غذائی عادات ماحول ، موسم، اقتصادی حالات اور مقامی پیداوار کانتیجہ ہوتی ہیں۔ لوگ انہی کے مطابق مخصوص غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ بھیڑ بکریاں اور دیگر جانور پالنے والے ان کے دودھ اور اس سے بنی اشیاءپر گزارہ کرتے ہیں تو سرد علاقوں کے گلہ بان حرارت اورتوانائی حاصل کرنے کے لیے دودھ اور اس سے بنی اشیا کے علاوہ گوشت کھانے پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔ زرخیز میدانی علاقوں اور سرسبز وادیوں میں چونکہ غلے، پھل ،دالوں، سبزیوںاور دودھ کی بہتات ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں کے لوگ گوشت کم ،اناج ،دالیں،سبزیاں اور پھل زیادہ کھاتے ہیں۔ کوہستانی علاقوں کی بہ نسبت ان علاقوں میں دودھ ،دہی، مکھن اور گھی بھی زیادہ کھایاجاتاہے۔ چاول کھانے والی اقوام چونکہ زیادہ تر پروٹین ،چاول ہی سے حاصل کرتی ہیں اس لیے انہیں زیادہ مقدار میں کھانے کے لیے وہ اس کے ساتھ ذائقے اور بھوک میں اضافے کی خاطر زیادہ مِرچ اور تُرشی استعمال کرتی ہیں۔ جہاں جھیلیں اور دریا زیادہ ہیں وہاں چاولوں کے ساتھ مچھلی وغیرہ بھی زیادہ کھائی جاتی ہے۔
ایک وقت تھا کہ لوگ ایک دوسرے کی غذائی عادات کا مذاق اڑایا کرتے تھے اوراپنی غذائوں کوہی بہترین سمجھتے تھے۔ لیکن گزشتہ نصف صدی میں اس سلسلے میں جو تحقیقات ہوئی ہیں اس کے بعد علاقائی غذائی عادات اور غذائوں کی اہمیت اور ضرورت تسلیم کر لی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ مختلف اشیا کی قدروقیمت اور ضرورت کا بھی کھوج لگ چکاہے۔ ان معلومات کی روشنی میں ہر علاقے اور آب ہوا کے لوگ تھوڑی سی احتیاط سے اپنی غذائوں کومزید بہتر بناسکتے ہیں۔
مشرقی اقوام اپنے صدیوں پر محیط تجربات کی بناپر مختلف غذائوں کو بہتر بنانے کے طریقوں سے واقف ہیں، وہ مختلف مصالحوں کے ذریعہ سے کھانے کی خوش بُو، رنگ اور ذائقے میں اضافے کے فن سے آگاہ ہیں۔ انھیں یہ علم بھی ہے کہ مختلف مصالوں کا استعمال نہ صرف یہ کہ کھانوں کو بہتر بناتاہے بلکہ ان سے مختلف امراض کاعلاج بھی کیاجاتاہے۔ برصغیر کے گرم ومرطوب علاقوں کے لوگ اگر چاول زیادہ کھاتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ سُرخ وتازہ مرچ، ادرک، لہسن ،سیاہ وسفید زیرے ، کڑھی پتے، املی،سیاہ مرچ وغیرہ کااستعمال بھی کرتے ہیں۔ اُن کے کھانوں میں مختلف مصالحوں کے استعمال سے ایک دوسرے کی مضرات دور ہوجاتی ہیں۔
ہمارے ہاں مختلف موسموں کے کھانے بھی الگ ہوتے ہیں۔اگرچہ شہروں میں یہ اصول ترک ہوچکاہے تاہم دیہاتوں میں ابھی تک اس پر عمل ہوتاہے۔ وہاں گرمیوں میں انڈے ،گُڑ اور چٹ پٹی اشیا استعمال نہیں ہوتیں۔ جاڑوں میں تحریک دینے والی غذائوں کااستعمال عام طور ہوتاہے۔ لوگ گھی، گُڑ، حلوے ، روغنی غذائیں، مصالحے دار سالن ، کباب، گوشت،انڈے،نہاری ،شب دیگ وغیرہ زیادہ کھاتے ہیں۔ ان کھانوں میں شامل مصالحے ذائقے کے علاوہ جسم کو سردی کے امراض نزلے زکام، کھانسی، جوڑوں کے درد وغیرہ سے محفوظ رکھتے ہیں۔ مثلا نہاری جاڑوں کی پسندیدہ ڈش ہوتی تھی۔ نیز سردیوں میں اسے اہتمام سے تیار کیاجاتا تھا۔ اس میں مرچیں بھی تیز رکھی جاتی تھیں اور اسے بند نزلے کا بہترین علاج سمجھا جاتاتھا۔ مرچیں، ادرک ، لہسن، لونگ، تیزپات وغیرہ میں شامل کیمیائی اجزاناک ، حلق اور سینے میں جمے بلغم کوخارج کردیتے ہیں۔ آج شہروں میں سال بھر نہاری ہوٹلوں میں ملتی ہے۔ لوگ موسم کا خیال رکھے بغیر اسے ٹوٹ کر کھاتے ہیں اور پیٹ کی شکایات میں مبتلا بھی ہو تے ہیں۔ تیز چٹ پٹی اشیاءکا زورتوڑنے کے لیے لیموں یادہی کااضافہ ضروری ہوتاہے۔ اس طرح ان کی شمولیت سے جہاں کھانے کی اصلاح ہوتی ہے وہاں اس کی غذائی اہمیت اور قدروقیمت میں اضافہ بھی ہوجاتاہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ مرچ چین میں کھائی جاتی ہے۔ چینی مرچ کو صحت کے لیے ضروری قراردیتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ سرِکہ شامل کرکے اس کی مضرتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ اہل مدراس اس کے ساتھ املی اور ناریل وغیرہ شامل کرکے اس کی اصلاح کرلیتے ہیں۔ مشرق کی قدیم اقوام کے برخلاف اہل یورپ چونکہ مصالحوں کے استعمال سے کم واقف ہیں، اس لیے وہ بالخصوص سردیوں کے امراض نزلے، زکام ،کھانسی ، فلو، جوڑوں کے درد وغیرہ میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں مصالحوں کااستعمال برائے نام ہے اور وہ آج بھی ان کی افادیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ اپنے کھانوں میں تھوڑی سی سُرخ یا تازہ سبز مرچ کا اضافہ کرکے وہ نزلے زکام اورکھانسی سے محفوظ بھی رہ سکتے ہیں اور نجات بھی پاسکتے ہیں۔
ان دنوں امریکا کی کیلی فورنیا یونیورسٹی کے شعبہ طب میں برطانیہ کے ایک ڈاکٹر اِرون زائیمنٹ تحقیقی کام میں مصروف ہیں۔ مختلف مصالحے ان کا موضوع تحقیق ہیں،انھیں اعتراف ہے کہ انگلستان میں کھائے جانے والے کھانے وہاں کی سردومرطوب آب و ہوا کے لیے قطعاً غیر موزوں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہاں نزلے اور کھانسی کا بڑا زور رہتاہے۔ ان کھانوں میں مرچ مصالحوں کے اضافے سے یہ امراض دور رکھے جاسکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ مصالحے جو بہ ظاہر تیز اور چٹ پٹے لگتے ہیں۔ اپنی اسی خوبی کی وجہ سے مفید بھی ثابت ہوتے ہیں۔ ان اشیا کی یہ تیزی ان میں موجود کیمیائی اجزا کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جس طرح آنسو آنکھوں کو دھوکر صاف کردیتے ہیں، یہ کیمیائی اجزا بالکل اسی طرح گلے، حلق، ناک ، پھیپھڑوں وغیرہ کی اندرونی سطح کو صاف کردیتے ہیں، ان کی سطح سے چپکی رطوبات بلغم وغیرہ اکھڑ جاتی ہیں۔ پھیپھڑے، ناک ، سانس کی نالیاں صاف ہوجاتی ہیں۔
ڈاکٹرزائیمنٹ نے یہ نتیجہ کھانسی کے لیے استعمال ہونے والی دوائوں کی تاریخ کے مطالعے کے بعد اخذ کیاہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مصالحے استعمال کرنے اور مصالحوں سے پرہیز کرنے والوں میں سینے کی شکایات کے تناسب کا بھی مطالعہ اور مقابلہ کیا۔ بقول ان کے ان امراض کی پرانی دوائوں اورغذائوں میں سیاہ مرچ ، لہسن ضرور شامل ہوتے تھے۔ بلکہ 12ویں صدی کے ایک یہودی معالج نے مرغی کے مصالحے دار شوربے کو دمے اور سانس کی تکلیف کا بہترین علاج قراردیا تھا۔ اس معالج کے مطابق مصالحے استعمال کرنے والوں کے پھیپھڑے بہت صحت مند رہتے ہیں۔
پشاوری سُوپ
جاڑوں کے آتے ہی کراچی میں پشاوری سُوپ کی فروخت شروع ہوجاتی ہے۔ اسے فروخت کرنے والوں کے مطابق یہ شوربا جس میں گرم مصالحہ پڑا ہوتا ہے، سال بھر کھائی جانیوالی نسوار اور تمباکو کی مضرتوں کو دھوڈالتا ہے، اس میں یہی بات پوشیدہ ہے کہ دراصل اس چٹ پٹ شوربے کے استعمال سے جاڑوں میں ناک، کان، حلق اور سینے پر جما ہوا بلغم چھٹ جاتاہے۔ گھر میں صحت مند مرغی کے گوشت اور خالص مصالحوں کی آمیزش سے تیارکردہ سُوپ اُس بازاری سوپ سے گئی گناہ زیادہ مفید ثابت ہوسکتاہے۔ ڈاکٹر زائیمنٹ کے مطابق برطانیہ کی مرطوب آب وہوا جاڑوں کے موسم میں بالخصوص نزلے کے جراثیم اس کیلئے پرورش گاہ بن جاتی ہے۔ اسے اینٹی بائیوٹک دوائوں سے خُشک کرنے کی بجائے تھوڑی سے مرچ، ادرک یالہسن وغیرہ استعمال کرکے دُور کرنازیادہ درست اقدام ہے۔
ان گرم مصالحوں کا موثر جوہر جوپھیپھڑوں کوصاف کرتاہے، کیپساسِین (CAPSACIN)کہلاتاہے۔ بنیادی طور پر اس جوہر کی کیمیائی ساخت گوآئی فیلنے سین (GUAIFENESIN)نامی دواسے تعلق رکھتی ہے ۔ جسے کھانسی کابہترین علاج سمجھا جاتاہے۔ یہ کھانسی کے اکثر شربتوں اور گولیوں میں شامل رہتی ہے۔
مصالحے اور استحالہ
ڈاکٹرزائیمنٹ سرد علاقوں کے کھانوں میں ان مصالحوں کوشامل کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ تاہم انھیں زیادہ مقدار میں نہیں استعمال کرناچاہیے۔ ان کے مطابق یہ مصالحے چونکہ استحالے یا غذا کے جزوبدن بننے کے عمل کو بھی تیز کردیتے ہیں۔ اس لیے غذائی حرارے بھی تیزی سے جلتے ہیں۔ اس سلسلے میں اوکسفورڈ یونیورسٹی میں جو تجربات ہوئے اس سے بھی اس کی توثیق ہوگئی ہے۔ انہی محققین نے کھانے میں گرام مرچ کی چٹنی (ساس) اور گرام رائی کاسفوف شامل کردیا۔ اس کے استعمال سے جسم کی استحالے کی رفتار تین گھنٹوں کے بعد 52 فی صد بڑھ گئی۔
مصالحے دَرددُور کرتے ہیں
ہماری بڑی بوڑھیاں سریا جوڑ وغیرہ کے درد بلکہ چوٹ کے لیے دارچینی ،لونگ، سونٹھ اورلہسن کالیپ استعمال کرتی تھیں۔ پنسلونیایونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق مصالحے دار غذا کھانے کے بعد لوگ مطمئن اور آسودہ نظر آتے ہیں۔ انھیں آرام کا احساس ہوتاہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان مصالحوں کی تیزی زبان میں جذب ہوکر دماغ کو اینڈو مارفین نامی کیمیا کی تیاری پراکساتی ہے۔ یہ جوہر ہر قسم کے دَردوں کااحساس دُور کرکے راحت وسُرور کی کیفیت پیدا کرتاہے۔
ان انکشافات اوراعترافات سے مشرق کی دانش قدیم اور ہمارے اطبا کی دانائی اورحکمت کا بھی اعتراف ہوتاہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 684
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں