پنجاب کے ایک گاؤں میں یہ حقیر اپنے ایک رفیق کا، گاڑی رکوا کر انتظار کررہا تھا، سامنے ایک معمار اور بوڑھا مزدور کام کررہے تھے‘ اچانک سائیکل پر ایک ڈاکیا آیا اور بولا عبدالرحمٰن یہاں کون ہے؟ یہ سننا تھا کہ وہ 65 سال سے زائد کا بوڑھا مزدور سات فٹ اونچی پیڑ سے کود گیا، برابر میں سیڑھی لگی تھی، وہ عمر اور چوٹ کے خطرہ کے خیال کے بغیر اوپر سے کودا تھا اور ڈاکیہ کے ہاتھ سے پوسٹ کارڈ گویا چھیننے لگا، میرے بیٹے کا کھت (خط) ہے، ہم دونوں ماں باپ تین دن سے سوئے نہیں کہ بچے کی کھیریت (خیریت) نہیں ملی، ڈاکیا نے ولدیت پوچھی‘ مگر وہ ولدیت بتانے کے بجائے بولا‘ بھیا کھت (خط) ہمارا ہی ہے‘ میں ہی جما کا بیٹا ہوں‘ پوسٹ کارڈ لے کر وہ تیزی سے چل دیا‘ مستری نے پوچھا کہاں جارہا ہے؟ اس نے کہا: خط پڑھوانے، وہ بولا کچھ اینٹیں اور مصالحہ تو رکھتا جا، بولا تجھے مصالحے کی پڑی ہے‘ میرے بچہ کا کھت ہے، ہم تو تین دن سے بانٹ (انتظار) میں سوئے نہیں، معمار نے کہا، مالک آنے والا ہے‘ وہ ناراض ہوگا، وہ بولا: ناراض ہوگا ہوا کرے‘ معمار نے کہا‘ وہ مزدوری نہیں دے گا‘ بولا دس دن کی رکھ لےگا، یہ حقیر قرآن مجید کےسلسلہ میں اس عذر کی وجہ سے کہ قرآن مجید ہم کیسے سمجھیں‘ زبان یا رمن ترکی و من ترکی نمی دانم، قرآن تو عربی میں ہے اور ہم عربی نہیں جانتے، یہ عذر کہاں تک صحیح ہے، تلاش و جستجو میں تھا اور سالوں سے متلاشی تھا کہ کسی کے پاس ایک ایسا خط رکھا مل جائے جو مکتوب الیہ نے اس لیے نہ کھولا اور نہ پڑھا ہو کہ مکتوب الیہ پڑھا لکھا نہیں تھا یا وہ زبان نہیں جانتا جس میں وہ خط لکھا گیا ہے، مجھے آج تک ایسا کوئی خط نہیں ملا جو اس لیے نہ پڑھا گیا ہو کہ وہ خط ایسی زبان میں ہےجو مکتوب الیہ نہیں جانتا۔ یہ حقیر گاڑی سے اتر کر مزدور کے پیچھے ہولیا‘ وہ مزدور مسجد کے حجرہ میں امام صاحب کے پاس پہنچا، امام صاحب کا مطب چل رہا تھا‘ بڑی بیتابی سے بوڑھے مزدور نے خوشامد کرنی شروع کی۔ حافظ جی میرا خط پڑھ دیجئے‘ امام صاحب نے کہا یہ میرا مطب کا وقت ہے‘ ظہر کے بعد آنا، وہ مزدور رونے لگا‘ حافظ جی اللہ کے واسطے پڑھ دو‘ میں اور بچہ کی ماں تین دن سےسوئے نہیں کہ بچہ نے جاکر خیریت کا خط نہیں لکھا حافظ جی کو اس کے رونے
پر ترس آگیا۔ وہ بوڑھا ایک ایک لائن کو بار بار پڑھواتا تھا۔ حافظ جی! اللہ آپ کا بھلا کرے‘ ذرا یہ لائن دوبارہ پڑھو‘ پوسٹ کارڈ پڑھا تو پتہ کی طرف اشارہ کرکے بولا، حافظ جی یہ تو پڑھو‘ انہوں نے بتایا کہ یہ تمہارا نام پتہ لکھا ہے۔ اس نے کہا حافظ جی برکھا (ورق) پلٹو، کہیں کچھ اور لکھا ہو، ذرا حافظ جی، اچھی طرح دیکھ لو اور کچھ تو نہیں لکھا ہے۔ حافظ جی نے کہا ایک ایک لفظ دس دس بار سنادیا۔ جا اب میرا دماغ مت کھا، وہ بوڑھابولا، ذرا دیکھو تو سکر (شکر) تو نہیں منگائی، دیکھو تو سکر کو ضرور لکھا ہوگا۔ حافظ جی نے جھنجھلا کر خط پھینک دیا‘ وہ بوڑھا خط اٹھا کر واپس آیا، دروازہ میں میری خوشامد کرنے لگا، مولانا صاحب ذرا دیکھو کہ کہیں سکر کو تو نہیں لکھا، میں نے ذرا ترس اور محبت سے سمجھایا۔ حافظ صاحب نے لفظ لفظ پڑھ دیا ہے اب اس میں اور کچھ نہیں لکھا ہے اگر تمہارے بچہ کو شکر کا شوق ہے تو تم بھیج دینا یا وہ وہیں سے خرید لےگا۔ بوڑھے کی بے تابی دیکھ کر مجھے بڑا احساس ہوا کہ بیٹے سے محبت ہے تو اس کے خط کو ان پڑھ بوڑھا دس روز کی مزدوری چھوڑ کر ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر کیسی خوشامد اور بے تابی سے پڑھوا رہا ہے، ایک ایک لفظ کو بار بار سن رہا ہے، ایک سے اطمینان نہیں تو دوسرے سے سمجھنے کی کوشش کررہا ہے۔ اللہ کی محبت اور ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود نامہ محبوب قرآن مجید کے ساتھ ہمارا یہ عذر اللہ کے یہاں کیسے قبول ہوسکتاہے، کہ ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں‘ یا ہم ہندوستانی ہیں اور قرآن مجید عربی زبان میں ہے‘ جب کہ قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور اس کو پوری دنیا کو سکھانے اور پہنچانے کے ساتھ ہماری دارین کی ساری کامرانی وابستہ ہے۔ کاش قرآن مجید کے ساتھ ہمارا کم از کم ایسا معاملہ تو ہوتا جیسا اس جاہل بوڑھے مزدور کا اپنے بیٹے کے خط کے ساتھ تھا۔ بار بار خیال آتا ہے اور اپنے حال پر ندامت ہوتی ہے۔ کاش ہم سمجھتے!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں