مشاعرے سے واپسی ہورہی تھی، ٹرین کچھ لیٹ ہوگئی تھی، کسی نے بتایا کہ یہاں پر ایک مشہور حجام کی دکان ہے جگرصاحب نے سوچا چلو وقت کا استعمال ہوجائے گا، خط بنوانے کیلئے اپنے کچھ شاگرد شاعروں کے ساتھ حجام کی دکان پر پہنچے، شیروانی اتار کر پیچھے دکان میں لگی کھونٹی پرٹانگ دی شیشوں اور میناکاری سے سجی ہوئی دکان میں نائی کی کرسی پر بیٹھ گئے، برابر میں ایک شاگرد شاعر بھی حجامت بنوانے لگا، ایک تیسرے شاگرد نے موقع غنیمت جانا، مشاعرے میں جگرصاحب کو چھ سو روپے ملے تھے جو شیروانی میں رکھے ہوئے تھے‘ اس نے بہت ہوشیاری سے اندر کی جیب سے اس رقم پر ہاتھ صاف کیا اور نکال کر اپنی جیب میں رکھ لی۔ اس زمانے میں چھ سو روپے کی رقم کوئی معمولی رقم نہ تھی چونکہ شاگرد، پیشہ ور اور ماہر چور تو تھا نہیں، اسے خیال بھی نہیں آیا کہ نائی کی دکان پر لگے جگمگ شیشے اس کی نقل وحرکت کو نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ وہ آئینہ کے سامنے بیٹھےہوئے جگرصاحب، نائی اور دوسرے شاگرد کو بھی بتارہے ہیں، خط بنوا کر جگر صاحب فارغ ہوئے کھونٹی سے اتار کر اپنی شیروانی پہننے لگے تو دوسرے شاگرد جو برابر میں حجامت بنوارہے تھے اور انہوں نے آئینہ میں اپنے ساتھی کی چوری کا حال دیکھ لیا تھا، اس خیال سے کہ شاید حضرت جگر کی، ساتھی کی حرکت پر نظر نہیں گئی، جگر صاحب کو زور سے کہنا چاہا، طبیعت کی اس فطری حیا اور شرافت پر قربان کہ جگرصاحب نے بے تاب ہوکر اپنے شاگرد کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کو بولنےسےروکا اور باہر لے جاکر بڑی خوشامد سے فرمایا خداکیلئے اب اس بیچارے سے مت کہنا، اگر تم نے اس سے اس کا اظہار کردیا کہ ہم لوگوں کومعلوم ہوگیا ہے تو اس کے چہرےپر جو شرمندگی ہوگی اس کو میں برداشت نہیں کرپاؤں گا اور مرجاؤں گا۔احسن الخالقین رب کائنات نے اپنی رنگارنگ کی خوبی اور اپنی شان کی معرفت کیلئےاندھیرے اجالے‘ اچھائی برائی حق و باطل اور خیر وشر کو پیدا فرمایا، پھر اشرف المخلوقات انسان کے وجود کو اپنی تخلیق کا شاہکار ایک عالم بنا کر اس کے اندر پورے نمونے جمع کردیے۔ اندھیرے کو دیکھ کر اجالے کی، باطل کےسامنے حق کی، شر کے سامنے خیر کی قدر کا احساس ہوتا ہے، اپنی شاہکار مخلوق انسانوں میں بھی کسی کو احسن تقویم بنایا، نفس و شیطان کے اثر سے اسفل السافلین پر پہنچانے کانظام بھی بنایا تاکہ اعلیٰ اخلاق اور انسانی فطری شرافت کے اعلیٰ اقدار کے نمونوں کی لوگ قدر پہچانیں، حضرت جگر مرادآبادی کا یہ واقعہ ان کی توبہ سے پہلے کا ہے، جب وہ شاعرانہ ماحول میں رہ کر شراب جیسی بری لت میں مبتلا تھے اور ظن غالب یہ ہے کہ مشاعرے سے واپسی پر وہ کچھ نہ کچھ اس لت سے متاثر ضرور ہوں گے۔ حسن سیرت اور انسانی خلق اور فطری اعلیٰ اقدار پر پیدا کرنے والے نے ان کو ایسی فطری شرافت، سلامتی اور حیا کی عظمت سےنوازا تھا کہ شاگرد تو چوری سے نہیں شرمایا مگر وہ اس کی ہمت کرنے سے ڈر رہے تھےکہ چور کو اس کی چوری کا احساس دلایا جائے، اس لیے کہ وہ اس کےچہرہ پر شرمندگی اور انفعال کی کیفیت دیکھنے کے وہ متحمل نہیں تھے۔ ان کو خیال تھا کہ ایسے انفعال کو ان کا قلب سلیم برداشت نہیں کرپائے گا اور وہ مرجائیں گے، فطری سلامتی اور انسانی شرافت کے روشن مینار جگر مراد آبادی جیسے لوگ ہیں جو خالق کائنات کی شان خلاقی کا مظہر اور انسانیت کی شان کہلاتے ہیں، یقیناً فطری سلامتی اور طبعی شرافت انسان کا بڑا قیمتی جوہر ہے۔ شریعت نے انسان کو رزائل سے بچنے اور خصائل پیدا کرنے کا حکم دے کر مکلف بنایا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ رزائل کو چھوڑ کر خصائل اختیار کرنا انسان کے اختیار میں ہے، انسان کو اس کا بھی اختیار دیا گیا ہے کہ جگرصاحب کے شاگرد کی طرح احسان فراموش چور بن جائے یا جگرصاحب کی طرح انسانیت کی عظمت کا مینار!!! الم نجعل لہ عینین ولسانا وشفتین وھدیناہ النجدین۔ کاش ہم اسفل السافلین کی راہ کے بجائے احسن تقویم کی راہ اپناتے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں