اب امام صاحب نے ایک ایک کرکے اشرفیاں مکھن میں لگالگاکر سب اشرفیاں کھا گئے کچھ دیر کے بعد کمرے سے باہر آگئے۔ کچھ گھنٹے کے بعد شاید ان اشرفیوں نے اپنا کام دکھایا اور امام صاحب چند گھنٹوں کے بعدفوت ہوگئے۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! یہ مضمون آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں جوکہ آج سے تقریباً چالیس سال پہلے ایک عالم دین چغتائی صاحب جن کا نام میں بھول گیا ہوں یہ عالم دین عدالت میں اسٹامپ فروش اور عرائض نویس تھے نے جمعہ کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے اپنی تقریر میں بہاولپور کی مسجد الفردوس (جوکہ مسجد حافظ گھوڑا کے نام سے مشہور ہے) میں سنایا۔ میں پوری ایمانداری سے جو کچھ ان عالم دین چغتائی صاحب نے سنایا تحریر کررہا ہوں۔ یہ مضمون خاص کر ایسے لوگوں کیلئے عبرت ہے جو اپنی دولت‘ سونا وغیرہ کو جمع کرتے ہیں نہ اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں نہ دوسروں پر بلکہ اس دولت پر ناگ بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔ اور اسی حالت میں انہیں آجاتی ہے۔
ایک عالم دین نے جمعہ کی نماز سے پہلے اپنی تقریر میں یہ قصہ سنایا: پاکستان بننے سے پہلے بہاولپور کی ایک مسجد میں امام مسجد قرآن مجید کی تعلیم بھی دیتے تھے‘ امام صاحب بچوں کو قرآن مجید پڑھاکر اور بچوں کو چھٹی دےکر مسجد کے اس کمرے میں چلے جاتے جس میں ان کی رہائش تھی۔ کمرہ اندر سے بند کرلیتے‘ کچھ گھنٹے کے بعد کمرہ کھول کر کاموں میں مصروف ہوجاتے۔ ان کا ایک شریر شاگردلڑکاروزانہ سوچتا کہ آخر استاد جی اپنے کمرے میں کیا کرتے ہیں‘ دیکھنا چاہئے‘ اس لڑکے نے دروازے میں ایک سوراخ کیا‘ ایک دن یہ لڑکا امام صاحب کے کمرے میں جانے کے بعد اس سوراخ میں سے دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ امام صاحب نے کمرے کی زمین پر سے چٹائی ہٹائی اس کے نیچے گھاس پھونس بھرا تھا انہوں نے اسے بھی ہٹاکر زمین میں سے ایک مٹی کی ہانڈی نکالی اس ہانڈی کو الٹایا تو زمین پر اشرفیوں کا ڈھیر لگ گیا۔ امام صاحب ان اشرفیوں سے کھیلنے لگے جب ان کا کھیل سے دل بھر گیا تو انہوں نے یہ اشرفیاں واپس ہانڈی میں رکھ کر ہانڈی زمین میں اسی جگہ پر رکھ دی اور اوپر سے گھاس پھونس ڈال کر چٹائی زمین پر بچھادی۔ اب روزانہ یہ لڑکا یہ تماشہ سوراخ میں سے دیکھتا ایک دن امام صاحب کو بخار چڑھ گیا‘ امام صاحب نے ایک لڑکے سے بازار سے مکھن منگوایا اور حسب معمول اپنے کمرے میں جاکر کمرہ بند کرلیا۔ ان کے اسی شاگرد نے سوراخ میں سے دیکھا کہ امام صاحب نے ہانڈی نکالی اور زمین پر اشرفیاں الٹیں۔ اب امام صاحب نے ایک ایک کرکے اشرفیاں مکھن میں لگاکر سب اشرفیاں کھا گئے کچھ دیر کے بعد کمرے سے باہر آگئے۔ کچھ گھنٹے کے بعد شاید ان اشرفیوں نے اپنا کام دکھایا اور امام صاحب چند گھنٹوں کے بعدفوت ہوگئے۔ محترم حکیم صاحب! اب ہم مسجد کے پچھلی طرف ایک گلی میں چلتے ہیں: مسجد کی پچھلی گلی میں ایک ہندو بنیا رہتا تھا جس کا کاروبار سود کا تھا اس نے بے شمار مسلمانوں کو سود پر رقم دی ہوئی تھی۔ اتفاق سے یہ ہندو بیمار ہوگیا اس ہندو نے اپنے بیٹے کو بلاکر اس سے تمام سودی کھاتے منگوائے‘ لڑکا بہت خوش کہ باپ اپنے آخری وقت میں یہ تمام سودی کھاتے بیٹے کے حوالے کردے گا۔ اس ہندو نے اپنے بیٹے کے ذریعہ تمام ان مسلمانوں کو بلوایا جب تمام مسلمان جمع ہوگئے تو اس ہندو نے یہ تمام کھاتے آگ کی نذر کردئیے اور ان مسلمانوں کی تمام رقم اصل معہ سود معاف کردی کے بعد ہندو مرگیا۔ ادھر امام صاحب اشرفیاں کھاکر فوت ہوئے اور اُدھر ہندو مسلمانوں کا اصل معہ سود معاف کرکے مرا۔ ادھر امام صاحب کو قبر میں دفنایا ادھر ہندو کو مرگھٹ میں جلادیا یہ سب ایک وقت میں ہوا۔ اب رات کو یہ مسجد کا طالب علم لڑکا سونہ سکا اس کے دل میں لالچ آگیا کہ کیوں نہ امام صاحب کی قبر کھود کر امام صاحب کے پیٹ میں سے اشرفیاں نکالوں۔ آخر لالچ میں آکر یہ لڑکا قبرستان گیا امام صاحب کی قبر کھودی جب امام صاحب کا کفن ہٹایا تو وہاں امام صاحب کی جگہ وہ ہندوبنیا تھا۔ غیب سے آواز آئی کہ جس چیز کو تو تلاش کررہا ہے اسے مرگھٹ میں جاکر تلاش کر۔ آخر وہ لڑکا بھاگم بھاگ مرگھٹ میں گیا جس جگہ ہندو کو جلایا تھا وہاں راکھ میں ہاتھ مارا تو اسے سونے کی ایک ڈبی ملی جوکہ اشرفیاں آگ سے پگل کر ایک جگہ خراب ہوکر جڑ گئی تھیں۔ اب یہ لڑکا وہ سونا لے کر صبح کو قاضی شہر کے پاس گیا اور تمام ماجرا سنایا اور وہ سونے کی ڈبی بھی قاضی صاحب کے حوالے کردی۔ قاضی صاحب اس لڑکے کو لے کر جمعہ کے دن جامع مسجد میں آئے اور جمعہ کی نماز سے پہلے یہ سونا اور وہ لڑکا نمازیوں کو دکھایا اور تمام قصہ لوگوں کو سنایا۔ جن عالم دین چغتائی صاحب نے یہ قصہ ہمیں سنایا وہ کہتے ہیں اس وقت میں بھی مسجد موجود تھا اس لڑکے کو معہ وہ جلی ہوئی اشرفیاں سونے کی شکل میں ان عالم دین چغتائی صاحب نے بھی دیکھیں۔ ( محمد معظم حسین‘ بہاولپور)
والد کی قبر سے آوازیں آج بھی آتی ہیں
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں نے اپنے والد کو محنت کرتے اور اچھائیوں میں ہی دیکھا تھا‘ ساری رات عبادت‘ تہجد‘کہیں بھی کوئی فوت ہوجاتا ‘ خود قبر کھودتے‘ قبریں بہت اچھی کھودتے تھے‘ میں اپنے والد کی لاڈلی بیٹی تھی ان کی وفات کا سب سے زیادہ صدمہ مجھے ہی ہوا۔ میں ان کیلئے پڑھ پڑھ کر ہدیہ کرتی رہتی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے پریشانیاں ایسی آئیں کہ میں نے ان کی روح کو ہدیہ کرنا چھوڑ دیا‘ ررات کے وقت مجھے کوئی میرا نام لے کر پکارتا‘ یہ آواز میرے سر کی طرف سے ایک کونے سے آتی‘ یہ وقت صبح تہجد کا ہوتا تھا‘ میں نے جاننے کی بہت کوشش کی لیکن پتہ نہ چلا‘ کوئی کہتا یہ آواز قبر دیتی ہے‘ اللہ رحم کرے‘ لیکن میں کھوج میں رہی کہ معلوم کروں ‘ کافی جگہ سے معلوم کروایا تو ایک جگہ حاضرات کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہ آواز میرے باپ کی طرف سے آتی ہے۔ میرے والد ساری اولاد کو چھوڑ کر میرے پاس آتے تھے‘ ان پر کوئی عذاب تھا اور وہ اس وجہ سے تھا کہ ہماری نسل میں سے کسی بڑے نے قرآن پاک اٹھایا تھا‘ میرے دل میں ایسے زور کا دھچکا لگا بہت افسوس ہوا‘ جلدی سے دوبارہ اپنےو الد کی روح کو پڑھ پڑھ کر ہدیہ کرنا شروع کیا۔ (ف۔ک)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں