ایمانداری کا صلہ
کسی گاوں میں ایک نہایت غریب بڑھیا رہتی تھی۔ اس کا ایک لڑکا تھا، انور۔ انور کا باپ بچپن ہی میں اللہ کو پیارا ہو گیا تھا۔ ماں نے محنت مزدوری کرکے اپنے بچے کی پرورش کی تھی۔
انور بلا کا ذہین تھا۔ اس نے گھر پر دینی تعلیم حاصل کی اور سکول سے بھی پانچویں جماعت پاس کر لی۔ آگے تعلیم جاری رکھنے کیلئے روپے کی ضرورت تھی۔ ماں میں اتنی سکت کہاں کہ وہ تعلیم کا بوجھ برداشت کر سکتی۔ مجبوراً انور کو سکول چھوڑنا پڑا۔
اب وہ مزدوری کرکے جو کچھ کما کر لاتا، اس سے دونوں ماں بیٹے کی گزر اوقات ہوتی۔ ایک مرتبہ گاوں میں ایسا قحط پڑا کہ لوگ بھوکوں مرنے لگے۔ انور نے ماں سے کہا: ”ماں، اگر آپ اجازت دیں تو میں پاس کے شہر میں جا کر کوئی کام ڈھونڈوں، جس سے ہمارا گزارا اچھی طرح ہو جائے۔“
ماں کا دل بھر آیا۔ مگر جبر کرکے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ جب انور اپنا سامان باندھ کر رخصت ہونے لگا تو ماں نے کہا ”بیٹا، خیر سے جاو اور خیر سے آو۔ اللہ تمہارا مددگار ہو۔ چند باتیں میری یاد رکھنا۔ اللہ تمہیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ اگر تم سات پردوں میں بھی چھپ کر کوئی کام کرو گے تو بھی اللہ پاک تمہیں دیکھ رہا ہو گا۔“
انور نے کہا ”اللہ نے چاہا تو میں ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔“
ماں نے دعائیں دیں اور مسکراتے ہوئے اسے خدا حافظ کہا۔
انور رخصت ہو کر شہر آیا اور کام کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا لیکن کسی جگہ شنوائی نہ ہوئی۔ جہاں جاتا، لوگ دھتکار دیتے۔ چار پانچ دن اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن اسے اپنا ایک دوست اقبال مل گیا۔ انور نے اسے سارا ماجرا سنایا۔ اقبال اس کو اپنے گھر لے گیا اور اس کی سفارش سے انور کو ایک چھوٹے سے کارخانے میں کام مل گیا۔
کارخانے کا مالک بہت امیر آدمی تھا مگر دولت نے اسے اللہ سے غافل نہیں کیا تھا۔ وہ محنت سے روپیہ کماتا اوراسے بھلے کاموں پر صرف کرتا۔ اسے ایک ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو ایمان دار ہو اور اس کی آمدنی کا حساب کتاب رکھے۔ جب انور نوکری کیلئے اس کے پاس آیا تو اس نے اس کے چہرے پر نیکی کے آثار دیکھے۔ چنانچہ اس نے انور کو ملازم رکھ لیا اور یہ دیکھنے لگا کہ اس کی عادتیں کیسی ہیں اور وہ کس طرح کام کرتا ہے۔ انور ہر وقت اپنی ماں کی نصیحت کو یاد رکھتا تھا۔ کارخانے کے دوسرے کاریگروں کا یہ حال تھا کہ جب تک مالک موجود رہتا، محنت سے کام کرتے۔ مگر جب وہ ادھر ادھر ہوتا سستی کرنے لگتے۔ مگر انور ایسا نہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ مالک موجود ہو یا نہ ہو، اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ میں اپنے کام کو ایمان داری سے کر رہا ہوں یا نہیں۔
مالک نے جلد ہی معلوم کر لیا کہ انور سب سے زیادہ اور سب سے اچھا کام کرتا ہے۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ انور کو حساب کتاب کا کام سکھا کر اپنا خزانچی بنائے گا۔ مگر ایسا کرنے سے پہلے اس کی ایمانداری کا امتحان لینا ضروری تھا۔
اور آج انور کا امتحان تھا۔ مالک نے انور کو بلایا اور حساب کا رجسٹر اسے دے کر کہا کہ الماری میں تین ہزار روپیہ پڑا ہے۔ گن کر دیکھ لو کہ حساب کے مطابق ہے۔ انور نے رجسٹر لیا، حساب دیکھا، پھر الماری کھولی اور روپیہ گننا شروع کیا۔ پانچ سو روپے ایسے تھے جن کا حساب میں ذکر نہ تھا۔ اگر وہ یہ روپیہ لے لیتا تو کوئی ثبوت ایسا نہ تھا جس سے ثابت کیا جا سکتا کہ اس نے چوری کی ہے۔
شیطان انور کو بہکانے لگا کہ اس رقم سے تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی۔ اسے لے لو اور چپکے سے جیب میں ڈال لو۔ لیکن یکایک اس کے کانوںمیں ایک آوز گونجنے لگی: ”چاہے تم سات پردوں میں چھپ کر کوئی کام کرو پھر بھی اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے“
وہ پکار اٹھا ”میرا پروردگار مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ روپے پرائے ہیں۔ مجھے انہیں ہاتھ لگانے کا کوئی حق نہیں۔“
یہ کہہ کر اس نے لاحول ولاقوةالا باللہ العلی العظیم پڑھا اور روپے الماری میں رکھ دیئے۔ اتنے میں کارخانے کا مالک آگیا۔ اس نے پوچھا ”انور، تم کس سے باتیں کر رہے تھے؟“
انور نے کہا ”جناب میں اپنے آپ سے باتیں کررہا تھا۔“
مالک نے پوچھا ”معاملہ کیا تھا؟“
اب انور سے ضبط نہ ہو سکا۔ کہنے لگا ”جناب، آپ نے مجھے حساب کتاب کرنے کے متعلق کہا تھا۔ میں نے حساب کیا تو پانچ سو روپے ایسے ملے جن کا ذکر رجسٹر میں نہیں تھا۔ شیطان مجھے بہکانے لگا کہ ان کو اڑا لو۔ مگر عین وقت پر مجھے اپنی ماں کی نصیحت یاد آگئی کہ چاہے تم سات پردوں میں چھپ کر بھی کوئی کام کرو۔ پھر بھی اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نصیحت کا یاد آنا تھا کہ میں اپنے آپ کو لعنت ملامت کرنے لگا۔“ کارخانے کے مالک نے اسے شاباش دی اور کہنے لگا تم واقعی ایمان دار ہو۔ میں نے تمہارے امتحان کی خاطر پانچ سو روپے زیادہ الماری میں رکھ دیئے تھے۔ آج سے تم میرے خزانچی ہو۔“ اس نے انور کی معقول تنخواہ مقرر کر دی اور اسے ایک مکان رہنے کیلئے دے دیا۔ تھوڑے دنوں بعد انور نے اپنی ماں کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور دونوں ماں بیٹا آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔
جب بادشاہ کی نیت خراب ہو جاتی ہے!
نوشیروان عادل ایک روز شکار کھیلتے ہوئے جنگل میںساتھیوں سے علیحدہ ہو گئے۔ بہت پیاسے تھے، ایک جھونپڑا دکھائی دیا۔ وہاں پہنچ کر پانی مانگا۔ ایک لڑکی انار کا رس لے کر آئی، اس میں کچھ کچرا پڑا تھا۔ نوشیروان نے پیا پھر اور طلب کیا اور کہا: ”کچرا نہ ہو۔“
لڑکی نے کہا: ”وہ کچرا میں نے خود ڈالا تھا، آپ سخت پیاسے دکھائی دے رہے تھے، اگر ایک دم سے پی جاتے تو نقصان ہوتا۔“
بادشاہ نے دوبارہ رس مانگا۔ وہ لڑکی رس لینے چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد نوشیروان سوچ رہا تھا کہ انار کثرت سے یہاں پیدا ہوتا ہے، اتنا اس میں سے رس نکلتا ہے، اس پر محصول بہت کم ہے، اس میں اضافہ ہونا چاہیے۔ لڑکی رس لے کر آئی تو رس بہت تھوڑا تھا۔ نوشیروان نے دیر سے آنے کا سبب پوچھا اور کہا: ”اتنی دیر اور اتنا کم رس کیوں لائی ہو؟“
لڑکی بولی: ”پہلے میں ایک انار کا رس لائی تھی اوراب یہ کئی اناروں کا ہے اور بڑی مشکل سے نکلا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کی نیت میں فرق آگیا ہے۔“
نوشیروان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے تیسری بار فرمائش کی اور اپنی نیت درست کر لی اور ارادہ کر لیا کہ محصول میں کوئی اضافہ نہ ہو گا۔ لڑکی تیسری بار پیالہ بھر کر لائی اور جلد لوٹ آئی اور بولی: ”معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کی نیت ٹھیک ہو گئی ہے اس مرتبہ خوب رس نکلاہے۔“
لہٰذا اس کہانی سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے اور اپنی نیت ٹھیک رکھنی چاہیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں