مسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقا ضا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عا دت شریفہ اللہ کے بندو ں اور اپنے مخلصو ں سے ہمیشہ مسکر اکر ملنے کی تھی۔ ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رویہ اور بر تائو ان لو گو ں کے لیے کیسے قلبی و روحانی مسرت کا با عث ہوتا ہو گا اور اس کی وجہ سے ان کے اخلا ص و محبت میں کتنی تر قی ہو تی ہو گی۔ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرادینا بھی صدقہ ہے (تر مذی )“ ”حضرت جا بر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا صر ف تبسم ہو تا تھا ۔ (شمائل تر مذی )
”حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیا دہ مسکرانے والا کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔ (جامع ترمذی ) “حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے تو تبسم فرماتے (یعنی خندہ پیشانی سے مسکرا تے ہوئے ملتے تھے ) (شما ئل ترمذی) “”حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ فجر کی نما ز جس جگہ پڑھتے تھے آفتاب طلو ع ہونے تک وہا ں سے نہیں اٹھتے تھے پھر جب آفتا ب طلو ع ہو جا تا تو کھڑے ہو جا تے اور (اس اثنا میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحا بہ رضی اللہ عنہ زمانہ جا ہلیت کی با تیں (بھی ) کیا کر تے اور اس سلسلے میں خو ب ہنستے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بس مسکرا تے رہتے ۔ (صحیح مسلم ) “”حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فرما یا کہ میں اس شخص کو خو ب جانتا ہو ں جو سب سے پہلے جنت میںداخل ہو گا اور اس سے بھی واقف ہو ں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جا ئے گا ، قیا مت کے دن ایک آدمی دربا ر الٰہی میں حاضر کیا جائے گا اس کے لیے یہ حکم ہو گا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کیے جائیں اور بڑے بڑے گنا ہ مخفی رکھے جائیں جب اس پر چھوٹے چھوٹے گنا ہ پیش کیے جائیں گے کہ تو نے فلا ں دن فلاںگنا ہ کیے ہیں تو وہ اقرا ر کرے گا ۔ اس کے لیے انکا رکی گنجا ئش نہیں ہو گی اور اپنے دل میں نہا یت خوفزدہ ہو گا کہ ابھی تو صغائر ہی کا نمبر ہے ، کبائر پر دیکھیں کیا گزرے ؟کہ اس دوران میں یہ حکم ہو گا کہ اس شخص کو ہر گناہ کے بدلے ایک ایک نیکی دی جائے تو وہ شخص یہ حکم سنتے ہی خو د بو لے گا کہ میرے تو ابھی بہت سے گنا ہ با قی ہیں جو یہا ں نظر نہیں آتے ، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مقولہ فرما کر ہنسے یہا ں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے ، ہنسی اس بات پر تھی کہ جن گنا ہو ں کے اظہا ر پر ڈر رہا تھا ان کے اظہا ر کا خود طا لب ہو گیا ۔(شمائل ترمذی )
”حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں کہ میرے والد سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق کے دن ہنسے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے ۔ حضرت عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پو چھا کس با ت پر ہنسے ؟انہو ں نے کہا ایک کا فر ڈھا ل لیے ہوئے تھا اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ تو بڑے تیر انداز تھے لیکن وہ اپنی ڈھا ل کو ادھر ادھر کر لیتا تھا ، جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچائو کر رہا تھا ( گو یا مقابلہ میں سعد رضی اللہ عنہ کاتیر نہ لگنے دیتا تھا حالانکہ یہ مشہور تیر اندا ز تھے ) سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مر تبہ تیر نکالا (اور اس کو کما ن میں کھینچ کر انتظا رمیں رہے) جس وقت اس نے ڈھا ل سے سر اٹھا یا فوراً ایسا نشانہ لگا یا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور وہ فوراً گر گیا ۔ ٹانگ بھی اوپر کو اٹھ گئی پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قصے پر ہنسے ، میں نے پو چھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میںکو ن سی با ت پر ہنسے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سعد کے اس فعل پر (چونکہ اس قصے میں شبہ ہو گیا تھا کہ اس کے پا ئو ں اٹھنے اور ستر کھل جا نے پر تبسم فرما یا ہو ۔ اس لیے دوبارہ پو چھنے کی ضرورت ہوئی انہو ں نے فرمایا یہ نہیں بلکہ میرے حسن نشانہ اور اس کے با وجود اتنی احتیا ط کے تیر لگ جانے پر کہ وہ تو ہوشیا ری کر ہی رہا تھا کہ ڈھا ل کو فوراً ادھر ادھر کر لیتا تھا مگر سعد رضی اللہ عنہ نے بھی تدبیر سے ایسا تیر جڑا کہ فوراًہی گر گیا اور مہلت ہی نہ ملی ( شمائل ترمذی )“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بد ر سے واپس تشریف لا رہے تھے تو مقام روحاءپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ مسلمان ملے ، جنہو ں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اس فتح مبین کی مبا رک باد دی ۔ اس پر حضرت سلمۃ بن سلامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کس چیز کی مبا رک دیتے ہو خدا کی قسم بو ڑھو ں سے پا لا پڑا ، رسی میں بندھے ہوئے اونٹوں کی طرح ان کو ذبح کر ڈالا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا یہی تو مکہ کے سادات اور اشراف تھے (جدید سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلددوم )
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں