زندہ ہوں اس طرح کہ غمِ زندگی نہیں
بجھتا ہوا دیا ہوں ہاں مگر روشنی نہیں
ہمارے پورے معاشرے کا ہر شعبے میں یہی حال ہے کیا پروفیسر‘ کیا بڑھئی‘ کیا ہنرمند‘ کیا مزدور۔ زندگی اوروقت کو دھکا دیا جارہا ہے کہ بقیہ زندگی خیر سے اور جلدی گزر جائے۔ گھر اور کاروبار سکھی نہ ہوں تو روح کیسے خوش رہ سکتی ہے؟ چہرے پر نرمی اور مسکراہٹ کیسے اکٹھی ہوسکتی ہیں؟ اس منحوس لفظ کے بولے بغیر گزارہ نہیں کہ مہنگائی نے جسمانی روحانی صحتوں کو گہنا دیا ہے۔ گھروں کے آگے بنے تھڑے‘ بیٹھکیں، چوپالیں اور ڈیرے‘ ہر آنے والے محلے دار حتیٰ کہ غیر کی بھی پوری سنتے اور مکمل جواب دیتے تھے جس سے آنے والے کی تشنگی دور ہوجاتی۔ بات کا بروقت فیصلہ ہوجاتا اس کو وقت پر منزل مل جاتی تھی اور جب سے ہم اپنی ’’مَیں‘‘ میں گم ہیں کوئی ایک دوسرے کی مصیبت میں کام بھی آجائے تو غنیمت ہے۔ یہ تو تھا ’’ہاں میں زندہ ہوں‘‘ کا ایک پہلو۔ اس کا ایک دوسرا بھی پہلو ہے۔ آپ کومسجدوں میں‘ صبح کھیل کے میدان میں‘ دریا کنارے مچھلی کے شکاری‘ محلے میں کھلاڑیوں کی بیٹھک، شاعروں‘ ادیبوں کی بیٹھک جیسی جگہوں پر بالکل کم آمدنی والے اور سفید پوش حضرات عبادت اور تفریح کرتے ہوئے ملیں گے۔ عموماً چھٹی والے دن یا رات کے اوقات میں ملتان کے مچھلی کے شکاریوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بھی ہے۔ سائیکل پر یا پیدل اور حسب توفیق زیادہ سے زیادہ موٹرسائیکل (بہت کم) نزدیک یا دور کسی دریا یا مچھلی کی شکارگاہ پر چلے جاتے تھے‘ آپس کی دوستی‘ تعلق‘ اکٹھے کھانا پینا‘ کم پیسوں میں بہترین تفریح کو جکڑ لیتے تھے اور جب حالات کا جبر ہمیں شکار کرلے تو کیا پھر؟ ہم مجبور و بے بس ہوکر بیٹھ جائیں یا پھر؟ اپنے بزرگوں کی ثقافت‘ اپنے بڑوں کی روایات کو دہراتے ہوئے چوپالیں، بیٹھکیں، تھلے اور ڈیرے آباد کرنے کی رسم کو زندہ کرلیں اور اپنی مساجد میں بیٹھ کر اپنے اللہ سے باتیں کرنے اور سوال کرنے کی عادت کو دوبارہ اپنالیں۔ اللہ کو پکاریں اور سوچیں‘ وہ ہے اللہ! جو فضاؤں میں اڑتے ہوئے اَولوں کے پہاڑوں کو روانی کا حکم دیتا ہے اور پھر جہاں چاہے الٹ دیتا ہے اور جس کو چاہے ان کے زور سے محفوظ رکھتا ہے اور جسے چاہے ان کی کوند سے اندھا بنادے یا برباد کردے۔ا للہ وہ ہے جس نے ہمیں مضطرب پانی کے قطرے سے بنایا‘ دو پاؤں سے چلایا‘ پھرایا طاقت دی۔ ورنہ وہ ہمیں پیٹ سے چلنے والا کیڑا یا چوپایہ بھی بناسکتا ہے (سورۂ النور41 سے45) آخر جب ہمارے پاس کرنے کوکوئی کام نہیں تو پھر ہم اللہ کے ہونے کو ثابت کرنے کیلئے محافل کیوں آباد نہیں کرتے؟ ہم اپنے خدا کا بندہ ہونے اور اپنے زندہ ہونے کاثبوت کیوں نہیں دیتے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں