اپنی خواہش ہویا دوسروں کی، ا نسان بلا اذن خداوندی روزہ نہیں چھوڑ سکتا، اس طرح اس کی اطاعتیں ہر طرف سے سمٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی طرف پھر جاتی ہے۔ روزے میں اگرچہ بہ ظاہر صرف خواہشات (غذا اور صنفی خواہش) پر پابندی لگائی گئی ہے
ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے جو ڈسپلن کا عمل شروع ہوتا ہے اور ایک مہینہ تک مسلسل اس کی تکرار جاری رہتی ہے گویا پورے تیس دن انسان ایک شدید ترین ڈسپلن کے تحت رہتا ہے۔ احساس بندگی: اس نظام تربیت پر غور کرنے سے جو بات پہلی نظر میں واضح ہوجاتی ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام اس طریقے سے انسان کے شعور میں اللہ کی حاکمیت کے اقرار و اعتراف کو مستحکم کرنا چاہتا ہے اور اس شعور کو اتنا مستحکم بنادیتا ہے کہ احکام الٰہی کے روبرو انسان اپنی آزادی اور خودمختاری سے دست بردار ہوجائے۔ خدا کا وجود محض ایک ما بعد الطبیعی عقیدہ نہ رہے بلکہ عملی زندگی میں محسوس اور کارفرما ہوجائے۔ کفر اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان خدا کے مقابلے میں اپنے آپ کو خود مختار محسوس کرے اور اس کے مقابلے میں اسلام یہ ہے کہ انسان ہر آن اپنے آپ کو خدا کا بندہ اور محکوم محسوس کرے۔ نماز کا مقصد اس شعور بندگی کی یاددہانی ہے، اسی طرح رمضان کے روزے سال میں ایک مرتبہ اس شعور کو ذہن پر قائم رکھتے ہیں تاکہ سارے سال انسان کے ذہن پر اس کے اثرات قائم رہیں۔ اطاعت امر: احساس بندگی کے ساتھ ساتھ جو چیز لازمی پیدا ہوگی وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو جس خدا کا بندہ سمجھ رہا ہے، اس کی اطاعت کرے۔ ان دونوں میں فطری طور پر ایسا ربط ہے کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکے۔ آپ جس کی خداوندی کا اعتراف کریں گے لازماً اطاعت بھی اسی کی کریں گے اور احساس بندگی جس درجہ شدید ہوگا اطاعت امر بھی اتنی ہی شدت سے ہوگی۔ چنانچہ روزے کا مقصد احساس بندگی کی یاددہانی کے ساتھ ساتھ اطاعت امر کی تربیت دینا بھی ہے۔ اپنی خواہش ہویا دوسروں کی، ا نسان بلا اذن خداوندی روزہ نہیں چھوڑ سکتا، اس طرح اس کی اطاعتیں ہر طرف سے سمٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی طرف پھر جاتی ہے۔ روزے میں اگرچہ بہ ظاہر صرف خواہشات (غذا اور صنفی خواہش) پر پابندی لگائی گئی ہے لیکن اس کی اصل روح یہ ہے کہ انسان پر بندگی کا احساس پوری طرح رہے۔ اس کے بغیر اگر انسان محض بھوکا پیاسا رہ لے تو یہ روزہ لاش کی طرح بے روح ہوگا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے : ’’ جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑدے‘‘۔اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ: ’’ کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔ ان دونوں احادیث میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ روزے کا مقصد بھوکا پیاسا رہنا نہیں بلکہ تقویٰ اور طہارت ہے۔
تعمیر سیرت: روزے کا تیسرا مقصد انسان کی سیرت کی تعمیر ہے، اس سیرت کی بنیاد تقویٰ پر ہے، تقویٰ سے مراد کوئی خاص شکل و صورت اختیار کرنا نہیں ہے بلکہ قرآن کو بڑے وسیع مضمون میں استعمال کرتا ہے وہ پوری انسانی زندگی کے ایسے روئیے کو تقویٰ کے نام سے تعبیر کرتا ہے جس کی بنیاد احساس بندگی اور ذمہ داری پر ہو (اس کے مخالف روئیے کا نام قرآن کی رو سے فجور ہے) دنیا کے فساد کا سبب فجور ہے اور دیگر عبادات کی طرح روزے کا مقصد بھی یہ ہے کہ انسان میں فجور کے رحجانات ختم کئے جائیں اور تقویٰ کو نشوونما دیا جائے۔ اب دیکھئے کہ روزہ کس طریقے سے اس کام کے سرانجام دینے میں مدد دیتا ہے۔ ایک شخص سے کہا جاتا ہے کہ خدا نے تم پر پابندی لگائی ہے کہ صبح سے شام تک کچھ نہ کھائو، نہ صرف جلوت میں بلکہ خلوت میں بھی اکل و شرب سے پرہیز کرو، اب ایسی صورت میں اگر کوئی شخص روزے کی تمام شرائط پوری کرتا ہے تو غور کیجئے کہ اس کے نفس میں کس قسم کی کیفیات ابھرتی ہیں۔ اول: تو یہ کہ اسے خدا کے عالم الغیب ہونے کا پورا یقین ہے اور یہی یقین ہے جو اسے تنہائی میں بھی روزے کے حدود کا پابند رکھتا ہے۔ دوم: اس کو آخرت اور حساب و کتاب پر پورا ایمان ہے، اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی شخص 12 یا 14 گھنٹے بھوکا نہیں رہ سکتا۔ سوم: اس کے اندر اپنے فرض کا احساس ہے، بغیر اس کے کہ کوئی شخص اس پر کھانے پینے کی پابندی لگائے اس نے خود سے اپنے اوپر یہ پابندی عائد کرلی۔ چہارم: مادیت اور روحانیت کے انتخاب میں اس نے روحانیت کو منتخب کرلیا اور دنیا اور آخرت کے درمیان ترجیح کا سوال جب اس کے سامنے آیا تو اس نے آخرت کو ترجیح دی۔ اس کے اندر اتنی طاقت تھی کہ اخلاقی فائدے کی خاطر مادی نقصان برداشت کرلیا۔ پنجم: وہ اپنے آپ کو اس معاملے میں آزاد نہیں سمجھتا کہ سہولت دیکھ کر مناسب موسم میں روزے رکھ لے بلکہ جو بھی وقت مقرر کیا گیا ہے اس نے اس کی پابندی کی ہے۔ ششم: اس میں صبرو استقامت، تحمل، یکسوئی اور دنیوی تحریصات کے مقابلے کی طاقت کم از کم اتنی ہے کہ رضائے الٰہی کے بلند نصب العین کی خاطر وہ ایک ایسا کام کرتا ہے جس کا نتیجہ مرنے کے بعد دوسری زندگی پر ملتوی کردیا گیا ہے۔ یہ کیفیات جو روزہ رکھنے کے ساتھ انسان کی زندگی میں ابھرتی ہیں، روزوں میں عملاً ایک طاقت بن جاتی ہیں اور ہر سال ایک ماہ روزہ رکھنے پر انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں۔
ضبط نفس: اس تربیت کے ضابطے میں کسنے کے لئے دو خواہشوں کو خاص طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ یعنی بھوک اور جنسی خواہش اور ان کے ساتھ تیسری خواہش آرام کرنے کی خواہش بھی زد میں آجاتی ہے، اس لئے کہ تروایح پڑھنے اور سحری کیلئے اٹھنے سے اس پر بھی کافی ضرب پڑتی ہے۔ بقائے نفس کے لئے غذا اور آرام اور بقائے نسل کے لئے تو الدوتناسل حیوانی زندگی کے مطالبات میں اصل و بنیاد کا حکم رکھتے ہیں انسان کے حیوانی جسم کے اہم ترین مطالبات یہی ہیں اور چونکہ وہ ذرا اونچے قسم کا حیوان ہے لہٰذا وہ صرف غذا ہی نہیں مانگتا بلکہ اونچی قسم کی نت نئی غذائیں تلاش کرتا ہے۔ یہی حال دیگر خواہشات کا ہے کہ ان میں بھی انسان کا مطالبہ محض جسمانی تسکین نہیں رہ جاتا، ہزاروں نزاکتیں اور باریکیاں نکل آتی ہیں، اب اگر انسان کا مطمح نظریہ بن جائے کہ کس طرح ان خواہشات کی تسکین کرتا رہے تو یہ خواہشات نفس انسانی پر سوار ہوجاتی ہیں۔ اس کے برخلاف اگر انسان ارادے کی باگیں مضبوطی سے تھامے رہے تو ان خواہشات کو اپنے پیچھے اور مرضی کے مطابق چلاسکتا ہے۔ روزے کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد انسان کو اس کے حیوانی جسم پر اقتدار بخشنا ہے۔ مذکورہ بالا تین خواہشات جو انسان کی تمام حیوانی خواہشات میں سب سے زیادہ اہم ہیں روزہ ان تینوں کو گرفت میں لے لیتا ہے اور ان کے منہ میں مضبوط لگام دے کر رسی ہمارے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ تیس دن کی مسلسل مشق کا مقصد یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہمارا نفس ہم پر غلبہ حاصل کرلے ہم اپنے خادم پر پورا اقتدار حاصل کرلیں، جس خواہش کو چاہیں روک دیں اور اپنی جس قوت سے جس طرح چاہیں کام لے سکیں اس لئے کہ وہ شخص جسے اپنی خواہشات کا مقابلہ کرنے کی کبھی عادت نہ رہی ہو اور جو نفس کے ہر مطالبے پر بے چوں و چراسرجھکادینے کا خوگررہا ہو اور جس کے لئے حیوانی جبلت کا داعیہ ایک فرمان واجب الاذعان کا حکم رکھتا ہو، دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔
یہاں روزے اور غیر اسلامی نفس کشی کی مشقوں کا اصولی فرق ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اس لئے کہ یہ دوسری قسم کا اقتدار تو دراصل ایسی جاہل، مطلق العنان خودی کا استبداد ہے جو اپنے سے بالاتر کسی حاکم کی مطیع اور کسی ضابطہ و قانون کی پابند نہیں ہے، اس اقتدار کے لئے انسان خود اپنی فطرت سے لڑتا ہے اور جسم اور نفس سے ان کے جائز حقوق چھینتا ہے۔ اس کے برخلاف اسلامی روزہ جس خودی کا نفس اور جسم پر اقتدار دیتا ہے وہ مطلق العنان خودی نہیں بلکہ خدا اور اسکے قانون کی اطاعت کرنے والی خودی ہے۔ ایسی خودی جو خدا کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت، علم اور کتاب منیر کی رہنمائی میںچلنے والی ہے وہ خدا کے دئیے ہوئے نفس و جسم کی اپنی ملکیت نہیں سمجھتی بلکہ اسے خدا کی امانت مان کر اس پر خدا کی منشا کے مطابق حکومت کرتی ہے۔ ایسی خودی کا حامل اپنے جسم پر ظلم نہیں کرتا بلکہ اس کو تمام جائز راحتیں بہم پہنچاتا ہے لیکن وہ اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا حدود کو توڑڈالے۔
اجتماعی اثرات: یہاں تک جو کچھ کہا گیا ہے وہ افراد کی تربیت سے متعلق تھا، ہم نے دیکھا کہ:
اول: اس تربیت کے ذریعے سے جماعت کے ہر فرد کو خداوند عالم کی حاکمیت کے مقابلے میں اپنی خود مختاری سے عملاً دست بردار ہوجانے کے لئے تیار کیا جائے۔ دوم: ہر فرد کے ذہن میں خدا کے عالم الغیب والشہادۃ ہونے اور آخرت کی بازپرس کا عقیدہ عملی مشق و تمرین کے ذریعے اس طرح جاگزین کردیا جائے کہ وہ خود اپنی شخصی ذمہ داری کے احساس کی بنا پر (نہ کہ خارجی دبائو کی وجہ سے) قانون الٰہی کی اطاعت کرنے لگے۔ سوم: ہر فرد میں روح پھونک دی جائے کہ ماسوا اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت سے اعتقادتاً عملاً منکر ہوجاائے اور اس کی بندگی اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہوجائے۔ چہارم: ہر فرد کی اخلاقی تربیت اس طرح کی جائے کہ اسے اپنی خواہشات پر مکمل اقتدار حاصل ہوجائے اور اس میں صبر و تحمل، جفاکشی، توکل علی اللہ، ثابت قدمی و یکسوئی کی صفات پیدا ہوجائیں اور اسکے کردار میں اتنی قوت آجائے کہ وہ خارجی ترغیبات اور میلانات نفس کا مقابلہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ روزے ہر عاقل و بالغ فرد پر فرض کئے گئے ہیں، اگرچہ ضروری نہیں کہ تمام افراد میں مندرجہ بالا خصوصیات بدرجہ اتم پیدا ہوجائیں جو اس سے پیدا کرنی مطلوب ہیں۔ اس لئے کہ خارجی عوامل کے علاوہ ذاتی استعداد اور خواہش بھی ضروری ہے لیکن خارجی طور پر اس سے بہتر نظام تربیت دنیا میں ممکن نہیں ہے۔
اجتماعی فوائد: اگرچہ روزہ انفرادی فعل ہے لیکن نماز کے باجماعت ہونیکی وجہ سے جس طرح نماز اجتماعی فعل بن جاتی ہے، اسی طرح روزہ رکھنے کے لئے ایک خاص مہینے کے تقرر نے اس فعل کو ایک اجتماعی عمل بنادیا ہے۔ اس حکیمانہ تدبیر سے روزے کے اخلاقی و روحانی منافع میں جو اضافہ ہوا ہے، اس کی طرف یہاں چند مختصراً اشارات کئے جاتے ہیں:
تقویٰ اور پاکیزگی کی فضا: اس عمل کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک خاص قسم کی نفسیاتی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک شخص انفرادی طور پر کسی ذہنی کیفیت کے تحت کوئی کام کررہا ہو اور اس کے گردو پیش دوسرے لوگوں میں وہ ذہنی کیفیت نہ ہو تو وہ اس ماحول میں اجنبی بن کر رہ جائے گا اور ماحول نہ صرف یہ کہ اس کے بڑھانے میں کوئی مدد نہ دے گا بلکہ اس کی کیفیت کو گھٹادے گا لیکن اگر پورے ماحول پر وہی فضا طاری ہو اور تمام لوگ ایک ہی خیال اور ایک ہی ذہینت کے ماتحت ایک ہی عمل کررہے ہوں تو معاملہ برعکس ہوگا۔ اس وقت ایک ایسی اجتماعی فضا بن جائے گی جس میں پوری جماعت پر وہی ایک کیفیت چھائی ہوئی ہوگی اور ہر فرد کی اندرونی کیفیت ماحول کی خارجی اعانت سے غذا لے کر بے حد و حساب بڑھتی چلی جائے گی۔ ایک ایک سپاہی کا الگ الگ جنگ کرنا اور مہالک جنگ کا برداشت کرنا کس قدر مشکل ہے؟ لیکن جہاں فوج کی فوج ایک ساتھ مارچ کررہی ہو وہاں جذبات شہادت و حماست کا ایک طوفان امنڈ آتا ہے جس میںہر سپاہی مستانہ دار بہتا چلا جاتا ہے۔
روزے کے لئے رمضان کا مہینہ مقرر کرکے شارع نے یہی کام لیا ہے، جس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ ہر غلبہ اپنا موسم آنے پر خوب پھلتا پھولتا ہے اسی طرح رمضان کا مہینہ گویا خیرو صلاح اور تقویٰ و طہارت کا موسم ہے جس میں برائیاں دبتی اورنیکیاں پھلتی پھولتی ہیں۔ اسی لئے احادیث میں آیا ہے کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں۔
جماعتی احساس: اجتماعی عمل کا ایک دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے لوگوں میں فطری اور اصلی وحدت پیدا ہوتی ہے، نسل یا زبان کا اشتراک فطری قومیت پیدا نہیں کرتی۔ آدمی کا دل صرف اسی سے ملتا ہے جو خیالات اور عمل میں اس سے ملتا ہے یہی وہ اصلی رشتہ ہے جو دو آدمیوں کو ایک دوسرے سے باندھتا ہے، جب کوئی شخص اپنے گردو پیش کے لوگوں کو ذہینت اور عمل میں اپنے سے مختلف پاتا ہے تو صریح طور پر اپنے آپ کو ان کے درمیان اجنبی محسوس کرتا ہے، مگر جب بہت سے لوگ مل کر ایک ہی ذہنی عمل کے ساتھ ایک ہی عمل کرتے ہیں تو ان میں باہمی یگانگت، رفاقت، یکجہتی اور برادری کے گہرے تعلقات پیدا ہوجاتے ہیں۔ نیکی ہو یا بدی دونوں صورتوں میں اجتماعی نفسیات اسی طرح کام کرتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ بدی کے راستے میں افراد کی نفسیات کا داخل رہتا ہے جس کا فطری میلان فرد فرد کو پھاڑ کر الگ کردینے کی طرف ہے۔ اس بناء پر برادری مستحکم نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف نیکی کے راستے میں نفسانیت دبتی ہے اور نیک خیالات و افعات کا اشتراک بہترین رشتہ اخوت پیدا کردیتا ہے۔
امداد باہمی کی روح: اس اجتماعی عبادت کا تیسرا زبردست کام یہ ہے کہ یہ عارضی طور پر تمام لوگوں کو ایک سطح پر لے آتی ہے، اگرچہ امیر امیر ہی رہتا ہے اور غریب غریب، لیکن روزہ چند گھنٹوں کے لئے امیر پر بھی وہی کیفیت طاری کردیتا ہے جو اس کے فاقہ کش بھائی پر گزرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی مصیبت حقیقی طور پر محسوس کرتا ہے اور خدا کی رضا کا جذبہ اسے غریب بھائیوں کی مدد پر اکساتا ہے، جس قوم کے امیروں میں غریبوں کی تکلیف کا احساس اور ان کی عملی ہمدردی کا جذبہ ہو اور جہاں صرف اداروں ہی کو خیرات نہ دی جاتی ہو بلکہ فرداً فرداً بھی حاجت مندوں کو تلاش کرکے مدد پہنچائی جاتی ہو وہاں نہ صرف یہ کہ قوم کے کمزور حصے تباہ ہونے سے بچ جاتے ہیں اور اجتماعی فلاح برقرار رہتی ہے بلکہ غربت اور امارت میں حسد و نفرت کے بجائے محبت اور شکر گزاری کے تعلقات استوار ہوتے ہیں اور وہ طبقاتی کشمکش کبھی رونما نہیں ہوسکتی جو ان قوموں میں برپا ہوتی ہے، جن کے مالدار لوگ جانتے ہی نہیں کہ فقر و فاقہ کیا چیز ہوتی ہے اور جو قحط کے زمانے میں تعجب سے پوچھتے ہیں کہ لوگ بھوکے کیوں مررہے ہیں؟ انہیں روٹی نہیں ملتی، تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟؟؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں