ہما رے ہا ں ”نیو تہ “ کی رسم عام ہے ، جس میں دولہا کو دعوت ولیمہ کے بعد بند لفافوں میں پیسے یا نوٹو ں کے ہا ر کی شکل میں رقم دی جا تی ہے ۔ اس کا بعض جگہ اس قد ر اہتمام دیکھا کہ ولیمہ سے فرا غت کے بعد دولہا والو ں میں سے کو ئی شخص باقاعدہ رجسٹر لے کر بیٹھتا ہے اور رقم دینے والے کا نام اور اس کی طر ف سے ملنے والی رقم کااندرا ج کر تاہے اور ولیمہ سے پہلے ہی دولہا والو ں کا یہ نظریہ ہو تاہے کہ اگر ہم پچا س ہزار روپے قرض لے کر بھی ولیمہ کر لیں تو اس نیو تہ کی شکل میں ہمیں چالیس ہزار تو مل ہی جا ئیں گے ، یہی وہ بدعات و رسومات ہیں جنہو ں نے نکا ح جیسی آسان عبا دت کو مشکل تر بنا دیا ہے ۔ آئیے ! اس نیو تہ کا شرعی جا ئز ہ لیں اور اس کی دینی اور دنیا وی خرا بیو ں کے پیش نظر اس بری رسم سے تو بہ کریں ۔
نیوتہ کی رسمِ بد
رسمی شا دی کی ایک اہم کڑی اور مضبو ط رکن نیو تہ بھی ہے ۔ ہمارے یہا ں جنو بی پنجا ب میں نیو تہ کے بغیر شا دی کا تصور ہی نہیں ہو سکتا ۔ آپ سیرت کی کتا بیں کھنگا ل لیجئے !تا ریخ کی کتب بار بار پڑھئیے !آپ کہیں بھی ملا حظہ نہیں کر سکیں گے کہ حضور علیہ السلام نے اپنی شا دیو ں میں نیو تہ وصول فرما یا ہو۔ کسی صحا بی ، تابعی ، عالم ، اولیا ءاللہ سے اس عجو بہ کا ثبو ت نہیں ملتا ۔ حا لانکہ ہم مسلمان اسوئہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کے پا بند ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیا تِ طیبہ میں متعدد نکا ح کیے۔ ان تمام نکا حو ں کی تفصیل احادیث و سیرت کی کتابو ں میں محفوظ ہے ۔ جن کا خلا صہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے انتہا ئی سا دگی کے ساتھ نکا ح کیے ۔ بس دو چا ر آدمی جمع ہوئے خطبہ پڑھا گیا پھر رخصتی کر دی گئی ۔ یہ ہے اسلامی نکاح کی اصل ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فر مان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی کتب میں ملے گا۔ جس کا مفہو م یہ ہے کہ حسبِ استطا عت ولیمہ ضرور کرنا چاہیے ۔ استطاعت سے بڑھ کر ولیمہ صحیح نہیں اور یہ بھی یا د رکھیں کہ ولیمہ بلا عوض ہو نا چاہیے۔ اگر ولیمہ کا عوض لے لیے گیا تو یہ دنیا و ی ولیمہ تو ہو سکتا ہے ، مسنون ولیمہ نہیں ہو گا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل مخفی نہیں ہے ۔ اس طر ح نکاح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ کر نا بھی مخفی نہیں ہے اور ولیمہ کا عوض نیو تہ کا نہ لینابھی مخفی نہیں ہے ۔ ثا بت ہو گیا جو آدمی حسبِ استطا عت ولیمہ کرے لیکن بلا عوض نیو تہ نہ لے تو اس کے سنت پر عمل کی وجہ سے نکا ح میں بر کت ہو گی ۔ اس کے برعکس جس آدمی نے ولیمہ بالعوض کیا یعنی نیو تہ لیا تو اس نے سنت سے منہ موڑ ا۔اس کا ولیمہ مسنون نہیں بلکہ مذموم ہے اور ولیمہ دنیا وی ہے اور اس شخص کو مسنون ولیمہ نہ کر نے پر اپنے نکا ح میں بے برکتی دیکھنی پڑے گی۔ چنانچہ اس بری رسم نیو تہ کی وجہ سے بعض دفعہ اتنی بے بر کتی ہو جاتی ہے کہ آخر نو بت طلا ق تک جاپہنچتی ہے ۔
نیو تہ کی مزید خرا بیا ں
(1 ) بلا ضرورت قرض لینا ، دین اسلام میں منع ہے ، جس نے بغیر کسی ضرورت کے قرض لیا وہ گناہ گار ہو گا ۔ (2 ) مقرو ض کے پا س جب بھی رقم آجا ئے تو فوراً قرض اتا ر دے ، نہیں اتارے گا تو سخت گناہ گار ہو گا۔ (3)حضور صلی اللہ علیہ وسلم مقروض کی نما زِ جنا زہ نہیں پڑھا تے تھے بلکہ صحابہ کرام کو فرما تے تم پڑھ لو میں نہیں پڑھتا ۔ شہید کے گناہ شہا دت کے وقت ہی معا ف کر دئیے جا تے ہیں مگر قرض معاف نہیں ہو تا ۔ (4)اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں ”حَرَّمَ الرّبٰوا“ یعنی اللہ نے سو د کو حرام قرار دیا ہے نیز قرآن کریم میں ہے کہ جو آدمی سو د کا معاملہ کرتاہے ۔ اس کے خلا ف اللہ اور اس کے رسول کا اعلان جنگ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرما ن کا مفہوم ہے کہ جس نے سود کا ایک درہم کھا یا اسے اپنی ماں سے چھتیس بار زنا کرنے کا گنا ہ ملے گا ۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی حرام کھا ئے وہ ساری رات آہ و زاری کر تا رہے تو بھی اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (مشکوة شریف ) (5)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کا مال اس کی رضا کے بغیر کھائے ۔
آپ ان امور بالا کو بار بار غور سے پڑھیں پھر نیو تہ میں درج ذیل ان باتو ں کو تلا ش کرنے کی کوشش کریں:
٭ نیو تہ قرض ہو تاہے جو دوسرو ں کی شا دی پر واپس کر نا ہوتاہے ۔یہ قرض لینا بغیر ضرورت کے ہے ، جس کے بارے میں آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ بغیر ضرورت کے قرض لینے والا گنا ہ گار ہے ۔٭ جب ایک آدمی شادی کر تاہے اور نیوتہ وصول کر لیتا ہے تو گویا اس نے قرض لے لیا ہے ، اب یہ بن گیا مقروض اور شرعی حکم یہ ہے کہ جب ہی رقم آجائے قرض اتا ر دیا جائے لیکن یہا ں جب تک دوسرا آدمی شادی نہیں کرےگا پہلا آدمی اپنا قرض نہیں اتا رے گا ۔اب اگر خدانخواستہ جو آدمی نیو تہ وصول کر چکا ہو اور واپس نہیں کر پا یا تھا کہ فوت ہو گیا تو آپ نے پڑھ لیا کہ مقروض کا جنا زہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہیں پڑھتے تھے۔ اندا زہ کیجئے یہ آدمی کتنی مصیبت میں پھنس چکا ہے۔ شہید کو بھی قر ض معاف نہیں تو عام آدمی کو قرض کیسے معا ف ہو سکتا ہے ۔ نہ جانے اس کے ورثا ءاس کا قرض کب اتا ریں گے ۔ نیو تہ کا قرض تو جب تک شا دی نہ ہو نہیں اتار ا جا سکتا ۔ نیو تہ کھلم کھلا سو د ہے ۔ سو د کہتے ہی اس کو ہیں کہ پانچ دو اور دس لو ۔ کیا نیو تہ میں ایسا نہیں ہو تا کہ ایک آدمی سو روپیہ دے جا تا ہے تولینے والا ایک سو پچاس یا اس سے زیادہ واپس کر تا ہے ۔ سو د کے با رے میں آپ نے ملا حظہ کیا کہ یہ چیز حرام ہے گو یا جو آدمی نیو تہ دیتا یا لیتا ہے وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلا ف جنگ کا اعلا ن کرتاہے۔ جس کی ہلا کت میں کوئی شک نہیں ہے۔ مسلمانو!اب بھی وقت ہے نیوتہ جیسی چیزسے تو بہ کر لو ۔ نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سود خور اور حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ آج ہم مسلمان ذلت کا شکار ہیں ، ہما ری دعائیں قبول نہیں ہو تیں ۔اس کی وجہ تو ظاہر ہے، کوئی غور بھی تو کرے ۔ ٭ نیو تہ دل کی خو شی سے ادا نہیں کیا جا تا بلکہ اپنے رشتہ دار وں کے ڈر سے ادا کیا جا تاہے اور کئی مر تبہ دیکھا گیا ہے کہ جب شا دی کارڈ وصول ہو تا ہے تو لو گ کہتے ہیں کہ نیو تہ کی مصیبت آگئی۔ کیا جو چیز دل سے دی جائے وہ مصیبت ہوتی ہے؟ اکثر قرض اٹھا کر ادائیگی کی جا تی ہے۔ گویا ہم اپنے بھائیو ں کا مال ان کی رضا کے بغیر کھا رہے ہیں اور دوسروں کو کھلا رہے ہیں ،جو صریح ظلم ہے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں