سوچتا کیا ہے کرتا کیا ہے۔ چھپنواں نقصان: مقدر نصیب اس سے دور ہوجاتے ہیں۔ ستاونواں نقصان: اس کا جسم ہروقت تنہائی اور اندھیرا ڈھونڈتا ہے۔ اٹھاونواں نقصان: وہ بزدل ہوجاتا ہے۔ انسٹھواں نقصان: وہ بظاہر صلح جولیکن اندر سے کینہ پرور بن جاتا ہے۔ ساٹھواں نقصان: اس کے حالات گردش میں آجاتے ہیں۔ اکسٹھواں نقصان: جو مقدر کا دھنی تھا اس کا وہ تاج چھن جاتا ہے۔ باسٹھواں نقصان: صحت کمزور رہنے لگتی ہے۔ ترسٹھواں نقصان: اولاد میں نافرمانی کے عناصر بڑھتے ہیں۔ چونسٹھواں نقصان: پڑوسیوں کی نظر میں بُرا ہوجاتا ہے۔ پینسٹھواں نقصان: معاشرے میں گرا گرا رہتا ہے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ چھیاسٹھواں نقصان: نیک اولیاء صالحین کی دعاؤں سے محروم ہوجاتا ہے۔ سرسٹھواں نقصان: فرشتوں کی حفاظت کی نظر اس سے ہٹ جاتی ہے۔ اٹھاسٹھواں نقصان: اس بدبو سے نورانی مخلوق اس کے گھر سے چلی جاتی ہے۔ انہترواں نقصان: اس بدبو سے نورانی مخلوق اس کے کاروبار کی حفاظت کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ سترواں نقصان: اگر یہی شخص کھیتوں میں رہے تو کھیت ویران ہوجاتےہیں۔ اکتہرواں نقصان: خودکشی کے رجحانات بڑھ جاتے ہیں۔ بہترواں نقصان: ایک تکلیف ختم نہیں ہوتی دوسری شروع ہوجاتی ہے۔ تہترواں نقصان: ایک مشکل سے نکلتا ہے دوسری میں اٹک جاتا ہے۔ چوہترواں نقصان: ہروقت بے چینی بے قراری اور الجھنیں اس کو گھیر لیتی ہیں۔ پچہترواں نقصان: اس کے پڑوس میں ہونے والی عبادت کے فیض سے بھی وہ محروم ہوجاتا ہے۔ چھہترواں نقصان: اچھی عادات آہستہ آہستہ چھننا شروع ہوجاتی ہیں۔ ستترواں نقصان: طبیعت میں بُرا پن بڑھ جاتا ہے۔ اٹھہترواں نقصان: سردرد رہنے لگے گا۔ اناسیواں نقصان: جسم جکڑا ہوا رہنے لگے گا۔ اسیواں نقصان: جو بھی کام کاروبار کرے گا اس سے برکت ہٹ جائے گی۔ اکیاسیواں نقصان: وہ شخص اللہ کی نظر سے دور ہوجاتا ہے۔ بیاسیواں نقصان: آسمان سے جب رحمت اترتی ہے سب پر پڑتی ہے اس کی بدبو اتنی تیز ہوتی ہے کہ رحمت اس سے دور جاتی ہے۔
کیا جنات بھی جادو کرتے ہیں؟میں یہ تمام باتیں حیرت انگیز جن سے سن رہا تھا اور میرا سوال وہی تھا کہ کیا جنات بھی جادو کرتے ہیں؟ اور جنات بھی جادوگر ہوتے ہیں؟ کیا جنات کے جادو کا زندگی پر خود جنات پر اثر پڑتا ہے یا انسانوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ میں نے اپنا سوال ایک بار پھر دہرایا میرے سوال پر کہنے لگے ہاں جنات جادو کرتے ہیں اور جنات کا جادو بہت طاقتور اور ظالم ہوتا ہے۔
جادوگر ماموں کی بربادیاں:اس کا ایک واقعہ سنایا حیرت انگیز جن کہنے لگا میرا ایک ماموں بہت بڑا جادوگر تھا‘ وہ شاید اس بوڑھے مکار جادوگر سے بھی زیادہ طاقتور جادوگر تھا جو شخص اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات کرتا تو وہ فوراً اس پر ایسا طاقتور وار کرتا کہ اس وار کو کوئی برداشت نہ کرسکتا‘ اس نے کتنےلوگوں کے بچے مار دئیے‘ کتنے شادی شدہ جوڑوں کی طلاقیں کروا دیں‘ کتنوں کے کاروبار برباد کردئیے‘ کتنے ایسے ہیں جن کو بیماریوں میں‘ دکھوں میں‘ تکالیف میں‘ مسائل اور مشکلات میں مبتلا کردیا اور کتنے ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ اس کی تھوڑی سی بھی کوئی ہلکی سی مخالفت ہوئی یا اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوئی تو اس نے اس پر ایسا وارکیا کہ سالوں وہ اس دکھ کو جھیلتا رہتامیری سگی خالہ کی بیٹی پر قیامت ڈھادی:مثلاً میں ایک مثال بتاتا ہوں ہماری سگی خالہ کی ایک بیٹی اس کے تین بچے ہیں۔ایک بار وہ ان کے گھر آیا کہنے لگا مجھے فلاں فلاں چیز کھلاؤ ‘وہ غریب لوگ انہوں نے جو کچھ پکا تھا وہ سب کچھ اس کے سامنے رکھ دیا لیکن اسے وہ پکا ہوا اچھا نہ لگا۔ کہنے لگا: میں نے تمہیں کہا ہے فلاںچیز کھلاؤ ‘انہوں نے ڈرتے ڈرتے ادب کے ساتھ کہا کہ جناب ہم وہ چیز اس لیے نہیں دے سکتے کہ ہمارے گھر میں پہننا تو دور کی بات‘ کھانے پینے کے بھی پیسے نہیں۔ غصے سے کہنے لگا جہاں سے مرضی لاؤ مگرلے آؤ۔وہ پاؤں پڑگئے انہیں پتہ تھا کہ اگر اس کو ہم نے ناراض کیا تو یہ ایسا طاقتور کالا جادو کرے گا جس کی وجہ سے ہمیں سالوں مصائب‘ تکالیف اور پریشانیوں سے نمٹنا اور نکلنا پڑے گا۔
اس نے ان کی ایک بھی نہ سنی اور ان کو اصرار کرتا رہا کہ نہیں ہر شکل میں مجھے چاہیے اور وہی چاہیے جو میں کہہ رہا ہوں۔ جانور مرنا شروع ہوگئے اور دودھ کی جگہ خون: وہ منت کرتے رہے یہ اصرار کرتا رہا لیکن آخر کار وہ غصے کے عالم میں وہاں سے چلا گیا اور اس نے جاکر نامعلوم کیسا سخت جادو کیا؟ اور کیا کچھ کیا کہ ان کے گھر کے جانور مرنا شروع ہوگئے‘ وہ گائے یا بھینس کا دودھ دھوتے تھے تو اس سے دودھ کی بجائے خون نکلتا تھا ان کی گائے اور بھینسیں گوبر کی بجائے خون اگلتی تھیں ان کے گھر میں چیزیں ٹوٹنا شروع ہوگئیں ویرانی نحوست اور مایوسی بڑھنا شروع ہوگئی اور ان کا ہر پل اور ہر لمحہ مصائب اور تکالیف میں گھرتا چلا جارہا تھا وہ کئی بار اس کے پاس آئے اور منتیں کیں کہ ہم نے جان بوجھ کر آپ کو وہ چیز نہیں کھلائی بلکہ ہمارے پاس وہ چیز تھی ہی نہیں‘ اس کو ایک فیصد بھی ان پر ترس نہ آیا:لیکن اس نے کسی کی ایک بھی نہ سنی اور ان پر ظلم و ستم اورمصائب کے پہاڑ ڈھاتا رہا اور وہ یہ مصائب اور ظلم و ستم سہتے رہے اور بار بار منتیں کرتے رہے اس نے ان کی ایک بھی نہ سنی آخر کار ان کے گھر کے افراد مرنا شروع ہوگئے اور ان کے گھر میں ویرانی‘ مصائب‘ پریشانیاں‘ مسائل مشکلات اتنی بڑھیں کہ لوگوں کو ان کی زندگی پر ترس آنا شروع ہوگیا لیکن اس کو ایک فیصد بھی ان پر ترس نہ آیا حتیٰ کہ اسی حالت میں ان کا سارا خاندان ختم ہوگیا‘ لوگ خوف کے مارے اس شخص کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے کیونکہ اس شخص کے پاس کالی دیوی‘ سومنات اور کالے چرنوں کا ایسا کالا علم ہے جس کا توڑ کسی کے پاس نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا توڑکسی کے پاس نہیں:میں حیرت انگیز جن کی بات سنتے سنتے چپ نہ رہ سکا آخر میں بول پڑا یہ کیسے ممکن ہے؟ کہ اس کا توڑ کسی کے پاس نہیں؟ میں بولا: کیا لوگوں کے پاس کلام الٰہی نہیں‘ حدیث نبویﷺ نہیں‘ اللہ کے نام کی طاقت اور تاثیر نہیں‘ لوگ اتنے غافل ہوگئے ہیں اور لوگ اتنے پریشان اورمایوس ہوگئے ہیں وہ بولا سب کچھ ہے‘ لیکن لوگوں کا علم اتنا دور ہوگیا اور لوگ کلام الٰہی کے علم سے اتنے دور چلے گئے کہ ان کے سامنے یہ چیزیں کچھ بھی نہیں اور ان چیزوں کی کوئی حیثیت اور طاقت نہیں ہے میں یہ باتیں سن رہا تھا لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کیا اس کالے جادو کرنے والے کو کوئی شخص ایسا نہیں ملا جس کے پاس اللہ کے نام کی کوئی ایک آیت ہوتی یا حدیث مبارکہ میں سے کوئی ایک دعا ہوتی لیکن میری ان باتوں کے جواب سے پہلے ہی حیرت انگیز جن بولا یہ تو واقعہ کچھ بھی نہیں اس کے ظلم و ستم کا میں آپ کو ایک اور واقعہ سناتا ہوں:۔ ظلم و ستم کا ایک اورقصہ:اور پھر بولا وہ واقعہ یہ ہے کہ یہ بات گزشتہ تیرہ سال پہلے کی ہے ایک دن وہ اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا اس کے گھر کے ساتھ گلی لگتی ہے‘ گلی سے ایک جن گزرا جارہا تھا وہ جن خوف کے مارے اپنا منہ چھپائے تیز تیز قدم اٹھائے جارہاتھا کہ کسی طرح اس کو پتہ نہ چلے کہ میں گزرا ہوں کہیں ایسا نہ ہو مجھے کسی مصیبت پریشانی اورتکلیف میں مبتلا نہ کردے۔ اس نے اوپر سے آواز لگائی ارے اندھے! تمہیں میں نظر نہیں آتا‘ تو نے مجھے عزت کے بول نہیں بولے‘ یعنی دوسرے لفظوں میں مجھے سلام نہیں کیا‘ وہ ایک دم پریشان ہوگیا‘ کہنے لگا: جی میں بھول گیا میں نے آپ کو دیکھا نہیں تھا‘ تو کہنے لگا: تمہیں میں اس بھول کا سبق سکھاؤں گا اور تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیسے بھولے؟ اور بھول کسے کہتے ہیں۔ اب یہ شخص چلا گیا اس نے وہیں اشارہ کیا ایک چھوٹا سا بونا جو انسان کی بڑی انگلی کے برابر تھا‘ اس کا سارا جسم ایسے تھا کہ جیسے انسان‘ یعنی آدمی جن نہیں‘ وہ ایک دم حاضرہوا اور حاضر ہوکر اس نے آداب عرض کیا۔ جاؤ اس کو آداب سکھاؤ:یہ جادوگر جن اس سے کہنے لگا: تمہیں پتہ ہے کہ ابھی میرے سامنے سے ایک شخص گزرا ہے جو کہ نہایت بے ادب اور گستاخ تھا اور اس نے مجھے کوئی آداب پیش نہیں کیے‘ جاؤ اس کو میری طرف سے آداب سکھاؤ‘ اس نے سر جھکایا اور کہنے لگا جو حکم میرے آقا‘ اور پھر وہ گولی کی طرح ایک دم اڑا اور غائب ہوگیا۔ ان کے گھر کے اندر گندم پڑی تھی جو کہ ان کے سال کا غلہ تھا اور سال کا خرچہ تھا‘ وہ بونا اس گندم کے اندر گھس گیا اور اپنی شکل آگ کے انگارے کی طرح بنالی اور انگارے کی طرح سلگ کر اس گندم کو سلگا کر وہ باہر نکل آیا تھوڑی ہی دیر میں ساری گندم کو آگ لگ گئی ۔ سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا: جادوگر دوربیٹھا یہ سارا منظر اپنی جادوئی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا‘ جس وقت گندم کو آگ لگی گھر میں کہرام مچ گیا دوڑے اور کہنے لگے: نامعلوم کیسے ہمارے گھر کی گندم جل گئی اور ہمارا سارا گھر جل گیا اور ہر چیز ہماری راکھ ہوگئی بہت حیرت سے وہ سب کچھ دیکھ رہے تھے آگ بجھانے کی بسیار کوشش کی لیکن آگ تھی جو ختم ہی نہیں ہورہی تھی اورمسلسل بھڑکتی چلی جارہی تھی‘ آخرکار ان کی ساری گندم ایک پل میں ختم ہوگئی اور ان کا سارا سال کا جو بھی راشن تھا وہ سارا جل کر راکھ بن گیا یہ جادوگر وہیں بیٹھا قہقہے لگارہا تھا۔یہ سب کچھ اسی کا کیادھرا ہے: اس نے اشارہ کیا وہ بونا وہیں غائب ہوگیا۔ انہیں پتہ چل گیا کہ جو کچھ یہ ہوا ہے یہ سب کچھ اسی کا کیا دھرا ہے۔ وہ سارے گھر والے اکٹھے ہوکر جوتیاں اپنے سر پر باندھ کر یہ اس علاقے کی خاص ریت اور روایت تھی کہ جس شخص کے سامنے ذلیل اور نادم ہوکر جانا ہوتا تھا اور اس سے معافی مانگنی ہوتی تھی تو اپنی جوتیاں اپنے سر پر باندھ لیتے تھے اور اس کے سامنے انہی جوتیوں سمیت حاضر ہوتے تھے۔ یہ سب اسی حالت میں اس کے پاس گئے یہ اب تک اپنی اسی مستی اسی کیفیت میں بیٹھا ہوا تھا انہوں جاکر رو دھو کر فریاد کی کہ ہمارے فرد نے غلطی کی‘ میرا نافرمان کبھی سکھ کا سانس نہیں لیتا:آپ کو آداب پیش نہیں کئے ہم اس غلطی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس پرمعذرت کرتے ہیں لیکن اس نے کسی کی بھی بات کو تسلیم نہ کیا وہ مسلسل اپنے غصے تکبر اور انا پر ڈٹا ہوا تھا یہ سب روتے دھوتے رہے لیکن اس نے ان کی ایک بھی نہ سنی آخر میں وہ کہنے لگے کہ ہم سے جو غلطی ہوئی اس پر تو معافی ہے آئندہ ہمیں کوئی ایسی سزا نہ دی جائے اس پر اس نے کہا نہیں میں تمہیں آئندہ بھی ایسی سزا دوں گا اور اس سے بڑھ کر سزا دوں گا کیوں؟ میرا نافرمان کبھی سکھ اور سکون کا سانس نہیں لیتا اور میرا نافرمان کبھی خیریت کی راہیں نہیں دیکھتا اور میں تمہیں کبھی بھی خیر اور خیریت کے راستے پانے نہیں دوں گا۔
بستی کا سردار جن اور جادوگر:بستی کا ایک بہت بڑا سردار جن تھا یہ سارا گھرانہ روتا دھوتا اس کے پاس گیا‘ اس کے پاس روزانہ اس کے مظالم کی کہانیاں ظلم کی داستانیں اور مظلوموں کی آپ بیتیاں پہنچتی تھیں لیکن وہ بھی محسوس کررہا تھا کہ شاید خود بے بس ہے اور وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا اس نے ان کی پوری بات سنی‘ اس نے بات سننے کے بعد پہلی دفعہ نامعلوم اسے کیا ہوا اس نے اسے اپنی پنچایت میں بلوایا‘ سردار کے پاس ہروقت مختلف علاقوں کے اور سردار بیٹھے ہوتے تھے اس کی طاقت تھی‘ اس کے پاس بہت بڑی فوج تھی‘ اس کے پاس طاقتور تیز اسلحہ تھا‘ یہ سب چیزیں ہونے کے باوجود بھی اس نے آج تک اس جادوگر جن کو چھیڑا نہیں تھا آج پتہ نہیں کیا ہوا اس نے اس کو بلوایا یہ اس کے بلوانے پر نہ آیا اور کہا اس کو اگر ضرورت ہے تو اس کو کہہ دو وہ میرے پاس خود آئے۔بولو کیا چاہتے ہو؟ اس کے جواب پر وہ سردار جن خود اٹھ کر چلا گیا وہ اٹھا تو اس کے ساتھ تمام خدام‘ غلام‘ گارڈ‘ فوجیں سب کچھ اس کے ساتھ چل پڑیں‘ ایک پورا قافلہ تھا جو اس کے ساتھ چل رہا تھا‘ جب اس جادوگر جن کے
گھر پہنچا ایک دم اتنا بڑا قافلہ دیکھ کر پہلے تو سہم گیا پھر اکڑ گیا اور کہنے لگا: بولو کیا چاہتے ہو‘ اس نے نہ تو سردار کا احترام کیا ‘نہ ان کیلئے کھڑا ہوا ‘نہ ان کی عزت افزائی کی بلکہ اکڑے ہوئے متکبرانہ لہجے کے ساتھ بولا میں اس قابل ہوں کہ تم میرے پاس چل کر آؤ‘ اگر تم میرے پاس چل کر آئے ہو تو بولو میں تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں؟ تجھے علم ہے میں کون ہوں؟ اس کے اس انداز پر جنات کے سردار کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے اسے کہا تجھے علم ہے میں کون ہوں؟ اس کے بے ادبی کے انداز کو سارے حاضرین فوجیں‘ گارڈ‘ وزیر‘ مشیر‘ سردار کے ساتھی ماتحت سب نے بہت بُری طرح محسوس کیا لیکن وہ خاموش رہے اور اس کی بے ادبی اور گستاخی کو برداشت کیا سردار چونکہ بہت عظیم جن تھا وہ اس کے اس بے ادبی کے لہجے کو پی گیا۔حاجیوں سے سنا ایک لفظ: سردار کی محفل میں ایک شخص ایسا تھا جس کے پاس ایک ایسا لفظ تھا جو اس نے ایک بار ایک حاجی کے استقبال میں آئے لوگوں سے لفظ سنا تھا اسے وہ لفظ اچھا لگا تھا اس نے وہ لفظ پڑھناشروع کیا اسے احساس نہیں تھا کہ اس لفظ کی کیا تاثیر ہے اس نے اس کو نغمہ سمجھا ترنم کے ساتھ اسی انداز سے وہ اس کو پڑھتا گیا‘ پڑھتے پڑھتے اس پر اس کی تاثیرات اور فائدے کھلنا شروع ہوگئے اور ایسے فائدے کھلے کہ وہ خود حیران ہوگیا‘ وہ جس کام کیلئے اسے پڑھتا تھا‘ وہ کام ہوجاتا تھا‘ وہ اپنے سردار کا وفادار تھا اس سےسردار کی یہ بے عزتی اور بے حرمتی برداشت نہ ہوئی۔ ادھر سردار کا حکم تھا کہ اس پر کوئی تلوار نہیں چلانی ‘کوئی سختی نہیں کرنی‘ اسے نامعلوم کیا سوجھی اس نے وہیں کھڑے کھڑے چپکے سے وہ لفظ پڑھنا شروع کردیا اور وہ لفظ پڑھتے پڑھتے ایک پل میں اس نے محسوس کیا اس کی گردن کا اکڑاؤ ڈھیلا پڑ گیا۔ کوئی ہے جس نے میرے جادو کو ختم کردیا: اس کے ہاتھوں کی کشش کمزور پڑگئی اس کا لہجہ تبدیل ہوگیا ایک پل میں کھڑا ہوگیا اور قدموں پر ہاتھ رکھ کر سردار کو سلام کیا اور سر جھکا کر کہنے لگا کہ آقا میں آج تک کسی کے سامنے نہیں جھکا ‘سب میرے سامنے جھکے ہیں اور ہمیشہ آپ بھی میرے سامنے جھکتے رہے ہیں لیکن آپ پہلے شخص ہیں کہ جن کو میں جھک کر مل رہا ہوں احترام کررہا ہوں‘ ادب کررہا ہوں اور ان کو توجہ دے رہا ہوں‘ آپ کے اس سارے وفاداروں کی محفل میں کوئی ایسا وفادار شخص ہے جس کے پاس کوئی ایسا روحانی اور نوری علم ہے جس نے میرے کالے علم کو ختم کردیا‘ میں اپنی بے بسی کا مکمل اعتراف کررہا ہوں لیکن آپ سے منت کرتا ہوں کہ آپ حکم دیں کہ آپ کے ان جانثاروں میں سے جس جانثار نے وہ لفظ اور اسم پڑھا ہے اس علم اور لفظ کو مجھے بتا دے۔ میں اس کو اپنا گرو اور استاد مانتا ہوں: اگر نہیں بتاتا تو میں اس شخص کو صرف دیکھنا چاہوں گا اور آج کے بعد میں اس کو اپنا گرو اور استاد ماننا چاہوں گا جس نے میرےا تنے بڑے علم کو توڑ دیا اور اتنی بڑی طاقت اور غرور کو خاک میں ملا دیا‘ سردار ایک دم یہ بات سن کر چونک پڑا اور ایک احساس ہوا کہ اس کے چہرے پر کچھ رونق آئی ہے‘ اس نے فوراً چاروں طرف نظر دوڑائی اور کہنے لگا میں حکم دیتا ہوں کہ میرے جانثاروں میں سے جس شخص نے بھی وہ نوری اور روحانی علم پڑھا ہو جس نے اس کے کالے اور طاقتور جادو کو ختم کردیا میں اس شخص کو حکم دیتا ہوں وہ سامنے آئے۔آپ کی بے ادبی اور بے اکرامی برداشت نہ ہوئی: اس کا حکم دیتے ہی ایک پل میں ایک معمولی درجے کا شخص سامنے آیا جو کہ نہ جرنیل تھا‘ نہ کوئی وزیر مشیر تھا نہ بادشاہ کا مصاحب نہ کوئی عہدہ دار تھا وہ اس سردار کا ایک وہ خدمت گزار تھا جو سواریوں کے گوبر کو اکٹھا کرتا تھا۔ وہ شخص تو بہت چھوٹا تھا لیکن اس کے پاس روحانی نورانی علم بہت بڑا تھا وہ بولا کہ آقا آپ کی بے ادبی اور بے اکرامی مجھ سے برداشت نہ ہوئی میں نے آج تک آپ کے سامنے اس لفظ کا اظہار نہیں کیا کچھ حجاج تھے جو آئے ان کا استقبال کرنے والے نیک صالحین یہ لفظ ترنم سےپڑھ رہے تھے مجھے ان کا ترنم اور اس لفظ کا انداز بہت اچھا لگا تو میں نے بھی یہ لفظ پڑھنا شروع کردیا اور جب بھی میں نے یہ لفظ پڑھا اور جہاں بھی جس مقصد کیلئے بھی مجھے اس لفظ کی بہت زیادہ طاقتور تاثیر ملی اور حیرت انگیز طاقت ملی اور میں اس لفظ کو ہر لمحہ‘ ہر لحظہ‘ کبھی نہیں بھولتا آج میرے جی میں آیا کہ میں کیوں نہ اس لفظ کو پڑھوں! اور اس لفظ کی طاقت اور تاثیر کو پرکھوں ۔ اب یہ صرف معمولی جن ہے!لہٰذا میں نے اس لفظ کو پڑھا اور اس کی طاقت اور تاثیر کو پرکھا میرا تیر سوفیصد نشانے پر لگا اس کے اندر کی جان نکل گئی اور اس کا اندر بالکل ختم ہوگیا اور اس کے تمام کالے علوم کالی چیزیں ایک دم سب کچھ چھن گیا اور اس کا جسم کھوکھلا ہوگیا اس کی طاقتیں بکھر گئیں اور کالاعلم اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کے تن سے جدا ہوگیا اب یہ عالم محض معمولی سا جن ہے اب یہ جادوگر نہیں! گرفتاری اور عام اعلان:بلکہ اب یہ اس قابل ہے آپ اسے جو سزا دینا چاہیں دے دیں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کو گرفتار کرلیں اس کو گرفتار کرلیا گیا بادشاہ نے عمومی اعلان کیا یعنی اس سردار نے کہ جس جس نے اس شخص کےذریعے تکلیف اور نقصان اٹھایا ہو وہ آئے ہم اسے انصاف دلائیں گے۔بس یہ اعلان کیا تھا جنگل میں آگ کی طرح یہ اعلان پھیل گیا لوگ جوق در جوق اعلان کی طرف آنےلگے اور بادشاہ کا سارا میدان بھر گیا‘ ابھی تک لوگ آرہے تھےجنات اور انسان کا سمندر: سردار حیران کہ اس شخص نے اتنے لوگوں کو تکلیف دی تھی اور پریشان کیا تھا‘ بار بار اپنے بارے میں کہہ رہا تھا کہ اے کاش! میںاس شخص سے کیوں دور رہا میں نے اس شخص کو سزا کیوں نہیں دی؟ میں نے اتنا ظلم اور زیادتی کیوں کی؟ اس لیے کہہ رہا تھا اور ندامت کے آنسو بہا رہا تھا اور ایک مخلوق تھی جنات کی جو جوق در جوق اس کے پاس آرہی تھی اچانک بیٹھے بٹھائے سردار نے حکم دیا جاؤ جتنی بھی اردگردانسانوں کی بستیاں ہیںسب میں اعلان کرو کہ جس جس فرد کو کوئی تکلیف پہنچی ہو کسی بھی جن کے ذریعے اور انہیں گمان احساس شک ہو تو وہ فوراً شاہ جنات سردار کی خدمت میں آئیں وہ ان کا بدلہ ان کو دلوائیں گے اب انسانوں کا ایک ہجوم آنے لگا‘ وہ تو اس سے کہیں زیادہ سیلاب تھا جب سارے اکٹھے ہوگئے‘ اس کو ایک طرف زنجیروں سے باندھ کر بٹھایا ہوا تھا ‘اس کا منہ کالا کیا ہوا تھا‘ اس کاجسم بے حس اور بے حرکت‘ اس کا منہ لٹکا ہوا وہ بادشاہ کی سواریوں کی لید اکٹھی کرنے والا چھوٹا سا جن‘ بادشاہ نے اسے فوراً اپنے دربار میں آتے ہی عزت دی اور ایک بہت بڑی وزارت اور منصب دے دیا۔بیٹی کی عصمت داغدار کردی: بادشاہ نے سب سے پہلے انسانوں میں سے ایک فرد کو بلایا‘ کہا کہ تم بتاؤ اس جن کے مظالم کیا تھے۔ وہ کہنے لگا میں دو بیٹیاں ایک بیٹے اور بیوی کے ساتھ گرمیوں کی راتوں میں اپنی چھت پر سو رہا تھا ‘اچانک میں نے محسوس کیا کہ کشمکش ہورہی میری بڑی بیٹی جس کی عمر اکیس سال اس کی شادی کی ترتیب ہوچکی تھی اور عنقریب اس کی رخصتی تھی‘ بہت ہی خوبصورت لیکن حیا اور ایمان والی تھی۔ وہ کسی چیز سے الجھ رہی تھی جیسے کوئی چیز اس کو پکڑنا چاہ رہی اور وہ اس سے جان چھڑوا رہی‘ میں اٹھا تو میں نے پوچھا کیا ہے؟ اس کو کسی چیز کا ہوش نہیں تھا‘ بس وہ اپنے آپ کو بچا کر بھاگتی تھی اور میں محسوس کررہا تھا کہ کوئی چیز اس کو پکڑتی تھی‘ وہ اس کو چھڑوانے کی کوشش کرتی تھی ‘اتنی دیر میں‘ میں نے محسوس کیا کہ میری بیٹی کی چیخیں نکلیں اور کوئی نامعلوم طاقت اور خفیہ ہاتھ میری بیٹی کو اٹھا کر غائب ہوگیا۔ میں‘ میری دوسری بیٹی‘ بیوی اور بیٹا روتے چیختے چلاتے رہ گئے ہم نے کوئی کونہ نہیں چھانا‘ کوئی جگہ نہیں چھوڑی‘ ایک بزرگ بابے کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ آپ کے گھر کے قریب ہی ایک ظالم جادوگر جن رہتا ہے‘ وہ جن آپ کی بیٹی کو اٹھا کر لےگیا ہے۔ وہ اتنا ظالم ہے کہ اس سے کوئی چھڑوا نہیں سکتا‘ میں کچھ نہیں کرسکتا بس میں واحد ہوں جس نے آپ کو پتہ بتادیا صرف اتنا ہے کہ آپ بس صبر اور حوصلہ کریں جب اس کا دل چاہے گا خود آکر چھوڑ جائے گا۔ ایسا ہی ہوا تیرہ دن کے بعد ہم نے دیکھا کہ ہمارے گھر کے اندر کے کمرے کی چارپائی پر بیٹی بیہوشی کے عالم میں پڑی ہے اس کا جسم جگہ جگہ سے داغدار تھا‘ اس کی عزت‘ عصمت‘ داغدار تھی اور ہوش آتے ہی بس ایک ہی رٹ تھی۔ مجھے چھوڑ دو‘ مجھے کچھ نہ کہو‘ میں ماں باپ کو کیا منہ دکھاؤں گی؟ ماں بار بار پکڑکر اس کو اپنے سینے سے لگاتی‘ ماں کو دیکھ کر بھی چیخیں مارتی کہ شاید وہ یہی جن ا ور بلا ہے‘ تین دن کے بعد اس کو احساس ہوا کہ وہ اپنے گھر میں ہے‘ اس نے کھانا پینا شروع کیا اور اسے سنبھلتے سنبھلتے مہینوں لگ گئے اور مہینوں کے بعد وہ سنبھلی اور ایسی سنبھلی کہ انسانوں کی زندگی میں تو آئی لیکن اس کی پچھلی یادداشت ختم ہوگئی وہ ہروقت بجھی بجھی رہتی تھی وہ شادی کے نام سے ڈرتی تھی کہ میں اپنے شوہر کو کیا منہ دکھاؤں گی وہ ہروقت تنہائیوں میں روتی رہتی تھی‘ وہ گھنٹوں مصلے پر بیٹھی رہتی تھی‘ وہ اپنی تعلیم چھوڑ بیٹھی‘ وہ اپنا حافظہ کھو بیٹھی‘ وہ اپنی یادداشت فراموش کربیٹھی ‘وہ بہت خوبصورت اور حسین تھی‘ مہینوں میں اس کے بال سفید ہونا شروع ہوگئے اس کے چہرے پر بل اور سلوٹیں پڑنا شروع ہوگئیں‘ ماں اس کو دیکھ دیکھ کر غمزدہ ہوگئی صرف ڈھائی مہینے کے بعد اس کے غم میں ماں اچانک بیٹھے بیٹھے مرگئی۔جنات‘ انسان‘ کہرام اور سسکیاں: حیرت انگیز جن کہنے لگا: جب یہ واقعہ وہ خاندان سنا رہا تھا اور وہ آدمی بتارہا تھا جنات اور انسانوں کا کہرام اورسسکیاں تھیں اور خود سردار جن بھی اپنے آنسو ضبط نہ کرسکا اور ہر شخص اس درد کو سن کر رو رہا تھا کیونکہ ہر شخص خود اپنا درد لے کر آیا تھا‘ حیرت انگیز جن کہنے لگا: یہ درد ایسا تھا کہ کوئی شخص اس درد کو سنے‘ سوچے یا پڑھے روئے بغیر آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ انسان کہنے لگا: اس کی ماں اس غم کو نہ سہہ سکی اور ڈھائی ماہ کے بعد مرگئی اور ہمارا گھر ویران ہوگیا‘ وہ بیٹی کو ساتھ لیے بیٹھا تھا‘ جوان بیٹی ایسے محسوس ہورہی تھی کہ جیسے ساٹھ سال کی کوئی بڑھیاہو‘ نہ اس کا ہوش ساتھ تھا نہ حواس ساتھ تھے‘ وہ سارا دن خلا میں گھورتی‘ کبھی گھنٹوں دیواروں کو تکتی‘ وہ لیٹی تو لیٹی ہی رہتی‘ وہ بیٹھی تو بیٹھی ہی رہتی‘ اس کو کھلاتے تو کھالیتی خود نہیں مانگتی تھی‘ اس کو پلاتے تو پی لیتی خود نہیں چاہتی تھی‘ اس کا وجود ایک مردہ جسم تھا۔ اس ظالم اور جادوگر جن کے ڈھائے ہوئے مظالم کی یہ پہلی داستان تھی جو کھلی کچہری میں سب نے سنی۔ سب زارو قطار رو رہے تھے اور کوئی آنکھ ایسی نہیں تھی جو بھیگی نہ ہو کوئی دل ایسا نہیں تھا جو رویا نہ ہو‘ کوئی جسم ایسا نہیں تھا جو تڑپا نہ ہو‘ بچے بھی رو رہے تھے‘ بوڑھے بھی‘ جوان بھی کیاان کی بھی ماں مرگئی ہے! لیکن عجیب بات ہے اس شخص کی وہ بیٹی بے حس و حرکت سب کو تک رہی تھی اور ہر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنی بہن سے پوچھتی یہ لوگ کیوں رو رہے ہیں کیا ان
کی بھی ماں مرگئی ہے کیا اس کی ماں کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا ہے‘ کیا ان کا بھی گھر لٹ گیا ہے‘ کیا ان کو بھی کوئی ظالم جن اٹھا کر لے گیا‘ کیا ان پر بھی جادو ہوا تھا‘ کیا یہ بھی شادی نہیں کرسکیں گے‘ کیا یہ بھی کسی کو منہ نہیں دکھا سکیں گے‘ کیا ان کے گھر میں بھی ویرانی اور اجاڑ آگیا ہے‘ وہ بار بار جھنجھوڑتی۔کوئی سینے سے لگانے والابھی نہیں: یہ بات کہتے ہوئے حیرت انگیز جن تڑپ تڑپ کر بلک بلک کر رونے لگا ایسا رویا کہ میں بھی اس کے ساتھ رویا اور شاید میں زندگی میں بہت رویا ‘اللہ کے خوف سے‘ اللہ کے شوق سے یا زندگی کے کسی غمزدہ موقع پر لیکن اس دن تو کوئی ایسا رونا آیا کہ آنسو تھے کہ تھمتے نہیں تھے‘ ہچکیاں تھیں کہ رکتی نہیں تھی‘ کوئی ڈھارس بندھوانے والا بھی نہیں‘ کوئی تسلیاں دینے والا بھی نہیں ‘ سارے ہی بلکنے والے تھے کوئی سینے سے لگانے والا نہیں تھا‘ سارے ہی اس داستان غم کے دکھ میں الجھے ہوئے آنسو بہارہے تھے۔ حیرت انگیز جن بولا: بادشاہ نے ایسے ہاتھ سامنے کیا اس بات کا اشارہ تھا کہ چپ ہوجاؤ‘ میری نگری میں اتنے مظالم:اور بادشاہ غضبناک نظروں سے اس جادوگر جن کو دیکھنے لگا پھر خود ہی کہنے لگا میری نگری میں اتنے مظالم ہوتے رہے‘ میں خاموش ‘بے جان‘ سب کچھ دیکھتا رہا۔ اصل میں یہ سارا قصور میرا ہی ہے اور میرا دل اب اتنا ٹوٹ گیا ہے کہ اب میں مزیدکوئی اور داستان سننے کا متحمل نہیں ہوں۔ میرے آنسو اتنے بہہ گئے ہیں کہ میری آنکھیں خشک ہوگئی ہیں‘ ابھی اس شخص کا درد باقی تھا‘ بادشاہ جب یہ بات کہہ کر رکا وہ شخص بادشاہ کی سنی ان سنی کہہ کر پھر بولنا شروع ہوا مجبوراً بادشاہ سر جھکا کر اس کی بات سنتا رہا ۔چین ختم‘ سکون ختم‘ رزق ختم صرف ویرانی ہی ویرانی:وہ کہنے لگا: میرے گھر میں رزق ختم ہوگیا اس جن نے میرے گھر پر ایسا جادو کیا میرے گھر میں ویرانی گھس آئی ہے‘ میرے گھر کا چین سکون لٹ گیا ہے‘ ذلت اور رسوائیوں نے میرے گھر میں ڈیرے ڈال لیے ہیں‘ پھر اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا اس بیٹی کا ہاتھ میں کس کے ہاتھ میں دوں گا‘ کون میری بیٹی کو قبول کرے گا بس یہ کہنا تھا کہ پورے مجمع میں سے چیخیں آہیں سسکیاں ایک طوفان تھا جو سمندر کے طوفان سے ہٹ کر کہیں زیادہ تھا‘ آندھیوں کی سرسراہٹ اور شور سے کہیں اوپر تھا‘ صحراؤں کے ذروں سے کہیں بڑھ کر تھا‘ ویرانوں کے سناٹوں کے خوف سے کہیں زیادہ خوفزدہ تھا۔ ہر شخص رو رہا تھا اور ہر شخص کا دل چاہ رہاتھا کہ اس جادوگر جن کو کوئی ایسی سزا دی جائے کہ سب کے دلوں میں ٹھنڈک تسکین اور سکون آجائے اور سب کے دل مطمئن ہوجائیں۔ظالم کے گریبان پر ہاتھ؟؟؟ وہ شخص مزید بولا: کوئی رات ایسی نہیں جس رات میں میں اپنی مخلص بیوی کو یاد کرکے نہ روتا ہوں میں اپنی بیٹی کو دیکھتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ کوئی ایسی کائنات میں طاقت نہیں جو اس ظالم سے مجھے میرا بدلہ لے کر دے اور کائنات میں کوئی ایسی قوت نہیں جو مجھ مظلوم کا ہاتھ پکڑے اور میرا ساتھ دے کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیں جو اس ظالم کے گریبان میں ہاتھ ڈالے اور اس کا گریبان چاک کردے۔ کیا یہ اس قابل نہیں کہ اس کو پھانسی دی جائے؟ کیا اس قابل نہیں کہ اس کا جسم سولی پر لٹکا دیا جائے؟ کیا اس کیلئے یہ سزا کافی ہوگی کہ ا س کا جسم ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے۔
بیٹی کے پاکیزہ وجود کا تار تار ہونا:وہ شخص چیخ رہا تھا وہ انسان تھا وہ جن نہیں تھا اور اس کی آواز میں درد تھا‘ سوز تھا کڑھن تھی‘ اس کی آواز میں سچائی تھی اس کے بولوں میں مظلومیت تھی اس کے لفظوں میں درد تھا‘ اس کے لہجے میں بیٹی کےپاکیزہ وجودکاتار تار ہونا اوراس کے سامنے اس کی عزت و عصمت کا لٹ جانے کا درد تھا اوربیٹی کے جسم پرشدید گہرے داغ جو شاید کبھی نہ بھر سکیں ابھی تک موجود تھے۔ بیٹی کا اجڑا ہوا آنگن کیسے آباد کرتا؟ وہ سب غم چھپا سکتا تھا لیکن بیٹی کے وجود اور چہرے کے داغ کیسے چھپا سکتا تھا‘ وہ سارے غموں کو بھول سکتا تھا لیکن اپنی مخلص بیوی کو کیسے بھول سکتا تھا اور اپنی بیٹی کا اجڑا ہوا آنگن کیسے آباد کرتا‘ بیٹی کے ہاتھ پیلے کیسے کرتا ؟وہ رو رہا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا کہ لوگو! کوئی ہے جو میری بیٹی کا ہاتھ تھامے ‘جو اس حالت میں بھی میری بیٹی کوقبول کرلے‘ کوئی ہے یہاں بیٹھا ہوا میں جنوں سے نہیں انسانوں سے بات کررہاہوں‘ جو میری بیٹی کو اپنے بیٹے سے بیاہ دے اور اس کو کبھی طعنہ نہ دے‘ میلی نظروں سے نہ دیکھے‘ اس کوترش بول نہ بولے‘ اس کو ایسے میٹھے بول بولے جو سارے غم بھول جائے‘ سارے دکھ فراموش کردے‘ وہ دل کے دکھڑے کسی گہرے گڑھے میں ڈال کر دفن کرکے پھول چننے میں مصروف ہوجائے۔ اس وقت تو آسمان بھی رو رہا : یہ کہتے کہتے وہ اپنے گھٹنوں میں سر رکھ کر زارو قطار رونے لگا‘ آہیں بھرنے لگا اس کی دوسری بیٹی اس کا بیٹا سب رو رہے تھے وہ نہیں اس وقت تو آسمان بھی رو رہا تھا‘ درختوں کے پتے بھی آنسو بہارہے تھے ‘پہاڑوں کی چٹانیں بھی پگھل گئی تھیں‘ موم ہوگئی تھیں اور موم ہوہوکر ٹپک رہی تھیں‘ زمین کا سینہ بھی چاک ہوگیا اور زمین کے اندر سے آہیں نکل رہی تھیں‘ ایسا سوگوار ماحول تھا کہ جیسے نامعلوم کہ کیا ہوگیا‘ بادشاہ سہما ہوا تھا‘ سردار سمٹا ہوا تھا‘ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی‘ وہ کیا کرے لوگ تڑپ رہے تھے اور ہر شخص یہ چاہ رہا تھا کہ میں اپنی داستان سناؤں اور ہر شخص یہ چاہ رہا تھا کہ میں اپنے غم کی کہانی سناؤں‘ میری باری کب آئے گی مجھے انصاف کب ملے گا؟
ہمیں انصاف چاہیے:ایک بوڑھا انسان کھڑا ہوکر زور سے بولا: اے شاہ جنات آپ نے ہمیں بلوایا ہے ‘آپ کی مہربانی صرف غم کی داستانیں نہیں‘ ہرغم کے ساتھ ہمیں انصاف چاہیے‘ ہر درد کے ساتھ ہمیں درد کا مرہم چاہیے اور ہمارا مرہم اس جن سے انتقام ہے۔ اس جن سے بدلہ اس جن کو قابل عبرت بنانا ہے‘ بادشاہ سر ہلا رہا تھا‘ اپنے آنسو اس کے شاہی لباس کو اور زیادہ چمکدار کررہے تھے‘ اس کے موتیوں کوآبدار کررہے تھے پر وہ خاموش کہ کیا کرے۔ بوڑھی جننی کی داستان: اس کے بعد بادشاہ نے کہا کہ اب کوئی جن اپنے ظلم کی کہانی سنائے: ایک بوڑھی عورت اٹھی‘ وہ جننی تھی‘ بہت ہی زیادہ بوڑھی تھی‘ اس کے کھڑا ہونے میں دو جنات نے اس کی مدد کی‘ وہ اٹھ کر بولنا شروع ہوئی۔ اس کی آواز بہت کم تھی‘ کمزوری کی وجہ سے حلق سے زیادہ نہیں نکل رہی تھی لیکن اس آواز میں درد تھا‘ اس میں سوز تھا‘ اس میں ہمدردی تھی اس کی آواز اتنی نہیں تھی کہ سردار تک پہنچ سکے‘ سردار نے اپنے دو آدمی بھیجے جو اس کے دائیں بائیں کھڑے ہوکر اس کے بولے ہوئے الفاظ کو اونچی آواز میں اور اونچے لہجے میں بیان کررہے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ یہ بڑھیا کہتی ہے قوت‘ توانائی اور کچھ جوانی:ایک دن کا واقعہ ہے اس دور کی بات ہے جب میرے اندر قوت تھی‘ توانائی تھی اور کچھ جوانی تھی‘ میں باہر پہاڑوں پر ایک غار کے اندر حاجت کیلئے گئی‘ میں حاجت سے فارغ ہوکر واپس ہی آرہی تھی‘ راستہ میں مجھے ایک جن ملا‘ جس کی نظریں میں نے پھری ہوئی دیکھیں‘ اس کی نظر دیکھ کر میں حیران ہوئی کہ میری ساری زندگی گزری آج تک اس غار میں کوئی شخص نہیں آیا کیونکہ یہ بالکل دور تنہا ویرانے میں ہے‘ مگر آج یہ کیا ہوگیا؟ اس جن نے اپنے غلط عزائم کا ارادہ کیا ‘وہ جن انتہائی بھیانک شکل‘ گندا چہرہ‘ بدبودار جسم لیکن ساتھ ہی خطرناک اسلحہ لیا ہوا اور بہت زیادہ طاقتور محسوس ہورہا تھا۔اس کا ارادہ مجھ سے برائی کا تھا:اس کا ارادہ مجھ سے برائی کا تھا میں ایک طرف اس کا غلط ارادہ دیکھتی ایک طرف اپنی ڈھلتی عمر جہاں میرے اپنے جذبات خود ختم ہوچکے تھے لیکن وہ شخص اپنے عزم کا پختہ تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ میں اس سے گناہ اور برائی کروں‘ میں شور نہیں کرسکتی تھی‘ میں کسی کو پکار نہیں سکتی تھی‘ میں نے اپنی تمام قوتیں صرف کرکے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی‘ اس نے میرے کپڑے نوچ ڈالے‘ لیکن وہ میرے بدن تک نہ پہنچ سکا ۔میرے پاس کچھ نہیں صرف پتھر تھے ہم جنات ایک دوسرے کو جس طاقت سے دور کرسکتے تھے جس طاقت سے مار سکتے تھے ہم نے مارا اور ایک دوسرے سے دور کیا‘ لیکن وہ اپنے ارادے سے باز نہ آیا۔اس نے مجھے بے بس کردیا: اس کا ارادہ یہی تھا کہ وہ اپنے ناپاک عزائم پورے کرے۔ میں ایک شریف اور باحیاء جننی تھی‘ جس نے ساری زندگی کوئی ناپاک جرم تو کیا ارادہ بھی نہیں کیا ؟اس نے مجھے بے بس کردیا‘ میرے جی میں آیا یہ غار میرے اوپر گر جائے میں پتھروں کے نیچے دب جاؤں ‘میری لاش ہی ختم ہوجائے لیکن مجھ سے یہ غلط کام کبھی نہ ہو‘ میرا دل دہل رہا تھا میری آنکھوں سےا ٓنسو بہہ رہے تھے ‘میرے جسم کا انگ انگ رواں رواں اور خون کا قطرہ قطرہ پکار رہا تھا کہ میرے ساتھ جو کچھ ہورہا غلط ہورہا لیکن آج مجھے کوئی بچانے والا نہیں‘ یہ جن اپنے ارادے کا پکا تھا پھر اس نے ایک ناپاک حرکت کی اس نے اپنے جادو کے زور پر مجھے معذور کردیا‘ میرے دونوں ہاتھ پاؤں ٹیڑھے ہوگئے‘ میرا جسم گٹھڑی بن گیا اور میں ایک دم پتھروںمیں گر گئی۔ میری آنکھیں کھلی‘ حواس بے دار‘ میرا جسم زندہ تھا لیکن میں کچھ کر نہیں سکتی تھی اور میرا ایک ایک پل ایک ایک لمحہ ایسا تھا کہ مجھے خطرہ تھا نامعلوم اب یہ کیا کرے گا اور اس کا اگلا ارادہ کیا ہوگا؟ اس نے مجھے جادو کے زور پر معذور کرکے پھینک دیا اور خود چلا گیا۔ میں وہاں سسکتی رہی‘ میں بھوکی رہی‘ میں پیاسی رہی‘ یہ پانچ دن کے بعد پھر میرے پاس آیا میں بھوک پیاس دکھ تکلیف سے خوف ہراس سے بالکل نڈھال ہوچکی تھی اور میرے جسم کاایک ایک حصہ بےکار ہوچکا تھا۔دیکھو! میری تمنا پوری کردو: میں نے جب غار میں کسی کے آنے کی آہٹ سنی تو میں پھر پریشان ہوگئی کہ وہی آسکتا ہے اور تو کوئی یہاں آ ہی نہیں سکتا اس نے آکر گرج دار آواز میں مجھے میرے نام سے پکارا اور کہا دیکھو! میری تمنا پوری کردو‘ تمہیں مالامال کردوں گا اگر تم نے میری تمنا پوری نہ کی تو اسی طرح ساری زندگی سسکا سسکا کر مار دوں گا ‘میں مر تو سکتی تھی لیکن اس کی یہ تمنا پوری نہیں کرسکتی تھی‘ میرا سسکنا‘ میرا مرنا‘ مجھے سب کچھ منظور تھا لیکن زندگی کا یہ انداز مجھے منظور نہیں تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ اب اس کا اگلا وار کیا ہوگا تو اس نے ایک دم ایسے ہاتھ کا اشارہ کیا اور میں ایک دم کھڑی ہوگئی جیسے کسی طاقت نے مجھے بالکل سیدھا کردیا‘ میرے پاؤں میری ٹانگیں میرا جسم ہر چیز تندرست ہوگئی‘ میں مطمئن ہوئی کہ شاید یہ مجھے ابھی آزاد کردے گا لیکن اس نے آزاد کرنے کے بعد پھر میری طرف ہاتھ بڑھانا چاہا میری چیخیں نکل گئیں۔شیطانی آگ کو تسکین: مجھے کہنے لگا میں تیرے ساتھ سب کچھ کرسکتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ جو کروں‘ تیرے ارادہ کے ساتھ کروں‘ اس سے میرے اندر کی شیطانی آگ کو تسکین پہنچے گی۔ پھر وہی کیفیت‘ میرا احتجاج‘ شور چیخیں‘ رونا‘ سسکیاں اور بار بار کی مزاحمت‘ کچھ دن ایسا کرنے کے بعد وہ بہت زیادہ غصہ میں آگیا اور غصہ میں آکر کہنے لگا :ٹھیک ہے اس سے بھی زیادہ ایک کڑی سزا دیتا ہوں اس نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور مجھے میرے بالوں کی چوٹی کے ساتھ غار کے ایک سب سے اونچے کونے میں لٹکا دیا ‘میری چیخیں نکل گئیں میں اپنے بالوں کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی۔سردار اور تمام مجمع کی سسکیاںنکل گئیں: یہ بات کہتے ہوئے حیرت انگیز جن جوکہ پہلے بھی غمزدہ تھا اور رو رہا تھا اور مزید اس غم اور درد کی کیفیت میں رونے لگا اور کہا کہ یہ داستان سنتے ہوئے سردار بھی رو رہا تھا اور تمام مجمع سسکیاں ہائے اور پکار کے ساتھ رو رہا تھا۔ پھر حیرت انگیز جن نے اپنی بات کو جاری کرتے ہوئے ٹھنڈا سانس لیا اور اس جننی کی داستان کو آگے بڑھاتے ہوئے بولا کہ وہ جننی بولی: پورے چوبیس گھنٹے مجھے بالوں سے لٹکائے رکھا‘ ایک طرف بھوک‘ دوسری طرف پیاس‘ تیسری طرف غم‘ چوتھی طرف تنہائی اور پانچویں طرف ایک اذیت ناک تکلیف‘ میرے جسم کا رواں رواں اور ہڈی کا جوڑ جوڑ تکلیف سے دکھ رہا تھا‘ چوبیس گھنٹہ کے بعد وہ پھر آیا اور آکر اپنے ارادہ کا پھر اظہار کیا۔ اس نے مجھے بندریا بنادیا: میرا وہی انکار‘ اس کی وہی مزاحمت اور تکالیف اور مشکلات اور پریشانیاں آخرکار اس تکلیف اور پریشانی کے بعد اس نے مجھے تیسری ایک اور سزا دی‘ اس نے مجھے بندریا بنادیا اور میرے گلے میں زنجیر ڈال دی اور ایک بہت بڑے پتھر کے ساتھ وہ زنجیر باندھ دی اور مجھے چھوڑ کر چلا گیا کہ جا ہمیشہ کیلئے تو یہاں رہے گی اور اسی شکل میں سسک سسک کر مرجائے گی۔ ادھر کئی دنوں سے جب میں گھر نہ پہنچی تو میرے گھر والوں نے میری تلاش شروع کی‘ تلاش کرتے کرتے ایک دن انہیں خیال آیا کہ میں اپنی حاجت کیلئے دور کچھ غاریں تھیں ان میں جایا کرتی تھی اب انہوں نے مجھے غاروں میں تلاش کرنا شروع کردیا ۔ایک دن میں نے آہٹ سنی کچھ لوگ تھے اور ان کی آوازیں تھیں اور ان کی آوازیں دور سے سنائی دے رہی تھیں کیونکہ اس نے مجھے غار کے آخری کونے میں پھینکا ہوا تھا میرے جی میں تھا کہ اگریہ لوگ کوئی اور ہیں تو ضرور غار کے اندر آئیں۔ میں وہی ہوں ! پھرا چانک مجھے احساس ہوا کہ یہ وہ خبیث مکار جن اور جادوگر نہیں بلکہ کچھ اورلوگ ہیں میری توقع کے عین مطابق قدموں کی آہٹ آنے لگی اور مجھے احساس ہوا کہ یہ تو میرے گھر والے ہیں اور میرا تذکرہ کرکر کے مجھے تلاش کررہے ہیں میں نے بندریاکی آواز میں بولنا شروع کردیا اور جب وہ قریب پہنچے اور کہنے لگے یہاں تو ایک بندریا
بندھی ہوئی ہے میں نے اشاروں میں انہیں بتایا کہ میں بندریا نہیں ہوں‘ میں تو وہی ہوں جس کی تم تلاش میں آئے ہو‘ وہ سمجھدار تھے سمجھ گئے اور یہ سارا ماجرا بھی سمجھ گئے کہ یہ سارا کیا دھرا اسی خبیث جادوگر کا ہے۔ میرا انتقام ختم ہونے والانہیں:انہوں نے دوبندے وہیں میرے پاس چھوڑے‘ کچھ کھانے پینے کی چیزیں دیں اور باقی تمام میرے گھر والے اس جادوگر کے پاس گئے‘ اس کوجاکر کہا: آپ نے ہماری عورت کو بندریا بنادیا‘ انہوں نے بہت زیادہ زاریاں کیں‘ منت کی لیکن وہ جن نہ مانا اور اس نے مجھے بندریا ہی رہنے دیا‘ ہاں ان کی ایک منت پر وہ مان گیا کہنے لگا: ٹھیک ہے میں اتنا کردیتا ہوں کہ پتھر سے میں اس کو ہٹا دیتا ہوں اس کی زنجیر تمہارے ہاتھ میں دےد یتا ہوں اس کو گھر جاکر باندھ دو‘ لیکن یہ رہے گی بندریا‘ یہ جناتی روپ میں نہیں آسکے گی اور کبھی نہیں آسکے گی جب تک کہ میرا جادو نہیں ہٹے گا اور میرا انتقام اتنی جلد ہٹنے والا نہیں ہے۔ میں نے اس سے سخت انتقام لیا ہےاور پھر زور دار قہقہہ لگا کر بولا تمہیں پتہ ہے کہ جنات کا انتقام بہت سخت ہوتا ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے حیرت انگیز جن غم کی کیفیت میں ڈوب گیا۔جنات کاانتقام: میں نے حیرت انگیز جن سے پوچھا‘ کیا واقعی جنات کا انتقام بہت سخت ہوتا ہے؟ اور جادو گر بہت ہوتے ہیں؟ اور وہ معاف نہیں کرتے یا بڑی مشکل سے کرتے ہیں؟ وہ ٹھنڈی آہ لے کر کہنے لگا آگ صرف پانی کی مانتی ہے اور کسی چیز کی نہیں مانتی بلکہ ہوا تو آگ کو اور زیادہ بھڑکا دیتی ہے اور پانی صرف اور صرف آنسو ہیں یا اللہ کا کلام یا نبی کریمﷺ کا فرمان ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ کسی چیز کو نہیں مانتے جنات جب بپھر جاتے ہیں نہ ماں کو نہ باپ کو نہ بہن کو نہ بھائی کو نہ کسی ساتھی گرو چیلے کسی کی نہیں مانتے۔ ان کے اندر آگ ہوتی ہے اور انتقام کی آگ ہوتی ہے اور ان کے اندر جلن ہوتی ہے اور انتقام کی جلن ہوتی ہے اور یہ آگ اور انتقام کی جلن اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ یہ ختم نہیں ہوسکتی کبھی بھی ختم نہیں ہوگی حتیٰ کہ جتنا ان کی منتیں کریں گے اور جتنا ان کی زاریاں کریں گے اتنا زیادہ ان کی آگ اور زیادہ بھڑکے گی اور ان کی کیفیت اور زیادہ ہوگی۔
میں حیران ہوا میں نے حیرت انگیز جن سے اگلا سوال کیا میں نے پوچھا کیا آپ مجھے یہ بتاسکتے ہیں کہ جنات میں آخر ایسی کون سی چیز ہوتی ہے جس چیز کے ساتھ وہ اتنا انتقام لیتے ہیں؟ چیونٹی کو ہاتھی اور ہاتھی کو چیونٹی: حیرت انگیز جن کہنے لگا دراصل چونکہ جنات آگ سے بنے ہوئے اور آگ کی طاقت اور آگ کی قوتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں پھر ہر جن کا یہ جذبہ ہوتا ہے کہ یعنی جو شریر جن ہے کہ وہ جادو سیکھے منتر سیکھے اور ایسے منتر سیکھے اور ایسا جادو سیکھے جو کہ صدیوں پرانا جس کی وجہ سے پہاڑ پگھل جاتے تھے‘ زمین سیاہ ہوجاتی تھی جنگلوں میں آگ لگ کر جنگل راکھ بن جاتے ہیں‘ وہ بارشوں کو روک لیتے تھے‘ ایک پھونک سے پہاڑ میں غار بنادیتے ہیں‘ انسانوں کی شکل بگاڑ دیتے تھے‘ چیونٹی کو ہاتھی اور ہاتھی کوچیونٹی بنادیتے تھے۔ پھر یہ ایسا جادو سیکھنے کیلئے بہت لمبے لمبے سفر کرتے ہیں اب بھی بہت پرانے پرانے جن بابے ایسے بیٹھے ہیں جن کی عمر صدیوں اور ان کا علم بہت زیادہ ہے۔ قربان جاؤں اپنے نبی کریمﷺ کی مبارک زندگی پر:پھر یہ ان سے سالہا سال خدمت کرکے علم حاصل کرتے ہیں اور اس علم کا اتنا زیادہ استعمال کرتے ہیں کہ یہ مخلوق کا جینا دوبھر کردیتے ہیں‘ حیرت انگیز جن ٹھنڈی سانس لے کر کہنے لگا میں قربان جاؤں اپنے نبی ﷺ کی مبارک زندگی پر کہ انہوں نے قدم قدم پر ایمان والوں کو دعائیں بتائیں ہیں یقین جانیے! انسان ہماری شیطانی قوتوں کو نہ جانتے‘ نہ سمجھتے ‘ نہ پرکھتے ہیں اگر انسان قوتوں کو جان لیں سمجھ لیں اور پرکھ لیں تو کبھی بھی یہ ایک پل کیلئے بھی مسنون دعا پڑھنا نہ بھولیں۔ انہیں علم نہیں کہ یہ مسنون دعا جو اس وقت کی پڑھنی ہوتی ہے دراصل یہ اس لیے پڑھنی ہوتی ہے کہ ہر موقع پر شریر جنات کی ابلیس نے ڈیوٹیاں لگائی ہوئی ہیں اور ہر موقع پر وہ انسانوں کو کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا کرکے ہی رہتے ہیں مثلاً گھر سے نکلنے کی دعا اگر نہ پڑھے گا تو ابلیس نے شریر جنات اس کے پیچھے لگادینے ہیں۔ جنات کے وار: اس کے ہر کام میں رکاوٹ‘ ہر مشکل‘ ہر پریشانی اس کے سامنے آئے گی اچھے خاصے لوگ اس کے دشمن بن جائیں گے اور اچھی خاصی چیزیں اس کے سامنے آکر اس کا پیچھا نہیں چھوڑیں گی اور یہ بہت زیادہ مشکلات‘ مسائل‘ ناکامیوں‘ پریشانیوں‘ دکھوں اورتکالیف میں الجھ جائے گا۔ اسی طرح کھانے کی دعا ہے اگر کوئی کھانےسے پہلے کھانے کی مسنون دعا نہیں پڑھے گایا کھانے سے پہلے اللہ کا نام نہیں لے گا تو اس کا کھانا یہ ایسا بنادیں گے کہ بظاہر انسان اس میں خوشبو ذائقہ ہر چیز محسوس کرے گا لیکن کھانے کے اندر کی اصل روح وہ نکال دیں گے اور نکال کر اس کھانے کو ایسے بنادیں گے کہ جیسے اس کے اندر نہ کوئی طاقت‘ نہ کوئی قوت ہے اور نہ کوئی انرجی ہے اور یہ طاقت قوت اور انرجی تمام ختم ہوجائے گی۔ کھانا اور شیطانی مزاج: یہ کھانا پھر بیماری‘ تکالیف‘ مسائل اور طرح طرح کی زندگی کی ناکامیوں حتیٰ کہ یہی کھانا پھر شیطانی مزاج پیدا کرے گا‘ رحمانی راستے نہیں دکھائے گا اور شیطانی مزاج کا انداز گناہ‘ بدکاری‘ سیاہ کاری‘ منفی سوچ اور منفی کردار اور منفی راستوں کی طرف لے کر جائےگا۔ جادوگر جنات کن کے سامنے بے بس ہیں!اسی طرح حیرت انگیز جن نے مختلف اور بہت سی باتیں بتائیں اور کہنے لگا کہ یہ شریر جنات ایک تو پہلے سے خود شریر ہوتےہیں دوسرا وہ شریر قسم کےجادو اور ٹونے سیکھ لیتے ہیں اور وہ جادو اور ٹونے ایسے سیکھتے ہیں جو انسان تو انسان انسانوں کے بڑے بڑے گرو بھی ان تک نہیں پہنچ سکتے۔ صرف وہی لوگ اس کا توڑ ضرور کرسکتے ہیں جن کو اللہ کے کلام اور نبی ﷺ کے فرمان کا علم حاصل ہو اور اس کا یقین او راس کی تاثیر حاصل ہو۔ ان کے سامنے یہ لوگ بے بس ہوتے ہیں اور بالکل گلی کا تنکا اور عام اڑتا ہوا ذرہ ہوتے ہیں ورنہ تو یہ پہاڑ آندھی طوفان اور بربادی ہوتے ہیں۔جنات کا جادو کس کس چیز پر ہوتاہے:ابھی بات چل ہی رہی تھی اور حیرت انگیز جن اس بوڑھی جننی کا حال بتانا چاہ رہا تھا جس کو بندریا بنادیا اور جس کے اوپر جادو گر جن نے ترس کھا کر پتھر سے تو اس کی اور غار سے تو اس کی جان بخشی کردی لیکن اس کو بندریا ویسے کی ویسے رہنے دیا گیا۔ حیرت انگیز جن اس داستان کو مزید سنانا چاہ رہا تھا کہ میں نے ایک اورسوال کردیا میں نے پوچھا: یہ بتائیں کہ جنات کا جادو کس کس چیز پر زیادہ ہوتا ہے؟ کہنے لگے: جنات کا جادو اگر آپ انسانوں کا پوچھتے ہیں تو سب سے زیادہ ان کی آنکھوں پر‘ دل پر‘ ناف پر‘ شرم گاہ پر‘ معدے پر‘ جگر پر اور دماغ پر ہوتا ہے‘ آنکھوں پر ان کا جادو یہ ہوتا ہے یا تو آنکھیں کمزور ہوجاتی ہیں یا نظر کمزور ہوجاتی ہے یا آنکھیں خیر نہیں دیکھتیں شر دیکھتی ہیں اور آنکھیں ایسی جگہ جہاں گندگی ہو یا گھٹیا جگہ ہو یا پھر ان آنکھوں کے اندر ماں بہن اور سگے رشتوں کا احساس خیال حیا اور غیرت ختم ہوجاتی ہے۔ پھر یہ آنکھیں وہ نہیں دیکھتیں جو دیکھنا چاہیے بلکہ وہ دیکھتی ہیں جو شیطان اسے دکھاتا ہے اور پھر حیرت انگیز جن دکھی لہجے میں کہنے لگا آپ کے انسانوں میں میں خود کئی واقعات سن چکا ہوں کہ باپ نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ بُرا سلوک کیا اور ان کی عزتوں کو تار تار کردیا۔جناتی جادو‘ بیوی‘ بیٹی‘ ماں‘ بہن سب برابر! وہ دراصل اس انسان کا قصور نہیں ہوتا اس کے اوپر اور اس کی آنکھوں کے اوپر جناتی شیطانی حلقہ اور حصار ایسا ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ انسان اتنا مجبور ہوجاتا ہے کہ جو شیطان اسے دکھاتا ہے بس وہی دیکھتا ہے اس کے سامنے بیوی‘ ماں‘ بیٹی‘ بہن سب برابر ہوتے ہیں اور دوسرا جادو جو شیطان کرتا ہے وہ انسان کے دماغ پر ہروقت منفی سوچیں‘ منفی خیالات اور بس گناہ ہی گناہ برائی ہی برائی‘ انتقام ہی انتقام‘ کینہ ہی کینہ‘ بغض ہی بغض‘ شکوہ شکایت بس دماغ ہروقت اسی کو سوچتا رہتا ہے اور جب ہم معدے پر جناتی شیطانی چیزیں جادو کرتی ہیں تو اس کے پیٹ میں حلال پاکیزہ غذا جانے نہیں دیتے اور اس کی پاکیزہ غذاؤں کے راستوں کو وہ بند کردیتا ہے اور پاکیزہ راستے اس کیلئے دور ہوجاتے ہیں اور پاکیزہ راہیں اس سے ختم ہوجاتی ہیں اور پھر جب اس کی شرمگاہ کے اوپر شیطانی قوتیں شیطانی جادو کرتی ہیں تو اس کی شرمگاہ کی حس بڑھا دیتی ہیں پھر اس کی شرمگاہ حلال راہوں سے ہٹ کر حرام راستوں کی طرف چل نکلتی ہیں پھر اس کی حلال راہوں کی لذت یہ شیطانی چیزیں اس سے چھین لیتی ہیں اور حرام راہوں کی لذت اس کیلئے زیادہ کردیتی ہیں ۔ عورتوں کے وہ اعضاء جن پر جنات جادو کرتے ہیں:پھر اسی طرح جسم کے تمام اعضاء پر اس کا جادو چلنا شروع ہوجاتا ہے اور شرم و حیا میں ڈوب کر وہ حیرت انگیز جن کہنے لگا مجھے شرم آتی ہے میں آپ کے سامنے کیا بیان کروں لیکن اگر بات انسانوں کی چل نکلی ہے تو ایک بات اور بھی کہہ دیتا ہوں کہ عورتوں کے بال‘ نسوانی حسن ‘ چہرہ اور ان کی کمر کا نچلا حصہ یہ چار چیزیں جن پر شیطانی چیزیں اپنی گندی مکروہ اور کالی نظریں بھی ڈالتے ہیں اور گندا اور کالا جادو بھی کرتے ہیں۔ اور ان کا جادو اتنا سخت ہوتا ہے کہ وہ عورت یا بیمار ہوجاتی ہے یا چہرے پر غیرضروری بال‘ دانے‘ کیل مہاسے‘ چھائیاں نکل آتی ہیں۔ بے حیائی‘ بدکرداری‘ فحاشی‘ عریانی:یا پھر اس عورت کے اندر بے حیائی‘ بدکرداری‘ فحاشی‘ عریانی کے ایسے انوکھے جذبات پیدا کردئیے جاتے ہیں‘ وہ اندر سے معصوم‘ نیک حیاء‘ شرم اور بھرم والی ہوتی ہے لیکن اس کا دل دماغ اس کی سوچیں اتنی مکروہ کردی جاتی ہیں کہ اسے اپنے دل دماغ اور سوچوں پر کسی قسم کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا اور وہ ‘وہ کچھ کررہی ہوتی ہے جسے دیکھ کر دیکھنے والا شرما جاتا ہے مگر اسے شرم نہیں آتی۔ کیوں؟ کیونکہ وہ شیطانی چیزیں بے شرم ہوتی ہیں اور وہ شیطانی چیزیں اسے بھی بے شرم بنادیتی ہیں۔
جنات خود جنات سے ڈرتے ہیں:لہٰذا ان کے جادو انسانوں پر بہت زیادہ اور خود جنات پر بھی بہت زیادہ چلتے ہیں اور ایسے زیادہ چلتے ہیں کہ خود جنات اپنے جنات سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں چونکہ بات سے بات چلی تھی میں نے حیرت انگیز جن سے اگلا سوال کیا کہ آپ کے ہاں نیک جنات کی تعداد زیادہ ہے یا شریر بدکار اور گندے جنات کی تعداد زیادہ ہے ۔میرا سوال ابھی پورا ہی نہیں ہوا تھا کہ فوراً بولے نیک جنات کی تعداد ہے لیکن بہت تھوڑی ہے کیونکہ جنات کو آگ سے بنایا ہے اور آگ کے اندر جلن اس لیے ان کی تعداد بہت کم ہے اور جو نیک ہیں‘ وہ واقعی ہی نیک ہیں اس طرح کے نیک ہیں کہ آپ گمان نہیں کرسکتے۔صحابہ‘ تابعی‘ تبع تابعین اور اولیاء جنات: حیرت انگیز جن کہنے لگا: اب بھی میں کئی صحابہ جنات سے ملا ہوں‘ تابعی جنات سے ملا ہوں‘ تبع تابعین جنات تو بہت زیادہ ہیں محدث جنات‘ اولیاء جنات‘ صالحین تو بہت زیادہ ہیں جو اپنے خاندان کے ساتھ اور گروہ کے اور قبیلوں کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کی تعداد حد سے زیادہ ہے اور ان کے اندر نیکی‘ مخلوق کی خیر خواہی‘ انسانیت کیلئے اچھا دل‘ اچھا ذہن اور اچھی سوچ ہے وہ انسانوں کو برا نہیں سمجھتے۔ وہ انسانوں کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے بہت زیادہ اچھا سلوک کرتے ہیں‘ وہ اگر کسی کو بُرے راستے پر جانے لگا ہو تو اس کو اچھی راہوں پر خود لگا دیتے ہیں اور وہ کبھی بھی کسی کو بُری راہوں پر نہیں لگاتے اور بُرے راستوں پر نہیں لگاتے بلکہ وہ ہمیشہ اچھی راہوں پر اوراچھے راستوں پر لگاتے ہیں اور اچھی راہوں اور راستوں پر لگا کر انہیں دل کی دنیا بھی دیتے ہیں‘ من کی دنیا بھی دیتے ہیں اور پاکیزہ دنیا بھی دیتے ہیں اور انہیں ایک اچھا احساس بھی دیتے ہیں وہ بھی کبھی بھی لوگوں کو غلط نہیں دیکھتے‘ نہ غلط سوچتے ہیں بلکہ ان کا دل‘ ان کا ذہن‘ ان کا دماغ‘ پاکیزہ شفاف اور معطر ہوتا ہے۔جنات بڑے مظلوم ہوتے ہیں: یہ بات کہتے ہوئے حیرت انگیز جن کچھ دیر کیلئے خاموش ہوا اور پھر سر اٹھا کر کہنے لگا لیکن یہ نیک جنات ہوتے بڑے مظلوم ہیں کیوں؟ شریر جنات اپنے شریر جادو اور شرارت کے ذریعے ان کو اکثر پریشان کرتے رہتے ہیں لیکن یہ چونکہ قرآن اور نبیﷺ کے فرمان کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں یہ قرآن اورنبی ﷺ کے فرمان کے ذریعے اپنا دفاع کرتے رہتے ہیں لیکن یہ شریر جنات ہمیشہ ان کے ساتھ شرارت کرتے رہتے ہیں‘ انہیں دکھ پہنچاتے رہتےہیں انہیں تکلیف پہنچاتے رہتےہیں‘ کیوں کہ یہ بدمذہب ہوتے ہیں اور نیک جنات کے ساتھ ان کا حسد‘ کینہ‘ بغض حد سےزیادہ بڑھا ہوتاہے اور اس بڑھے ہوئے حد سے زیادہ بغض کی وجہ سے ان کا ہر لمحہ‘ ہر لحظہ‘ بہت زیادہ‘ بہت زیادہ‘ بہت زیادہ اور بلکہ بہت ہی زیادہ نفرت اور کینے میں گزرتا ہے۔ شریر جنات میں رحم نہیں:یہ کبھی بھی نیک جنات کی زندگی کو آسودہ نہیں دیکھ پاتے بلکہ ان کی چاہت ہوتی ہے کہ نیک جنات بھی ہماری طرح ہوجائیں اور ہماری طرح بدکاری‘ شرارت اور گناہوں کی زندگی گزاریں۔ میں نے حیرت انگیز جن سے پھرپوچھا: نیک جنات بھی ایسے ہی مظلوم ہوتے ہیں جیسے نیک انسان؟کہنے لگے: نہیں انسانوں پر وہ ظلم نہیں ہوتا اگر کوئی انسان دوسرے انسان پر ظلم کرتا ہے اس کا بدلہ لینے والے بھی ہوتے ہیں یا اس کے اندر کوئی ترس نام کی چیز آبھی سکتی ہے‘ انسان کے اندر تو ترس نام کی چیز تو ہوتی ہے‘ بڑے سے بڑا ظالم آخری عمر میں توبہ کرلیتا ہے یا کسی اللہ والے کےہاتھ پر توبہ کرتا ہے یا اسے کبھی احساس ہوتا ہے کہ میں نے اتنے گناہ کیے‘ اتنے ظلم کیے‘ اتنی زیادتیاں کیں اور ان گناہ ظلم اور زیادتیوں کی وجہ سے میں نے مرنا بھی ہے اور میرا حساب کتاب‘ اللہ کی پکڑ‘ ناراضی سب کا احساس اسے ہوتا ہےلیکن جنات کے ہاں معاملہ بالکل برعکس ہے ‘موت‘ مرنا‘ قبر‘ آخرت‘ جنت‘ جہنم‘ پل صراط‘ میزان‘ عذاب‘ حساب و کتاب‘ اللہ کی پکڑ‘ اللہ کی ناراضگی سب ان کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں کہ جب یہ شیطان بنتے ہیں تو سوفیصد شیطان بن کر شیطانیت ان پر غالب ہوتی ہے اور دن رات شیطانی راستوں پر چلتے ہیں اور شیطانی راہوں پر ان کا ہر لمحہ‘ ہر لحظہ گزرتا ہے۔
جنات کی دنیا پراسرار مگر عبرت انگیز:حیرت انگیز جن مزید کہنے لگا جنات کی دنیا جہاں بہت پراسرار ہے وہاں بہت عبرت انگیز بھی ہے کیونکہ جنات کی دنیا نے انسانوں کو بہت زیادہ پریشان کیا ہوا ہے اور متاثر کیا ہوا ہے؟ بعض اوقات بعض انسانوں کو میں بہت بڑی بڑی بیماریوں‘ تکالیف‘ خطرناک مشکلات اور مسائل میں دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ انسان اتنی مشکل میں اتنی پریشانیوں میں اور اتنے دکھوں اورتکالیف میںہیں اور اتنے غموں میں ہیں تو مجھے انسان بہت مظلوم نظر آتے ہیں اور ان کے دکھ درد مجھے حد سے زیادہ اندر ہی اندر کھاتے ہیں اور اندر ہی اندر وہ دکھ درد مجھے کاٹتے ہیں۔ اے کاش! میرے اندر طاقت اور صلاحیت ہوتی: اے کاش میرے اندر طاقت ہوتی‘ میرے اندر قوت ہوتی یہ بات کہتے ہوئے حیرت انگیز جن پھر رو دیا‘ اے کاش میرے اندر وہ صلاحیت ہوتی میں کسی دکھیارے کا دکھ بانٹ لیتا‘ کسی غمزدہ کا دکھ اور پریشانی ختم کردیتا‘ کسی کی مشکل میں اس کا ہاتھ بٹا دیتا اور کسی کے مسئلے کو میں سلجھا دیتا اور کسی کے غم کو میں ہٹا دیتا ‘اے کاش! کوئی ایسا لمحہ ہوتا کہ جس میں ان ظالم جنات کے ظالم جادو کو میں توڑ دیتا اور ان کے جادو سے جتنی بھی ظلمت پھیلی ہے وہ میں زمانے سے ہٹا دیتا اور وہ حیرت انگیز جن سسکیاں لینے لگا اور اس کی سسکیاں بڑھ گئیں۔انسانوں میں بڑھتے طلاق کے واقعات اور جنات: ہم نے اسے تسلی دی اور تسلی دے کر کہنے لگا :ایک اہم بات ایسی ہے بہت غمزدہ بات ہے جو میرے اندر سے نکل نہیں پارہی‘ میں نے پوچھا کیا ہے؟ کہنے لگے: اصل بات یہ ہے کہ میرا دل گواہی دے رہا کہ میں سارا دن جو مسائل اور مشکلات دیکھتا ہوں اور پھر کہا کہ طلاق بہت بڑھ رہی۔ اس طلاق کے پیچھے ان شریر اور شیطانی جنات کا بہت زیادہ دخل ہے‘ یہ پہلے دن سے بیٹی والوں کے خاندان اور بیٹے والے کے خاندان میں ایک شیطانی جال بچھاتے ہیں کہ رسم ورواج‘ گانا بجانا‘ فضول خرچی‘ چاہے پیسہ قرضے میں لے کر یا سود پر لے کر پھر وہاں کی نحوست شروع ہوتی ہےا ور وہ نحوست پھر شادی کے بے جا فضول خرچ رسم و رواج اور لوگوں کا دل توڑ کر شادی ہوجاتی ہے پھر وہ شادی خیر کا ذریعہ نہیں بنتی اب ان کے شیطانی جال وہاں بھی اپنا سلسلہ شروع کرتے ہیںاور ان جالوں کے ساتھ ان کو آپس میں الجھا دیتے ہیں‘ ان کےدلوں میں نفرت ڈال دیتے ہیں‘ ان کے دلوں میں بدخواہی ڈال دیتے ہیں اورایک دوسرے کی اچھی عادات کو برا دکھاتے ہیں پھر ان کی آنکھوں پر ‘پھر ان کی عقل دماغ پر جادو کرتے ہیں ‘آنکھوں میں اچھائیاں نظر نہیں آتیں‘ اچھائیاں برائیاں بنا کر دکھادی جاتی ہیں‘ جب اچھائیاں برائیاں بنا کر ان کو دکھادی جاتی ہیں پھر نفرتوں کا انوکھا جال ان کو دکھایا جاتا ہے‘ پھر یہ ا نوکھا جال ایسا دکھاتے ہیں کہ نفرت ہی نفرت نظر آتی ہے یا ان کو خامیاں ہی خامیاں نظر آتی ہیں‘ ان کو خوبیاں ہرگز ہرگز نظر نہیں آتیں۔ پھر یہ میاں بیوی کو لڑاتے ہیں پھر آخر کار طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے جب طلاق دلوا دیتے ہیں پھر ان کا اگلا جال شروع ہوتا ہے‘ پھر ان کے اگلے جال میں دونوں کو غصہ کے ساتھ ساتھ ندامت دیتے ہیں‘ نہیں ہم نے غصہ میں طلاق دی تھی پھر ان کو ساری زندگی حرام زندگی پر رہنے پر آمادہ کرتے ہیں پھر وہ ساری زندگی حرام زندگی گزار کر حرام راستوں کی طرف چلتے ہوئے مر جاتے ہیں۔ ایسے جنات مجھے بہت اچھے لگتے ہیں:پراسرار جن کی باتیں مجھے کھائے جارہی تھیں اور میرے ایک ایک پل کواذیت ناک کررہے تھے کہ حیرت انگیزجن کی زندگی کیا ہوگی‘ اس کے پاس کتنی معلومات ہیں اور اس نے اپنی معلومات کو کہاں کہاں سے اکٹھا کیا ہے یہ معلومات نہیں ہیں‘ یہ تو ایک انوکھے راز ہیں اور جن انوکھے رازوں کو ایک ایک کرکےاس جن نے بیان کیا‘ ابھی تو نامعلوم اس جن کے پاس کتنے جناتی‘ انسانی‘ لاہوتی‘ مالاکوتی اور پراسرار راز ہوں گے میں تو تھوڑے رازوں کو اس سے پوچھ سکا ‘ورنہ معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ اس جن کے پاس رازوں کا بہت بڑا خزانہ ہے۔ یہ سیلانی اور جہاں دیدہ جن ہے اور یہ جہاں گشت مزاج کا جن ہے بس یہ جن ہروقت پھرتا رہتا ہے اورمعلومات اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ایسے جنات مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ میرے ہاں جنات کا آنا جانا عمومی طور پر بہت ہے‘ اپنے غم و مشکل کیلئے بھی آتے ہیں اپنے مسائل اورمشکلات کیلئے بھی آتے ہیں‘ اپنی پریشانیاں اور غم لے کر بھی آتے ہیں لیکن مجھے وہ جن جو مجھے انسانیت کیلئے باتیں بتا کر جائیں۔ وہ مجھے معلومات کا خزانہ دیتا چلا گیا: جس سے لوگوں کو نفع ہو انسانیت کو فائدہ ہو جس سے دکھ درد مسائل پریشانیاں دور ہوں‘ ان کے مسائل حل ہوں ان کی تکالیف اور غم دور ہوجائیں‘ یہ غم اور دکھ اتنے دور ہوجائیں کہ بس سکھ ہی سکھ‘ سکون ہی سکون اورراحت ہی راحت ملے۔ مجھے ایسے جن بہت اچھے لگتے ہیں جو مجھے ایسے گر بتائیں‘ ایسے راز بتائیں اور ایسی زندگی کا انداز بتائیں جن رازوں سے دکھ دور ہوں اور جن رازوں سے پریشانیاں دور ہوں اور جن رازوں سے مسائل حل ہوں اور مشکلات پریشانیاں ختم ہوں۔ اس لیے میری جہاں اور جنات سے دوستی ہے میری تھوڑی ہی عرصہ میں حیرت انگیز جن سے ایسی دوستی ہوگئی کچھ اس کے اپنے مسائل تھے جومیرے ذریعے حل ہوئے‘ کچھ اس کی گھریلو زندگی کی تکالیف تھیں جس میں میں نے اس کی مدد کی جس کی وجہ سے یہ میرے اور قریب آیا اور اتنا قریب آیا کہ میں خود بھی حیران ہوا اور یہ معلومات کا خزانہ دیتا چلا گیا اور معلومات کے خزانے میں اس نے بہت کچھ دیا۔میں اور میرے دیگر ساتھی جنات حیرت انگیز جن کی یہ ساری باتیں سن رہے تھے
آئیے! دوبارہ غم کی داستان سنتے ہیں:حیرت انگیز جن پھر مجھے بوڑھی جننی کی غمزدہ بات بتانا چاہتا تھا جس کو بندریا بنا دیا‘ میں درمیان میں بار بار سوال کررہا تھا اصل میں وہ ساری داستان ایسی غم کی داستان تھی‘ مجھے خود کھائے جارہی تھی اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ اب میں اس سے غم کی داستان اور مزید نہ سنوں لیکن میں پھر بھی اس کو کرید بیٹھا اور میں نے کہا اچھا اب آپ بتائیے اس بوڑھی جننی نے اور کیا غم بتائے۔ تو وہ کہنےلگا: اس سردار کے مجمع میں وہ بوڑھی عورت بولے جارہی تھی اور اس کو اونچی آواز میں سردار کے دو جن بیان کررہے تھے کہ سارا مجمع انسانوں اور جنات کا وہ سن رہا تھا‘ وہ بڑھیا کہنے لگی: میں سالہا سال سے بندریا کی شکل میں گھر میں رہی گھر والوں نے میری خدمت کی اور گھر والوں نے مجھے عزت دی میں ان کی بڑی تھی ہروقت مجھے دیکھ کرروتے تھے اور میں ان کو دیکھ کر روتی تھی ‘میں ان سے بات نہیں کرسکتی تھی پر ان کے غم ان کے احساسات ان کے دکھ ان کے مسئلے اور ان کی مشکلات کو ہر پل دیکھتے ہوئے روتی رہتی تھی ا ور سسکتی رہتی تھی اور میرا یہ رونا اور میرا یہ سسکنا حد سے زیادہ بڑھا ہوا تھا‘ بس میرے پاس ایک یہی کام تھا‘ دن رات رونا‘ دن رات سسکنا اور دن رات اپنے آپ کو کوسنا ‘یااللہ میرا کون سا ایسا گناہ تھا‘ میری کونسی ایسی غلطی تھی جس کی پکڑ میں آئی ہوں پھر میرے اندر ایک تسلی کی آواز آتی کہ نہیں میری بندی تو کوئی ایسی گناہ گار نہیں‘ ایسی بدکار نہیں۔ عنقریب تیرے غم کا خاتمہ: ہماری اس دنیا میں فرعون بھی ہوں گے اور موسیٰ بھی ہوں گے اور ہم نے ہمیشہ ہرفرعون کو ڈھیل دی ہے‘ شاید یہ توبہ پر اور رجوع پر آجائے لیکن فرعون سمجھتا ہے کہ شاید ابھی مجھے بہت دیر ہے اور فرعون اپنی فرعونیت پر ہمیشہ ڈٹا رہتا ہے اور میرے اندر ایک آواز آتی تھی کہ عنقریب تیرا غم ختم ہوجائے گا‘ عنقریب تیرا دکھ ختم ہوجائے گا‘ عنقریب تیری مشکل حل ہوجائے گی اور اللہ کا ایسا نظام چلے گا کہ تجھے پھر جناتی شکل دے دی جائے گی اور اس جن کا انجام بہت بُرا ہوگا ‘وہ بڑھیا جننی غم کے آنسوؤں کے ساتھ‘ سسکیوں کے ساتھ بولتی جارہی تھی‘ اس کے منہ سے الفاظ نکل رہے تھے وہ بولی کہ ابھی چند دن پہلے جب آپ نے اس جادوگر کو پکڑا ہے اور اس کا جادو توڑا ہے‘ اچانک گھر میں بیٹھے میری زنجیر ٹوٹ گئی‘ میرا جسم واپس اپنی حالت میں آگیا اور میں ایک پل میں اپنے اصل روپ میں آگئی۔ میرے گھر والے حیران ہوئے‘ مجھے خوش ہوکر ملنے لگے اور پھر اچانک ایک اعلان ملا کہ سردار کے ہاں سب دکھیارے جنہیں اس جادوگر جن نے متاثر کیا اور پریشان کیا‘ اکٹھے ہوجائیں اور اپنے غم کی کہانیاں سنائیں تو میں بھی اپنے غم کی داستان سنانے کیلئے آپ کے پاس آئی ہوں‘ سردار جن یہ غم کی داستانیں اورغم کی کہانیاں سن رہا تھا اور اس کا دل بار بار پگھلا جارہا تھا‘ محسوس ہورہا تھا کہ وہ اندر سے بہت خوفزدہ ہے اور بہت پریشان ہے اور اس کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی۔میں اب اس قابل ہوں کہ سزا دے سکوں: وہ سردار جن بے بسی سے اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا اور محسوس ہورہا تھا کہ اس کے منہ میں خون ہے اور وہ اپنے خون میں خود رنگین ہورہاتھا اور ایک احساس ہورہا تھا کہ سردار جن مزید غم کی داستان سننے کا متحمل نہیں لیکن اس کا انداز بتارہا تھا کہ نہیں مجھے غم سننا ہے‘ مجھے درد سننا ہے میں ان کا بادشاہ ہوں یہ میری رعایا ہے ان کی حفاظت مجھے کرنی تھی میں بےبس تھا لیکن دل میں درد ضرورتھا‘ احساس ضرور تھا یہ درد اور احساس آخر کار میری مدد کا ذریعہ بنا اور میرا ایک ادنیٰ سا خادم جو کہ میرے جانوروں کا گوبر اکٹھا کرتا تھا وہی حاجیوں کے مبارک بول کی وجہ سے اس جادوگر کے جادو کے توڑ کا ذریعہ بنا‘ اس جادوگر کا جادوٹوٹا ہے جس کی وجہ سے میں اس قابل ہوں کہ اس ظالم کو سزا دے سکوں۔ بادشاہ نے یعنی سردار نے اعلان کیا کہ ہم سب لوگوں کا غم سنیں گے ایک انسان کا ایک جن کا۔ اب ہم نے ایک انسان اور جن کا سن لیا اب پھر کوئی ایک انسان اپنا غم سنائے ۔
طالب علم اور لڑکی کاعشق:ایک نوجوان کھڑا ہوا بہت خوبصورت نوجوان‘ عمر اس کی بیس بائیس سال قد کاٹھ بہت اچھا لیکن عجب بات یہ تھی اس کی بھنوؤں کے‘ چہرے کے‘ مونچھوں کے اور بدن کے بال نہیں تھے‘ ایک طرف اس کی خوبصورتی اور حسن اور دوسری طرف اس کے بالوں کا نہ ہونا اس کے حسن کو داغدار کررہا تھا۔ وہ کہنے لگا کہ میں ایک طالب علم تھا کہ مجھے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی‘ حالانکہ میرا گھرانہ شریف خاندانی اور وضع دار گھرانہ ہے بس غلط صحبت نے مجھے ایک لڑکی سے محبت دے دی‘ میں اس کی محبت میں ایسا مبتلا ہوا کہ ہروقت اس کی یادوں میں ڈوبا رہتا تھا اور ہروقت اس کی یادوں میں الجھا رہتا تھا ‘میں انہی یادوں میں ایسا الجھا کہ میں ساری دنیا جہاں کو بھول گیا اور دنیا جہاں کی سب داستانیں مجھ سے ختم ہوگئیں‘ میری تعلیمختم ہو گئی۔جو مراد ہو وہ پوری کرتی ہے: میری تربیت میں فرق آیا‘ میں دن رات بس اسی سوچ میں تھا کہ اس لڑکی سے میری شادی ہوجائے‘ ایک دو دفعہ میں نے اس سے اظہار کیا محسوس ہوا اس نے اس کو بُرا محسوس کیا کہ وہ بھی ایک شریف خاندان کی بیٹی تھی‘ مجھے کسی نے بتایا ایک عورت ہے جو دھاگوں‘ بالوں اور گوشت پر عمل کرتی ہے جس کی جو مراد ہو وہ پوری ہوجاتی ہے اور منہ مانگے پیسے لیتی ہے جو اس کو پیسے دے دے اس کا کام ہوجاتا ہے‘ اس کے پاس ایک جن تابع ہے جواس کاکام کردیتا ہے‘ میں اپنے والدین کو کوکوئی بہانہ بنا کر دوسرے شہر میں اس عورت کےپاس پہنچا۔اس کے پاس لوگوں کا رش لگا ہوا تھا اور ہر بندہ یہی کہتا ہے کہ یہ منہ مانگے پیسے مانگتی ہے‘ ہم بہت سارے پیسے لائے ہیں‘ جتنےوہ پیسے کہے گی ہم دے دیں گے مگر ہمیں اپنا مطلب چاہیے ان میں سے نوے فیصد لوگ ایسے تھے جو دو نمبر کام کرانے کیلئے آئے ہوئے تھے اور مشہور تھا کہ اس عورت کوصرف پیسے سے غرض ہے۔جوان حسین‘ شکیل مگر ظالم جادوگرنی: جب میں گیا تو پتہ چلا کہ وہ بوڑھی عورت نہیں وہ تو ایک جوان حسین اور شکیل عورت ہے جو یہ کام کرتی ہےا ور بہت ڈنکے کی چوٹ پر دعوے بھی کرتی ہےا ور رقم بھی مانگتی ہے اور بیٹھے بٹھائے اس کے سامنے تعویذ گرنا شروع ہوجاتے ہیں‘ اگر کسی سے ناراض ہوجاتی ہے تو بیٹھے بٹھائےجوتا خودبخود اٹھتا ہے‘ اس کے جسم اور سر پر لگنا شروع ہوجاتا ہے‘ پھر اس کی چیخیں ہوتی ہیں اور وہ بندہ کہیں بھاگ نہیں سکتا اور دوڑ نہیں سکتا اور فرار نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اس کے جادو کی گرفت میں ہوتا ہے۔ بربادیوں کی بارش:وہ جادو اس کو ایسے انداز سے متاثر کررہا ہوتا ہے کہ یہ شخص اس کے جادو کی پوری گرفت میں ہوتا ہے اس کی سزا بھی بہت خطرناک ہوتی ہے اور اس عورت کاپیار بھی بہت خطرناک ہے جس پر فدا ہوجاتی ہے اپنی عنایات کی بارش کردیتی ہے اور جس سے ناراض ہوتی ہے اس پر بربادیوں کی بارش کردیتی ہے اور ہر کہنے والا یہ کہتا ہے کہ اس کے اوپر جادو گر جنات کا ہاتھ ہے یا کوئی کہتا ہے کہ اس نے بہت جنات تابع کیے ہوئے ہیں‘ کوئی کہتا ہے اس کے پاس ہمزاد ہیں‘ کوئی کہتا ہے کوہ قاف کی کچھ پریاں ہیں جو اس کاکام کرتی ہیں‘ کوئی کہتا ہے اس نےایک غار میںاکتالیس کتوں کی کھوپڑیوں پرننگی بیٹھ ایک چلہ کیا تھا چالیس دن کے بعد اس کو یہ قوت اور طاقت مل گئی‘ جتنے منہ اتنی باتیں‘ میں خاموش بیٹھا دیکھتا رہا اور لوگوں کے حالات بھی سنتا رہا۔ میں اپنے گھر والوں سے چھپ کر آیا تھا میرا اپنا ذریعہ آمدن نہیں تھا میں نے اپنے ایک دوست سے بہت بڑی رقم اپنے تعلیمی اخراجات کا بہانہ کرکےا دھار لی تھی ہاں بولو تم کیا چاہتے ہو؟ جب میری باری آئی تو مجھ سے کہنے لگی ہاں بولو تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے اس سے اپنا منشا بیان کیا ۔ میری بات سنتے ہی اس نےقہقہہ لگایا اور کہا میں نے سمجھا کوئی بہت بڑا کام ہے‘ وہ لڑکی ‘اس کے ماں باپ تمہارے قدموں میں ہوں گے اور تمہارے ماں باپ بھی تمہارے قدموں میں
ہوں گے اور تم شادی کرلو گے اتنی رقم لوں گی اور تمہیں ایک عمل بتاؤں گی باقی کام تمہارا خود کروں گی‘ میں راضی ہوگیا اور خوش ہوگیا کیونکہ جتنے بھی لوگ تھے سب کہہ رہے تھے ‘یہ جو بولتی ہے‘ وہی ہوجاتا ہے جو فیصلے کرتی ہے اس فیصلے کو کوئی توڑ نہیں سکتا‘ اس نے ایسے اوپر ہاتھ کیے‘ نیچے ایک تعویذ گرا اس نے وہ تعویذ اٹھایا اور کہنے لگی: اس تعویذ کو جس لڑکی سے تم شادی کرنی ہے اس کے گھر کے قریب اس کی دیوار میں یا کہیں بھی دفن کردو ۔ دوسراعمل تھا کہ اس نے ایک خنزیر کی ہڈی دی اورخنزیر کی ہڈی دے کر وہ خاتون کہنے لگی جب بھی کچھ کھانا ہے پینا ہے اس ہڈی کو اپنے کھانے پینے میں صرف ہلا دیا کرو جیسے چمچ ہلاتے ہیں‘ میں نے وہ ہڈی لے لی اور میں نے پوچھا ایسا کیوں کرنا ہے؟ جا تیرے اوپر میں نے اپنا جن مسلط کردیا:اس کا غصہ اور جلال‘ کہنے لگی تم نے یہ کیوں پوچھا؟ تمہیں اپنے کام سے غرض ہے‘ میں نے کہا؟ خنزیر تو حرام ہے اس کی ہڈی حرام ہوگی میں جس چیز میں اس کو ہلاؤں گا وہ چیز بھی حرام ہوجائے گی ‘بس اس کا غصہ ایسا کہ اس نے مجھ سے تعویذ واپس چھین لیااور میرے پیسے مجھے واپس نہ دئیے اور کہنے لگی کہ جا تیرے اوپر میں نے اپنا جن مسلط کردیا ہے‘ تم نے بہت بڑے مجمع میں میری بات کو چیلنج کیا ہے‘اس عورت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے: میں تمہیں اس کی عبرتناک سزا دوں گی اور عبرتناک انجام اور سزا ایسی ہوگی کہ تمہیں لوگوں کیلئے عبرت بنادوں گی‘ لوگ دیکھ کر تجھ سے عبرت حاصل کریں گے اور تو لوگوں کو بتاتا پھرے گا کہ اس عورت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے‘ اس عورت کے جادو کو دنیا کی کوئی طاقت توڑ نہیں سکتی اور اس عورت کی بات نہ ماننے والے کا انجام یہی ہوتا ہے اور اس عورت کے سامنے بولنے والے کو لوگ عبرت کی نظر سے دیکھتے ہیں میں تھکا ماندہ واپس آگیا‘ وہاں لوگ کہنے لگے تو بھی پاگل ہے‘ اب بھی جاکرمعافی مانگ لے تجھے معاف کردے گی نامعلوم حلال رزق میرے اندر تھا یا گھر کی تربیت‘ گھر کا روحانی ماحول‘ ماں باپ کی ہروقت حلال راہوں کی طرف نصیحت‘ بس میری جوانی کے جذبات تھے میرا الہڑ پن اور کیفیات تھیں جو مجھے بہکا کریہاں لے گئیں ۔ عاشق ضرور ہوں مگر: میرے اندر سے وہی چیز نکلی جو والدین نے ڈالی ہوئی تھی۔ میں ایک پل میں سن ہوگیا اور پھر میرے قدم وہاں سے ہٹنا شروع ہوگئے‘ میں نے کسی کی کوئی بات نہ سنی‘ میں نے سوچا:شادی ہو یا نہ ہو کیا ایک عورت کی خاطر میں اپنا ایمان بھی کھوبیٹھوں‘ میں جوان ضرور ہوں ‘میں عاشق ضرور ہوں لیکن بےغیرت نہیں ہوں‘ بے ایمان نہیں ہوں اور میرا اندر اور میرا من کہتا ہےیہ عورت خود شیطان ہے‘ بس یہ سوچیں تھیں اور اپنے اوپر ندامت بھی اور اپنے آپ کو کوسنا تھا‘ کیا تیرے ماں باپ نے تجھے یہی راستہ‘ یہی منزل دی تھی‘میں رو رہا تھا اور غمزدہ واپس آیا۔ تو میری محبوبہ ہے!میری سوجی آنکھیں دیکھ کر میری ماں کہنے لگی کیا ہوا کیوں روتا رہا میں نے اپنی ماں کو بہانا بنا کر ٹرخا دیا جب رات کو سویا تو رات کو انوکھا خواب دیکھا میں اس عورت کے پاس اسی جگہ بیٹھاہوں‘ وہ مجھے خنزیر کی ہڈی دے رہی ہے‘ اسی دوران طاقتور جن آیا جس کی شکل بہت خطرناک تھی‘ آنکھوں سے ‘زبان سے‘ منہ سے‘ شعلے نکل رہے تھے جب وہ بولتا تھا ایسے تھا جیسے اس کے منہ سے انگارے نکل رہے ہیں‘ اس جن نے اس عورت سےکہا تو میری محبوبہ ہے اور یہ میری محبوبہ کی بات نہیں مانتا‘ میں اس کا انجام تمہیں دکھاؤں گا۔ اس کو عبرت کا پیغام ملنا چاہیے: وہ جادوگر عورت ہنس پڑی‘ کہنے لگی :ٹھیک ہے تم جانو ‘تمہارا کام‘ اس کو عبرت کا پیغام ملنا چاہیے۔ اس کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے باندھ دیا ‘میرے ہاتھ اور پاؤں باندھ دئیے اور کسی طاقتور چیز سے میرے جسم کے ایک ایک بال کو بہت بے دردی سے اکھاڑا جاتا تھا ‘میری چیخیں نکلتی تھیں اور وہ چیخیں بہت دردناک ہوتی تھیں ‘ میری ایک آنکھ کے اوپر کی تمام بھنویں اتار دی گئیں کہا کہ چھوڑ دیا ‘ اگلی رات ہم تمہیں مزید اذیت دے دے کر‘ ہم تمہیں مزید سسکا سسکا کر‘ یہ سب کچھ ختم کریں گے اور تمہارا ایک ایک بال جسم سے اکھاڑ دیں گے اور یہ بال ایسے اتریں گے کہ جس کے بعد ہمیشہ کیلئے تمہیں اپنے جسم پر بال نظر نہیں آئیں گے اور تمہارا جسم ہم فنا کردیں گے اور تمہارے حسن و جمال کو بدصورتی میں بدل دیں گے اور جس حسن کا تمہیں مان ہے اور جس حسن کی وجہ سے تمہیں لوگ دیکھ کر ٹھٹک جاتے ہیں اتنا بدصورت اور بدشکل بنادیں گے کہ تمہیں کوئی دیکھنا گوارا توکیا پسند بھی نہیں کرے گا۔کیسے ممکن ہے کہ توحرام کی طرف جائے: بس وہ رات شدیداذیت میں گزاری‘ صبح اٹھا تو میں نے دیکھا کہ میری آنکھ کے اوپر کی بھنویں بالکل غائب تھی‘ مجھے جلن محسوس ہورہی تھی میری چیخوں کی آواز گھر والوں کو سنائی دی‘ ماں نے دیکھا اور پوچھا یہ کیا ہوا؟ میں نے رات کا واقعہ روتے روتے من وعن سنا دیا‘ ماں نے مجھے سینے سے لگایا‘ تسلی دی اور کہنے لگی بیٹا ساری زندگی تیری ماں نے حرام راستے نہیں دیکھے‘ حرام راہیں نہیں پائیں اور حرام زندگی کو چھوا نہیں‘ کیسے ممکن ہے کہ تو حرام کی طرف جائے اور حرام زندگی کو تو پائے‘ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا‘ کوئی بات نہیں‘ ایک بابا جی ہیں‘ میں ان کے پاس تجھے لے جاؤں گی‘ وہ اس جن کا پورا علاج کردیں گے‘ صبح ہی میری والدہ مجھے اسی بابا کے پاس لے کر چلی گئی وہ بابا کوئی جہاں دیدہ شخص تھا ‘تاجر سوداگر اور لالچی نہیں تھا اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ اس پر ایک طاقتور جادوگر جن کا بہت سخت قسم کا اثر ہے اور اثر ایسا ہے جو کسی چیز سے نہیں جاسکتا اس کیلئے ایک ایسا چلہ کاٹنا پڑے گا جو کہ ا ٓیۃ الکرسی کا چلہ ہے اس کیلئے روزانہ پانچ ہزار بار آیۃ الکرسی پڑھنا ہوگی‘ دن کو روزہ رکھنا ہوگا‘ مونگ کی دال بالکل پھیکی کھانا ہوگی‘ گوشت بالکل نہیں کھانا‘ سوتی لباس پہننا ہوگا اور لکڑی کی تھالی‘ جَو کی روٹی ہو اس سے کھانا کھائیں اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہ کھائیں چالیس دن کا یہ عمل ہوگا تب جاکر اس جوان کا یہ جادو ٹوٹے گا ورنہ دن بدن اس کا جادو بڑھتا چلا جائے گا اور کوئی اس کے جادو کو توڑ نہیں سکے گا۔ وہ مجھے تڑپا کر خوش ہوتا:یہ ناممکن بات ایسی تھی جو ہم نہیں کرسکتے تھے‘ بابے نے معذرت کا اظہار کیا والدہ کو کسی نے ایک اور ملنگ کا پتہ بتایا میری والدہ اس کے پاس لے گئی‘ اس کی شکل و صورت سے محسوس ہورہا تھا کہ وہ تاجر ہے ‘اس نے بہت زیادہ پیسے مانگے میری والدہ کے سامنے اولاد تھی انہوں نے پیسے دے دئیے اس نے تعویذ اور کچھ ایسی چیزیں دیں اورکہا جاؤ کام ہوجائے گا آٹھ دن کے بعد پھر آنا۔جادوگر جن کاانسانوں سے حسد: مگر اسی رات پھر وہ جن مسلط ہوا‘ اس نے دوسری آنکھ کی بھنویں ایک ایک کرکے ختم کیں‘ ہر بال اتنی طاقت سے کھینچتا کہ خون نکل آتا‘ میری چیخیں نکلتی تھیں وہ مجھے تڑپاتا تھا اور خوش ہوتا تھا اور کہتا کہ میں انسانوں پر اس لیے مسلط کیا گیا ہوں کہ انسان جنات کے بعد آئے ہیں اور انسانوںنے ہماری زمین پر قبضہ کرلیا ہے اور انسانوں کو چاہیے کہ وہ جنات کواپنا(نعوذ باللہ) خدا مانیں اور جنات کو اپنا (نعوذ باللہ) نبی مانیں۔ میں وہ طاقت ور جن ہو جوتیرے جسم کے ایک ایک بال کو اکھیڑوں گا اور اتنا طاقتور جادو کروں گا کہ کبھی بھی بال واپس اگنے نہیں دوں گا۔اذیت کی انتہا تھی: بس میرے ساتھ روز یہی سلسلہ ہوتا تھا‘ میرے سر کے ایک ایک حصے سے روز بال نوچے جاتے اور اذیت کی انتہا تھی‘ میرا کھانا پینا چھوٹ گیا ‘میرا دماغ کمزور ہوگیا ‘میری نظر ختم ہوگئی‘ میری تعلیم معکوف ہوگئی‘ میری ماں روز روتی تھی‘ میرا باپ مجھے دیکھ کر کڑھتا اور جلتا تھا اور اپنے آنسو ضبط نہیں کرسکتا تھا۔ مجھے روز رات کا انتظار ہوتا اور ہر رات خوفناک ہوتی‘ میری کوشش ہوتی تھی کہ نہ سوؤں اور سوتے ہی میرے اوپر اذیت‘ ہیبت ناک اوردردناک عمل شروع ہوجانا تھا اس کے باوجود پتہ نہیں کیوں گہری نیند میں چلا جاتا‘ میرے ماںباپ میرے ساتھ بیٹھے سسکتے اور تڑپتے لیکن وہ بھی نجانےکیوں گہری نیند سوجاتے۔ درد‘ تڑپ‘ جلن‘ بے چینی: اور پھر میرے ساتھ وہی حال ہوتا تھا کہ میرے بال نوچے جاتے تھے اور میری چیخیں‘ میری آہیں اور میرے آنسواور صبح اٹھتے ہی جسم کا وہی حصہ خون آلود ہوتا تھا‘ جہاں سے بال نوچے جاتے تھے درد‘ تڑپ‘ جلن‘ بے چینی ‘یونہی پورے آٹھ ماہ میرے اذیت کے گزرے اور میرےجسم کو تھوڑا تھوڑا کرکے اذیت دی‘ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا ہوں اور میرا جسم کھوکھلا ہوگیا ہے‘ میرے والدین کئی بار اس جادوگر عورت کے پاس گئے‘ آخر کار ایک بار اس جادوگر حسینہ نے کہہ دیا اب تو مجھے تمہارے اوپر ترس آرہا ہے اور میں نے واقعی تمہارے اوپر ظلم کیا ہے‘ مگر اب یہ تیر میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے اب میں یہ تیر واپس نہیں لاسکتی۔ بس یہ وہی جادوگر جن ہے جو اس کو واپس لاسکتا ہے‘ ورنہ میرے بس میں نہیں ہے اور ہم جادوگر جن تک کیسے پہنچ سکتے تھے ہم پھر واپس جاکر اسکی منتیں کرتے لیکن ہماری ہر منت اس کے سامنے کوئی اثر نہیں رکھتی تھی۔ میں ایک زندہ لاش تھا: ایک تو وہ خود ظالم تھی لیکن معلوم ہوتا تھا اس جادوگر جن کے سامنے وہ خود بے بس تھی وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی اب اس ظالم عورت کو ہمارے اوپر ترس آگیا تھا‘ آٹھ مہینے کی رات کی اذیتیں‘ چیخیں !اب تو میری چیخیں بھی ختم ہوگئی تھیں‘ اب تو میرا رونا بھی ختم ہوگیاتھا‘ اب تو میرے آنسو بھی ختم ہوگئے تھے میرے جسم کا انگ انگ ادھڑچکا تھا‘ میرے جسم کے اندر کی تمام کیفیات مردہ ہوگئیں تھیں‘ میں ایک زندہ لاش تھا‘ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اور زندہ لاش اور ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ میرے ساتھ تھا جو چل پھر رہا تھا‘ میرے ماں باپ میرے ساتھ تڑپتے تھے یونہی دن رات گزرتے رہے۔ اس بابے نے جو کہا تھا سچ کہا تھا:ہم نے بہت حل کیے‘ بہت تدابیر کیں‘ ادھر ادھر بھاگ دوڑ کی‘ لوگوں نے پیسے لوٹے پھر وہی اس بابے کی بات یاد آئی جو اس نے کہی وہ کر تو کچھ نہیں سکتا تھا مگر اس نے ہمارے ساتھ دھوکہ فریب نہیں کیا تھا‘ فراڈ نہیں کیا تھا ‘اس نے ہمیں جو بات کہی تھی‘ سچی کہی تھی‘ ہر لفظ اس کا یاد ہے اس جوان کی حالت دیکھ کر حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھیں‘ جس کے اندر آنسو بھرے ہوئے وہ جوان کھڑا تھا‘ مجمع تھا‘ سردار سر جھکائے کبھی کبھی سر اٹھا کر اسے دیکھ لیتا تھا اور خود سے ہی کہتا کہ مجھے خود پر ندامت ہے کہ میری نگری میں اتنے ظلم ہوتے رہے اور یہ ظالم اپنے خطرناک جادو کی وجہ سےاتنے ظلم کرتا رہا۔ وہ جوان ایک عبرت بنا ہوا تھا ہر شخص اسے دیکھ رہا تھا وہی کہرام‘ وہی رونا‘ وہی سسکیاں اور واویلا اور بار بارایک آواز اٹھتی تھی شہنشاہ آقا بادشاہ ہمارے سردار اس ظالم جادوگر کو عبرت کا نشان بنادو‘ اس کو ایسی عبرت بنادو کہ اس کے بعد پوری دنیا میں کوئی انسان یا جنات پرظلم نہ کر سکے‘ اس کو ایسی عبرت بنادیں کوئی جادوگر پھر کوئی ایسی گھٹیاحرکت نہ کر سکے۔ بس یہ ایک غم تھا‘ یہ ایک کڑھن تھی‘ یہ ایک درد تھا ‘ یہ غم اور درد ایسا تھا کہ جو سارے مجمع کو رلا رہا تھا۔ سنگدل‘ سخت دل جنات بھی رو پڑے: لوگوں کی رو رو کر سکت ہی ختم ہوگئی تھی جنات بہت سنگدل ہوتے ہیں لیکن وہ بھی رو رہے تھے اور ان کا رونا بھی لوگوں کے دلوں کو توڑ رہا تھا ‘نہ رونے والی آنکھ بھی رو رہی تھی پتھر سے پتھر دل بھی موم ہوکر پگھل رہے تھے‘ وہ کیا کچہری لگی تھی ‘وہ کیا محفل لگی ‘وہ حکومت کی سلطنت کیا کھلی تھی۔ دکھیاروں کے غموں کا ہجوم: وہ دکھیاروں کے غموں کا ایک ہجوم ایک مجمع کیاتھا کہ اگر ان سب کے آنسو اکٹھے کردئیے جائیں تو ساری دنیا میں دریا بن جائیںاور نہریں بہنے لگیں وہ جوان بولا: آج سالہا سال سے میں اس اذیت میں مبتلا ہوں ‘میں نے بال اگانے کیلئے بہت تدابیر کیں مگر بال نہ اگ سکے‘ میں نے اپنی صحت کو بنانے کیلئے بہت کوشش کی مگر صحت نہ بن سکی۔ میں نے اپنی زندگی سلجھانے کیلئے بہت کوشش کی مگر میرا من تن‘ میری زندگی‘ میرا ایک ایک پل اسی طرح دکھی رہا اور درد بڑھتا چلا گیا۔(جاری ہے)
غم بڑھتا چلا گیا اور میرا درد اور غم ایسا بڑھا کہ میرے اندر کی کیفیات اور زیادہ دردناک ہوگئیں۔ درد کا احساس بڑھ گیا

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 974 reviews.