انہوں نے ڈانٹ کر بلند آواز سے فرمایا: اے شیر! میں رسول اللہ ﷺ کا غلام ہوں اور میرا معاملہ یہ ہے کہ میں لشکر اسلام سے الگ پڑگیا ہوں اور لشکر کی تلاش میں ہوں۔ یہ سن کر شیر دم ہلاتا ہوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا اور برابر ان کو اپنے ساتھ لیے ہوئے چلتا رہا۔
فرشتوں سے مصافحہ کرنا اور ان کی تسبیح سننا
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سات ہجری میں جنگ خیبر کے سال مسلمان ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنی خلافت کے دوران ان کو اہل بصرہ کی تعلیم کیلئے مقرر فرمایا تھا۔ محمد بن سیرین محدث رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ بصرہ میں عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے زیادہ پرانا اور افضل کوئی صحابی نہیں۔ ان کی پوری زندگی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ طرح طرح کی عبادات میں بہت زیادہ محنت شاقہ فرماتے تھے۔ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ اتنی والہانہ عقیدت تھی اور آپ ﷺکا اتنا احترام رکھتے تھے کہ جس ہاتھ سے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی‘ اس ہاتھ سے عمر بھر انہوں نے پیشاب کا مقام نہیں چھوا۔ تیس برس تک مسلسل استسقاء کی بیماری میں صاحب فراش رہے اور شکم کا آپریشن بھی ہوا‘ مگر صبر وشکر کا یہ حال تھا کہ ہر مزاج پرسی کرنے والے سے یہی فرمایا کرتے تھے کہ میرے خدا کو جو پسند ہے وہی مجھے بھی محبوب ہے۔ (حجۃ اللہ ج2،ص873 واکمال و اسد الغابہ ج4 ص137) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ایک مشہور کرامت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرشتوں کی تسبیح کی آواز سنا کرتے اور فرشتے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مصافحہ کیا کرتے تھے نیز آپ بہت مستجاب الدعوات بھی تھے یعنی آپ کی دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوا کرتی تھیں۔ (حجۃ اللہ ج2 ص873 واسدالغابہ ج4 ص137 وابن سعد ج4 ص288)حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضور نبی کریم ﷺ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور بعض کا قول ہے کہ یہ حضرت اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے غلام تھے۔ انہوں نے اس شرط پر ان کو آزاد کیا تھا کہ عمر بھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت کرتے رہیں گے۔ ’’سفینہ‘‘ ان کا لقب ہے۔ ان کے نام میں اختلاف ہے کسی نے ’’رباح‘‘ کسی نے ’’مہران‘‘ کسی نے’’رومان‘‘ نام بتایا ہے۔ ’’سفینہ‘‘ عربی میں کشتی کو کہتے ہیں۔ ان کا لقب ’’سفینہ‘‘ ہونے کا سبب یہ ہے کہ دوران سفر ایک شخص تھک گیا تو اس نے اپنا سامان ان کےکندھوں پر ڈال دیا اور یہ پہلے ہی بہت زیادہ سامان اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر حضور اقدس ﷺ نے خوش طبعی اور مزاح کے طور پر یہ فرمایا کہ انت سفینۃ (تم تو کشتی ہو) اس دن سے آپ کا یہ لقب مشہور ہوگیا کہ لوگ آپ کا اصلی نام ہی بھول گئے‘ لوگ ان کا اصلی نام پوچھتے تو یہ فرماتے تھے کہ میں نہیں بتاؤں گا۔ میرا نام رسول اللہ ﷺ نے ’’سفینہ‘‘ رکھ دیا ہے‘ اب میں اس نام کو کبھی ہرگز ہرگز ہرگز نہیں بدلوں گا۔ (اکمال ص597،و اسد الغابہ ج2ص 324)
شیر نے راستہ بتایا: ان کی مشہور اور نہایت ہی مستند کرامت یہ ہے کہ یہ روم کی سرزمین میں جہاد کے دوران اسلامی لشکر سے بچھڑگئے اور لشکر کی تلاش میں دوڑتے بھاگتے چلے جارہے تھے کہ بالکل ہی اچانک جنگل سے ایک شیر نکل کر ان کے سامنے آگیا۔ انہوں نے ڈانٹ کر بلند آواز سے فرمایا: اے شیر! میں رسول اللہ ﷺ کا غلام ہوں اور میرا معاملہ یہ ہے کہ میں لشکر اسلام سے الگ پڑگیا ہوں اور لشکر کی تلاش میں ہوں۔ یہ سن کر شیر دم ہلاتا ہوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا اور برابر ان کو اپنے ساتھ لیے ہوئے چلتا رہا یہاں تک یہ لشکر اسلام میں پہنچ گئے تو شیر واپس چلا گیا۔ (مشکوٰۃ جلد 2 ص554 باب الکرامات)
چورانوے برس کا جوان
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ہجرت کے دوسرے سال پیدا ہوئے اور حجۃ الوداع میں اپنے والد کے ساتھ حج کیا۔ امام زہری ان کے شاگردوں میں بہت ہی مشہور ہیں۔ اسی ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔ حضور اقدس ﷺ نے ان کے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا تھا۔ جعید بن عبدالرحمٰن کا بیان ہے کہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ 94 برس تک نہایت ہی تندرست اور قوی ہیکل رہے اور کان‘ آنکھ‘ دانت کسی چیز میں بھی کمزوری کے آثار نہیں پیدا ہوئے تھے۔ (کنزالعمال ج16 ص51ٰ)
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے غلام عطا کہتے ہیں کہ حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے سر کے اگلے حصے کے بالکل بالکل سیاہ تھے اور سر کے پچھلے حصے کے سب بال اور ڈاڑھی بالکل سفید تھی۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا اے میرے آقا! یہ کیا معاملہ ہے؟ مجھے اس پر تعجب ہورہا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ میں بچپن میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا تو حضور نبی کریم ﷺ میرے پاس سے گزرے اور مجھ سے میرا نام پوچھا؟ میں نے اپنا نام سائب بن یزید بتایا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے میرے سر پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا جہاں تک حضور اقدس ﷺ کا دست مبارک پہنچا ہے وہ بال سفید نہیں ہوئے اور آئندہ بھی کبھی سفید نہیں ہوں گے۔ انشاء اللہ۔
مریض کو سر لگایا وہ صحت یاب ہوگیا
حضرت حنظلہ بن حزیم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک مرتبہ اپنے باپ کے ساتھ دربار نبوت ﷺ میں حاضر ہوئے اور ان کے باپ نے ان کیلئے دعا کی درخواست کی۔ حضور رحمت عالم ﷺ نے ازراہ کرم اپنا دست اقدس ان کے سر پر پھیرا جس کی بدولت ان کو مندرجہ ذیل کرامت ملی۔
سر لگتے ہی مرض غائب: جس قسم کا بھی کوئی مریض انسان یا جانور جب ان کے پاس لایا جاتا تو یہ اپنا سر اس مریض کے بدن پر لگا دیتے تھے تو فی الفور شفاء حاصل ہوجاتی تھی اور ایک روایت میں یہ ہےکہ یہ اپنے ہاتھ میں اپنا لعاب دہن لگا کر اپنے سر پر رکھتے اور یہ دعا پڑھتے۔ بِسْمِ اللہِ عَلیٰ اَثَرِ یَدِ رَسُوْلِ اللہ پھراپنا ہاتھ مریض کے ورم پر پھیر دیتے تو فوراً مریض شفایاب ہوجاتا۔ (کنزالعمال ج15 ص327)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں