دنیا میں مو جو د ہر مذہب و ملت میں عام صفائی کی ہدایات پا ئی جا تی ہیں مگر اسلام نے ان امور میں اتنی تفصیلی اور واضح ہدایات دی ہیں اور ایسے اصول و قواعد تجویز کئے ہیں کہ ان کی مثال کہیں اور نہیں ملتی اور ہما رے اسلاف نے چھوٹے چھوٹے مسائل پر اتنی طویل اور سیر حاصل بحثیں کی ہیں کہ انہیں پڑھ کر انسان حیران رہ جا تاہے ۔ بعض لو گ ان کی حکمت اور فلسفہ نہ سمجھنے کے باعث انہیں ”ڈھیلے اور استنجے“ کے مسائل کہہ کر ہنسی میں اڑا دیتے ہیں ۔ اگر ان پر علمی نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو ان کی افا دیت و اہمیت سے انکا ر نہیں ہو سکتا ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ حفظان صحت کے قواعد میں گو بظا ہر یہ معمولی با تیں ہیں لیکن بنیا دی امور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
دور حاضر کی متمدن اقوام میں رفع حاجت کے بعد کا غذ، کپڑا وغیرہ سے صفائی کی جا تی ہے ۔ بعض دفعہ پانی بھی استعمال کیا جا تاہے اور غیر متمدن اقوام میں ڈھیلے ، پتھر وغیرہ یا پانی سے کام لیا جا تاہے ۔ لیکن اسلام میں اس غر ض کے لیے پانی کا استعمال ضروری قرار دے کر اتنی مفید ہدایا ت دی گئی ہیں کہ ان کا کسی اور قوم میں (متمدن ہو یا غیر متمدن) نام و نشان نظر نہیں آتا اور ایک عقل مند انسان اپنے قومی اورملی تعصبا ت سے بالا ہو کر اس امر سے انکا ر نہیں کر سکتا کہ جب تک کوئی حکیم و علیم ہستی رہنمائی نہ کر رہی ہو کوئی انسان اس قسم کی پرحکمت او رنو ع انسان کے لیے نہا یت ہی مفید با تیں بتا نہیں سکتا۔فراغت کے بعد بہترین طریق صفائی یہ ہے کہ استنجا کے لیے صرف بایا ں ہا تھ کام میں لا یا جا ئے اور داہنے ہا تھ سے پانی ڈالا جا ئے ۔ اس پابندی میں بڑی حکمت ہے ۔
قدرت نے خو دہی ہا تھو ں میں تقسیم کا ر کر دی ہے ۔ استثنائی صورتیں چھو ڑ کر ہر انسان کا داہنا ہا تھ بائیں کی نسبت زیادہ مضبو ط اور طا قتور ہو تاہے ۔ اکثر حیوان بھی پہلے اپنا داہنا پائو ں ہی اٹھا تے ہیں ۔ مثلاً گھوڑا ، اسی لیے دائیں ہاتھ کو عر بی میں یمین یا برکت والا ہا تھ کہا گیا ہے ۔ اسی قدرتی تقسیم کے مطابق کھانے پینے میں داہنااور طہا رت و صفائی میں با یا ں ہاتھ کام میں لانے کی اسلام میں ہدایت ہے ۔
ایک غیر مسلم کا واقعہ
ایک مسلم ڈاکٹر نے مجھے ایک وا قعہ بتایا ۔ ” ایک غیر مسلم جس کی پنڈلی پر چوٹ لگی ہوئی تھی اور خون زخم سے بہہ رہا تھا ۔ علاج کے لیے میرے پا س آیا ۔ میں نے اسے بر تن میں زخم دھونے کے لیے پانی دیا ۔ وہ دائیں ہا تھ سے پا نی لے کر اسی سے زخم صاف کرنے لگااور با ربا روہی خو ن آلو د ہا تھ بر تن میں ڈالنے لگا اس عمل سے پانی بالکل گندہ ہو گیا ۔ وہ پانی گرا کر میں نے اسے اور صاف پانی دیا اور اسے کہاکہ زخم پر داہنے ہا تھ سے پانی ڈالو اور بائیں سے صاف کرو ۔ زخم بھی جلد صاف ہو جائے گا اور پانی بھی خرا ب نہ ہو گا اور اسے بتا یا کہ اسلام نے دائیں اور بائیں ہا تھ کے کامو ں کی تقسیم میں یہی حکمت رکھی ہے ۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب تم کپڑا پہنو ، غسل کرو یا وضو کر وتو دائیں جانب سے شرو ع کیا کرو سوائے طہا ر ت وغیر ہ کے جبکہ نجاست صاف کرنی پڑتی ہے ۔ ہرمعاملے میں دائیں ہاتھ کے کام میں لا نے کی ہدایت ہے ۔ رفع حا جت کے بعد پانی سے طہارت کرنے سے قبل ، اگر کسی صاف ستھری خشک چیز مثلاًکپڑا ، کا غذ، ڈھیلا ، پتھر وغیرسے متعلقہ حصہ جسم پونچھ لیا جائے تو بڑی اچھی با ت ہے گو صرف پانی استعمال کرنے میں بھی کوئی حر ج نہیں ہے مگر دونو ں کے استعمال سے صفائی اچھی ہو تی ہے اور یہی بہترین طریقہ ہے جسے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پسند فرمایا ہے ۔
ہا ں اس غر ض کے لیے تین ٹکڑے کا غذ یا کپڑے کے ، تین یا طا ق ڈھیلے یا پتھر کام میں لائے جائیں تو زیا دہ مناسب ہو تا ہے ۔ تین کی تعداد زیادہ صفائی کے پیش نظر مقرر کی گئی ہے ۔ ایسا کرنے کے بعد پانی سے جسم کے متعلقہ حصے دھوئے جا ئیں تو بہت زیا دہ صفائی ہو جا تی ہے ۔ اسلامی اصطلا ح میں اسے استنجا کہتے ہیں ۔
یہ ہے استنجا اور ڈھیلا کا مسئلہ جس پر غیر اور بعض نا واقف نو تعلیم یا فتہ مسلمان ہنسی اڑایا کر تے ہیں ۔ صحت و صفائی کے نقطہ نظر سے ان میں سے کون سی قبا حت یا کونساامر قابلِ اعتراض ہے ۔ استنجا کرنے کے بعد بایا ں ہاتھ جس سے صفائی کا کام لیا جا تا ہے صاف مٹی پر رگڑ کر یا باامر مجبو ری صابن سے دھو لیا جاتا ہے ۔ ہا ں اس صفائی یا استنجا کے سلسلہ میں ایک پابندی بھی ہے جو بظاہر بالکل معمولی سی با ت معلوم ہو تی ہے مگر درحقیقت ہے بڑی پُر حکمت ۔ شارع اسلام علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا : ” فراغت کے بعدمتعلقہ حصہ جسم کی صفائی ، ہڈی اور گو بر سے ہر گز نہ کرنی چاہیے کیونکہ یہ جنات کی خورا ک ہے ۔“
جنوری کے متعلق عوام توہمات و تصورات کے پیش نظر یہ بات بڑی مضحکہ خیز معلوم ہو تی ہے لیکن جن کے لغوی معانی پر غور کیا جائے تو اس امتنا ع کی حقیقت واضح ہو جا تی ہے ۔ عر بی میں جن کا لفظ ہر مخفی چیز موذی یا غیر موذی کے لئے استعمال ہو تاہے ۔کو ئی خطر ناک کام کرنے والا انسا ن مثلاًفلک بو س عما رت تعمیر کرنیوالامعمار ، بلی ، شیر وغیرہ بھی جن کہلا تے ہیں ۔ اسی طرح اس لفظ کا اطلا ق غیر مرئی جرا ثیم پر بھی ہو تا ہے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں