Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

نبی اکرم ﷺ بحیثیت ِ تاجر

ماہنامہ عبقری - نومبر 2016ء

کائنات میں بسنے والے ہر ہر فرد کی کامل رہبری کیلئے اللہ رب العزت کی طرف سے جس معزز و مکرم ہستی کو معبوث کرنا متعین ہوتا، تو لازم تھا کہ اس امر عظیم راہنمائی لینے والے کیلئے ہمہ جہت اور ہمت وقت سامان موجود ہوتا، چنانچہ! اس کیلئے سردار الانبیاء، رحمۃ اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو معبوث کیا گیا۔ دنیا میں بسنے والے ہر ہر انسان کو دعوتِ عام دی گئی ہے کہ جہاں ہو جس شعبے میں ہو، جس کی قسم کی راہنمائی چاہتے ہو، جس وقت چاہتے ہو، تمہیں مایوسی نہ ہوگی، تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز سے متعلق مکمل راہنمائی ملے گی، شرط یہ ہے کہ تم میں طلبِ صادق ہونی چاہے، چنانچہ! تاجر ہویا کاشتکار، شریک ہویا مضارب، مزدور ہو یا کوئی بھی محنت کش، ماں ہو یا باپ، بیٹا ہو یا بیٹی، میاں ہو یا بیوی، مسافر ہو یا مقیم، صحت مند ہو یا مریض، شہری ہو یا دیہاتی، پڑھا لکھا ہو یااَن پڑھ، ا گر وہ چاہے کہ میرے لئے میرے شعبے میں راہنمائی ملے تو اس کیلئے جناب رسول اللہﷺ کی مبارک ہستی میں نمونہ موجود ہے۔نبوت سے قبل کی معاشی کیفیت: نبی اکرمﷺ کا نبوت سے پہلے والا دور مالی اور معاشی اعتبار سے بہت زیادہ خوشحال دور نہیں تھا، لیکن اس کے برعکس یہ کہنا بھی درست نہیں کہ آپﷺ بہت ہی زیادہ مفلوک الحال زندگی بسرکررہے تھے، البتہ یہ ضرور تھا کہ آنجنابﷺ بچپن سے ہی محنت و مشقت کرکے اپنی مدد آپ ضروریات زندگی پورا کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔ والد کی طرف سے ملنے والی میراث: جب آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی تو آپﷺ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، آپ ﷺ کے والد کی طرف سے بطورِ میراث بھی کوئی جائیداد آپﷺ کی طرف منتقل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ کتبِ سیرت میں اس کی تفصیل میں صرف یہ منقول ہے کہ آپﷺ کو میراث میں صرف پانچ اونٹ، چند بکریاں اور ایک باندی ملی، جس کا نام ’’ام ایمن‘‘ تھا، (اس باندی کو بھی جناب رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت یعنی پچیس سال کی عمر میں آزاد کردیا تھا)۔ والدہ اور دادا کی وفات کے بعد آپ ﷺ اپنے چچا کے سپرد کردئیے گئے،چنانچہ! آپ ﷺکے چچا جب تجارت کی غرض سے دوسرے شہروں میں جاتے تو اپنے بھتیجے کو بھی ہمراہ لے جاتے۔ بکریاں چرانا: مکہ مکرمہ میں حصول معاش کیلئے عام طور پر گلہ بانی اور تجارت عام تھی، چنانچہ
آپﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کی ابتداء میں ہی اپنی معاش کے بارے میں ازخود فکر کی، ابتداء: اہل مکہ کی بکریاں اجرت پر چراتے تھے، بعد میں تجارت کا پیشہ بھی اختیار کیا، اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں تھی بلکہ یہ تو آپﷺ کی عظمت اور تواضع کی کھلی دلیل ہے، اس لئے کہ بکریاں چرانے والے شخص میں جفاکشی، تحمل و بردباری اور نرم دلی پیدا ہوجاتی ہے، اس لئے کہ بکریاں چرانا معمولی کام نہیں ہے بلکہ بہت ہی زیادہ ہوشیاری اور بیدار مغزی والا کام ہے، اس لئے کہ بکریاں بہت کمزور مخلوق ہوتی ہیں، تیزی اور پھرتی میں انکا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔نبی کریمﷺ نے فرمایا: اللہ نے جو بھی نبی بھیجا، اس نے بکریاں ضرور چرائیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کیا یارسول اللہﷺ! آپ ﷺ نے بھی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں میں بھی مکہ والوں کی بکریاں قراریط پر چراتا تھا۔ ملکِ شام کی طرف پہلا سفر: نبی کریمﷺ نے شام کی طرف دو سفر کئے، پہلا: اپنے چچا کےہمراہ لیکن اس سفر میں آپﷺ بطور تاجر شریک نہ تھے بلکہ محض تجارتی تجربات حاصل کرنے کیلئے تشریف لے گئے، اسی سفر میں بحیرا راہب والا مشہور قصہ پیش آیا، جس کے کہنے پر آپﷺ کے چچا نے آپﷺ کو حفاظت کی خاطر مکہ واپس بھیج دیا۔ملکِ شام کی طرف دوسرا سفر: اور دوسرا سفر آپﷺ نے بطور تاجر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامان لے کر اجرت پر کیا، قصہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ جب آپﷺ پچیس برس کے ہوگئے تو آپﷺ کے چچا ابو طالب نے کہا کہ اے بھتیجے! میں ایسا شخص ہوں کہ میرے پاس مال نہیں ہے، زمانہ کی سختیاں ہم پر بڑھتی جارہی ہیں، تمہاری قوم کا شام کی طرف سفر کرنے کا وقت قریب ہے، خدیجہ بنت خویلد اپنا تجارتی سامان دوسروں کو دے کر بھیجا کرتی ہے، تم بھی اجرت پر اس کا سامان لے جائو، اس سے آپﷺ کو معقول معاوضہ مل جائے گا۔ یہ گفتگو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہا نے خود آپﷺ کو پیغام بھیج کر بلوایا کہ جتنا معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں، آپﷺ کو اس سے دو گنا دوں گی، اس پر ابو طالب نے آپﷺ کو کہا کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے آپﷺ کی جانب کھینچ کے بھیجا ہے، اس کے بعد آپﷺ قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، آپﷺ کے ہمراہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام ’’میسرہ‘‘ بھی تھا، جب قافلہ شام کے شہر بصریٰ میں پہنچا تو وہاں نسطوار راہب نے آپﷺ میں نبوت کی علامات پہچان کر آپﷺ کے نبی آخر الزمان ہونے کی پیشین گوئی کی۔ دوسرا اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ جب آپﷺ نے تجارتی سامان فروخت کرلیا تو ایک شخص سے کچھ بات چیت بڑھ گئی، اس نے کہا کہ لات و عزیٰ کی قسم اٹھائو، تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی، میں تو ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان سے منہ موڑلیا کرتاتھا۔ اس شخص نے یہ بات سن کر کہا، حق بات تو وہی ہے جو تم نے کہی پھر اس شخص نے میسرہ سے مخاطب ہوکر کہا: خدا کی قسم یہ تو وہی نبی ہے، جس کی صفات ہمارے علماء کتابوں میں لکھی ہوئی پاتے ہیں۔ تیسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ میسرہ نے دیکھا کہ جب تیز گرمی ہوتی تو دو فرشتے نبی اکرمﷺ پر سایہ کررہے ہوتے تھے، یہ سب کچھ دیکھ کر میسرہ تو آپﷺ سے بہت ہی زیادہ متاثر تھا، واپسی میں ظہر کے وقت جب واپس پہنچے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا بالاخانے میں بیٹھے بیٹھے دیکھا کہ نبی اکرمﷺ اونٹ پر بیٹھے اس طرح تشریف لارہے تھے کہ دو فرشتوں نے آپﷺ پر سایہ کیا ہوا تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بیٹھی ہوئیں عورتوں نے یہ منظر دیکھ کر بہت تعجب کیا اور پھر جب میسرہ کی زبانی سفر کے عجائب، نفع کثیر اور نسطورا راہب اور اس جھگڑا کرنے والے شخص کی باتیں سنیں تو بہت زیادہ متاثر ہوئیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت زیادہ دور اندیش، مستقل مزاج، شریف، باعزت اور بہت مال دار عورت تھیں، آپ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرمﷺ کو نکاح کا پیغام بھیج کر نکاح کرلیا۔ اس وقت نبی اکرمﷺ کی عمر مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔ یمن کی طرف سفر: جو تجارتی اسفار نبی اکرمﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے کیے ان میں سفر یمن کی طرف بھی تھے، امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے المستدرک میں نقل کیا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرمﷺ کو جرش (یمن کے ایک مقام) کی طرف دوبار تجارت کیلئے اونٹنیوں کے عوض بھیجا۔ تجارتی اسفار میں آپﷺ کے خصائل حمیدہ: نبی اکرمﷺ اپنی عمر مبارک کے پچیسویں سال تک تجارتی اسفار میں اپنے اخلاق کریمانہ، حسن معاملہ، راست بازی، صدق و دیانت کے وجہ سے اتنے زیادہ مشہور ہوچکے کہ خلقِ خدا میں آپﷺ’’صادق امین‘‘ کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے، لوگ کھلے 
اعتماد کے ساتھ آپﷺ کے پاس بے دھڑک اپنی امانتیں رکھواتے تھے، انہی خصائل کی بنا پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بن خویلد کی رغبت نبی اکرمﷺ کی طرف ہوئی تھی اور پیغام نکاح بھیج دیا تھا۔ حضرت قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ زمانہ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے اور آپﷺ شرکاء میں سےبہترین تھے، نہ لڑائی کرتے تھے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے۔ بحث و تکرار سے اجتناب: مسلمان تاجر کی صفات میں سے ایک صفت معاملات کے وقت شورشرابا اور آپس کی بے جا بحث و تکرار سے بچنا بھی ہے اور آپﷺ کے اس وصف عظیم کی گواہی زمانہ نبوت سے پہلے بھی دی جاتی تھی، چنانچہ حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نبی اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین آپﷺ کے سامنے میری تعریف اور میرا تذکرہ کرنے لگے تو آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمہاری نسبت ان سے زائد واقف ہوں، میں نے کہا: میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں یارسول اللہﷺ! آپﷺ سچ فرماتے ہیں، آپﷺ زمانہ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے اور آپﷺ کتنے بہترین شریک ہوتے تھے کہ نہ شور شرابا (بحث و تکرار) کرتے تھے اور نہ جھگڑا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن حمسآء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبوت ملنے سے قبل آپﷺ سے خریدو فروخت کا ایک معاملہ کیا، خریدی گئی شے کی قیمت میں سے کچھ رقم میرے ذمہ باقی رہ گئی تو میں نے آپﷺ سے وعدہ کیا کہ میں کل اسی جگہ آکر آپﷺ کو بقیہ رقم ادا کردوں گا پھر میں بھول گیا اور مجھے تین روز بعد یاد آیا میں اس جگہ گیا تو دیکھا کہ جناب رسول اللہﷺ اسی جگہ تشریف فرما ہیں، آپﷺ نے فرمایا: اے نوجوان! تم نے مجھے اذیت پہنچائی میں تین دن سے اسی جگہ پر تمہارا منتظر ہوں۔حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی ذریں نصائح: حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ گزشتہ زمانہ میں مال کو برا سمجھا جاتا تھا لیکن جہاں تک آج کے زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال و دولت مسلمانوں کی ڈھال ہے، حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر یہ درہم و دینار اور روپیہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ سلاطین و امراء ہمیں دست و پاہ بناکر ذلیل و پامال کر ڈالتے، نیز! انہوں نے فرمایا: کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہوتو اس کو چاہئے کہ وہ اس کی اصلاح کرے کیونکہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی محتاج و مفلس ہوگا تو اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے گنوانے والا سب سے پہلا شخص وہی ہوگا۔ احادیث میں ہے: ’’سچا، امانت دارتاجر (قیامت میں) انبیاء علیہم السلام، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔ ‘‘حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: کہ سچ بولنے والا تاجر قیامت میں عرش کے سایہ میںہوگا۔حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جب تاجر میں چار باتیں آجائیں تو اس کی کمائی پاک ہوجاتی ہے، جب خریدے تو اس چیز کی مذمت نہ کرے اور بیچے تو (اپنی چیز کی بہت زیادہ) تعریف نہ کرے اور بیچنے میں گڑ بڑ نہ کرے اور خریدو فروخت میں قسم نہ کھائے۔حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: کہ خریدوفروخت کرنے والے کو (بیع توڑنے کا) حق ہے، جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔اگر بائع و مشتری سچ بولیں اور مال اور قیمت کے عیب اورکھرے کھوٹے ہونے کو بیان کردیں تو ان کی بیع میں برکت ہتی ہے اور اگر عیب کو چھپالیں اور جھوٹے اوصاف بتائیں تو شاید کچھ نفع تو کمالیں (لیکن) بیع کی برکت ختم کردیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہیں تاجروں کے ساتھ خیر کے برتائو کی وصیت کرتا ہوں۔(بشکریہ! ماہنامہ فقیہ)

 

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 237 reviews.