ہمارے یہاں ایک دوسرے کو سمجھنے کا آغاز شادی کے بعد ہی شروع ہوتا ہے لیکن اگر شادی خاندان میں ہو تو پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیںیوں ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ شادی کے بعد میاں بیوی کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی پسند ناپسند، مزاج اور رویوں کا بغور مطالعہ کریں۔
گھر اگر پرسکون ہو تو پھر یوں سمجھو کہ اس کے مکینوں کو دنیا میں ہی جنت مل گئی لیکن اگر گھر کا سکون غارت ہو تو نہ صرف یہ جہنم کی مثل بن جاتا ہے بلکہ میاں بیوی کے علاوہ بچے اور گھر کےدیگر افراد بھی اس آگ کی تپش میں جھلس کر روگی بن جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میاں اور بیوی کے درمیان کیسے خوشگوار تعلقات قائم ہوں کہ گھر جنت کا نمونہ اور دونوں کی رفاقت دوسروں کیلئے مثالی بن جائے اور اس نخلستان میں بچے ثمرآور درخت کی مانند پھل پھول کر ایسا توانا درخت بنیں کہ جن کے زیرسایہ دوسرے بھی بیٹھ کرسکون کا سانس لے سکیں۔ میاں بیوی کے درمیان خوشگوار تعلقات نہ ہوں تو پھر ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ ایک جوڑا جو بزرگوں کی دعاؤں اور خوشیوں بھرے ماحول میں نئی مشترک زندگی کے سفر کا آغاز کرتا ہے ان کے درمیان ایسی تلخیاں کیوں جنم لےلیتی ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا اتنا دوبھر ہوجاتا ہے کہ پھر یا تو علیحدگی کا ہی راستہ رہ جاتا ہے یا پھر اگر خاندان کی ناموس یا بچوں کو پاؤں کی زنجیر سمجھ کر ساتھ زندگی گزاری بھی جاتی رہے تو پھر خوشیاں تو کہیں دور چلی جاتی ہیں اور تلخ ماحول انسان کوزندہ درگور کردیتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچنے کی کوشش کی ہے کہ ازدواجی زندگیوں میں تلخیاں کیوں جنم لیتی ہیں اور تلخیوں کو خوشیوں میں درآنے کا کیسے موقع مل جاتا ہے۔
ازدواجی زندگی میں تلخیوں کا سبب جاننے کی کوشش کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اعتماد کے سہارے دو خاندان اور دو افراد ایک ساتھ زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کرکے نئی زندگی کے سفر کا آغاز کرتے ہیں لیکن اس اعتماد کےسہارے شروع ہونے والے سفر کے بیچ میں ہم کسی نہ کسی روز ان سے بے اعتمادی کو در آنے دیتے ہیں اور پھر اس در آنے والی بے اعتمادی کے چھوٹے سے ذرے کو تلف کرنے کے بجائے اسے پہاڑ بننے کا موقع دیتے رہتے ہیںاور جب یہ سروں سے اونچا ہونے لگتا ہے تو اس کے زیر سایہ بیٹھ کر ازدواجی زندگی کا سکون غارت کرنے لگتے ہیں، کیوں ہے نا نہایت ہی احمقانہ بات۔آئیں! ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ دلوں سے شک اور بے اعتمادی کو نکال کر آپ کس طرح پُرسکون اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزار کر گھر کو جنت کا نمونہ بناسکتے ہیں۔
ایک دوسرے کو سمجھیں: ہمارے یہاں ایک دوسرے کو سمجھنے کا آغاز شادی کے بعد ہی شروع ہوتا ہے لیکن اگر شادی خاندان میں ہو تو پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیںیوں ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ شادی کے بعد میاں بیوی کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی پسند ناپسند، مزاج اور رویوں کا بغور مطالعہ کریں۔ اس طرح وہ جان سکتے ہیں کہ کس ماحول میں وہ کس طرح ایک دوسرے کےساتھ زیادہ بہتر انداز میں گفتگو کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں بیوی پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ بیوی کے ساتھ ساتھ بہو، بھابھی، جیٹھانی بھی ہوتی ہے۔ اس کےعلاوہ بھی کئی ایسے رشتے ہوتے ہیں جس میں وہ نکاح کے تین بولوں کے بعد بندھ جاتی ہے۔ اس لیے اگر وہ اپنے سسرال اور دیگر نئے رشتے داروں اور گھریلو ماحول کے متعلق جان لے اور پھر سلیقے سے کام لے کر تھوڑا درگزر اور تھوڑی مصلحت کے ساتھ ان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرے تو کوئی شک نہیں کہ کچھ ہی دن میں سارا سسرال اس کے گیت نہ گاتا پھرے۔ ویسے بھی بہو کو زندگی سسرال والوں کے ساتھ گزارنا ہوتی ہے اس لیے اگر وہ ان کا اعتماد حاصل کرلے تو بہت سی مشکلات کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔شک نہ کریں: شک تمام فساد کی جڑ ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ میاں بیوی دل میں شک کے ننھے پودے کو تناور درخت بننے سے پہلے ہی کاٹ دیں۔ میاں بیوی میں سے اگر کسی ایک فریق کو دوسرے پر کسی قسم کا کوئی شک ہو تو اسے اول تو کسی تیسرے فرد پر ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ دوم یہ کہ آپس میں بیٹھ کر اس موضوع پر صاف صاف بات کرلینی چاہیے لیکن اس کیلئے موقع محل کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ دوسرے فریق کا مزاج خوشگوار ہے تو پھر ہلکے پھلکے انداز میں بات شروع کریں اور آرام آرام سے بات مکمل کرکے اس شک کو دل سے صاف کرنے کوشش کریں۔ یاد رکھیں کہ باہمی صلح صفائی باہمی اعتماد کے فروغ میں بھی بہت اہم ثابت ہوتی ہے۔ سیروتفریح ضرور کریں: ہفتہ دس دن میں ایک آدھ بار اپنے رفیق حیات کے ساتھ سیروتفریح کیلئے گھر سےباہر کا رُخ کرنا باہمی اعتماد اور پیارو محبت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس سے باہمی اعتماد اور خلوص میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے بارے میں سمجھنے کے مواقع بھی ملتے ہیں۔تحائف کا تبادلہ: کسی تہوار کا موقع ہو تو ایک دوسرے کو تحائف ضرور دیں۔ ضروری نہیں ہے کہ تحفہ بہت قیمتی ہو بس آپ کو اپنے شریک سفر کے مزاج سے آگہی ہونی چاہیے۔ اگر آپ کو دوسرے فریق کے مزاج سےآگہی ہوگی تو چھوٹی سی چیز بھی دوسرے فریق کی خوشیوں میں بہت زیادہ اضافہ کردے گی۔
ایک دوسرے کا خیال رکھیں: دکھ سکھ انسان کی زندگی کے ساتھ چلتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایک فریق طبیعت کی ناسازی کا شکار ہے تو اس کی دلجوئی کریں۔ اس کے آرام کا خیال کریں۔ یہ چھوٹی سی بات باہمی اعتماد اور محبت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔عزت نفس مجروح نہ کریں: یادرکھیں بیوی ہو یا شوہر دونوں اس رشتے کے علاوہ انسان بھی ہیں اور احترام آدمیت انسان کے مزاج کا پتا دیتا ہے۔ اس لیے کبھی دوسرا فریق خود کو دوسرے کا حاکم نہ سمجھے بلکہ برابر اور رواداری کے اصول پر برتاؤ کیا جائے جس میں کہ محبت کی چاشنی موجود ہو۔ معاملات پر مشورہ کریں: میاں بیوی ایک دوسرے سے باہمی مشورے کرتے رہیں تو اس سے اعتماد اور محبت میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ان چھوٹے چھوٹے چند اصولوں پر عمل کیا جائے تو زندگی کو سہل اور مثل جنت بنانا ناممکن نہیں۔ یقین نہ آئے تو ان مشوروں پر عمل کرکے دیکھ لیں‘ خود ہی جان جائیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں