ہفتہ وار درس سے اقتباس
جیسا کہ پچھلے درس میں بندہ نے عرض کیا تھا کہ چوک میں کھڑے سپاہی کو ہاتھ ہلانے سے تنخواہ کی شکل میں روٹی ، کپڑا اور اس کی ضروریات زندگی کا سارا نظام مل رہا ہے اور ہر آدمی کو اس کا کامل یقین ہے۔ تسبیح کرنے سے، نماز پڑھنے سے اور سلام کرنے سے جو ہاتھ ہلتے ہیں تو کیا اس سے پلنے کا نظام نہیں بن سکتا۔ آخر ہمیں ان اعمال پر یقین کیوں نہیں ہے؟
یا اللہ تو ہی سب کچھ جانتا ہے
ایک اللہ والے تھے انہوں نے نماز سے پلنے کے بارے میں یہ بات فرمائی، ایک بندہ کہنے لگا کہ حضرت یہ بات تو سمجھ آئے کہ سپاہی جو ہاتھ ہلائے تو اس کو تنخواہ ملے اور یہ بات کیسے سمجھ آئے کہ نماز سے مجھے دو وقت کی روٹی ملے۔ انہوں نے فرمایاتیرا یہ یقین ہے کہ نماز سے جنت ملے گی، کہنے لگا جی بالکل۔ انہوں نے فرمایا تیرا یقین جھوٹاہے۔ جس نماز سے تجھے دو وقت روٹی ملنے کا یقین نہیں ہے، اتنی بڑی جنت ملنے کا یقین کیسے ہو سکتا ہے؟ہم نے تو اپنے یقین کو دھوکا دیا ہے۔ اعمال سے پلنے کا یقین ہو کہ میں یہ سچ کی عبادت کروں گا۔ سچ کی تجارت کروں گا۔ اس کے ذریعے سے اللہ جل شانہ برکت عطا فرمائیں گے۔ اس کی برکت سے اللہ پاک میری نسلوں کو رزق دیں گے اوردوبارہ اس بات کو آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ میرا رب ضرورتیں پوری کرنے میں اسباب کا محتاج نہیںہے۔ آپ یقین کریں کہ میری معالجاتی زندگی میں ایسے ایسے مشاہدات دیکھنے اور واقعات سننے کوملتے ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ پاک کے حضور عرض کرتا ہوں کہ یااللہ تو ہی سب کچھ جانتا ہے۔
ایک اللہ والے کہنے لگے ہم نے لاہور سے خانیوال جانا تھا۔ گرمی کا موسم تھا میں نے ڈرائیور سے کہا نماز فجر پڑھنے کے بعدسفر پر روانہ ہوںگے تاکہ گرمی کی شدت بڑھنے سے پہلے پہلے ہم منزل مقصودپر پہنچ سکیں۔ ہم نمازِ فجر کے بعد لاہور سے خانیوال کیلئے روانہ ہوئے۔ سڑکیں صاف تھیں۔ گاڑیوں کا رش نہ ہونے کے برابر تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی کی اچانک بریک لگائی تو میں نے پوچھا کیا ہوا، ڈرائیور کہنے لگا، سامنے کتا آگیا تھا۔ میں نے ڈرائیور سے کہاتم کو کئی دفعہ سمجھایا ہے کہ جب صبح کوسفر کرنا ہو تو رات کو جلدی سوجایا کرو۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے تمہاری نیند ہی پوری نہیں ہوئی۔ آگے ہوٹل پر گاڑی روکنا میں تم کو چائے پلواﺅں گا۔ اندازاً 35کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد مجھے ہوٹل نظر آیا۔ میں نے گاڑی رکوائی اور ڈرائیور کو چائے پینے کیلئے بھیج دیا۔ میرے جی میں آیا کہ دیکھوں تو سہی کتے کے لگنے سے گاڑی کو کوئی نقصان وغیرہ تو نہیں ہوا۔ کہنے لگے میں نے جا کر دیکھا کہ گاڑی کے بمپر کے اوپر کتا بیٹھا ہوا تھا۔ میرے قدموں کی آواز سن کر اس نے بمپر سے چھلانگ لگائی اور نیچے اتر آیا۔ قریب پڑی چارپائیوں کے نیچے ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں۔ کتا وہ ہڈیا ں جا کر کھانے لگا۔ میں وہاں کھڑا اللہ پاک کی قدرت کا نظارہ کر رہا تھا کہ کیسے اللہ پاک نے کتے کو 35کلو میٹر کے فاصلے پر رزق دیا ہے۔
رزق کی تقسیم
رزق کے متعلق اسی طرح کا ایک واقعہ میرے قریبی دوست نے بتایا کہ ایک دفعہ انہیں اپنی فیملی کے ساتھ کوئٹہ سے لاہور بذریعہ جہاز آنا تھا۔ سیٹیں پہلے سے کنفرم تھیں۔ جس دن کوئٹہ سے لاہور آنا تھا ،گھر میں افراتفری اور بھاگ دوڑ تھی کیونکہ ایئرپورٹ پر جہاز روانہ ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے پہنچنا تھا۔ ان کے چھوٹے بچے کے پاس چنے پڑے ہوئے تھے۔ وہ چنے اچھال کر منہ میں ڈال کر کھا رہا تھا۔ اچانک ایک چنا اس کی ناک میں چلا گیا اور ناک میں اٹک گیا۔ والدہ نے چنا نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام، گھر وا لے سب پریشان کہ اب کیا ہوگا؟ اتنے میں بچے کا باپ بازار سے ٹیکسی لے آیا اور کہنے لگا کہ سامان اٹھاﺅ اور ٹیکسی میں رکھو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فلائٹ ِمس ہو جائے۔ بچے کی والدہ نے بتایا کہ بیٹے کی ناک میں چنا اٹک گیا ہے۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں۔ کوئٹہ سے لاہور بذریعہ جہاز دو گھنٹے کا سفر ہے اور لاہور میں میرا ایک قریبی دوست ڈاکٹر ہے۔ وہ ناک سے چنا نکال دے گا، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ کوئٹہ سے لاہور پہنچنے کے بعدوہ سیدھے اپنے دوست ڈاکٹر کے گھر گئے۔ دوست کے ملازم نے کہا ڈاکٹر صاحب غسل کر رہے ہیں۔اس نے ہمیں مہمان خانے میں بٹھایا ۔ چندمنٹ گزرنے کے بعد باہر سے ایک مرغی اندر داخل ہوئی اور اسی اثنا میں میرے بیٹے کو چھینک آئی اور چنا ناک سے نکل کر مرغی کے سامنے گرا اور وہ چنا کھا گئی۔ ہم سب گھر والے ہکے بکے رہ گئے اور بچہ بالکل تندرست ہو گیا۔
فریضہ حج سے سر درد کا خاتمہ
ایک سفر میں بندہ اپنے شیخ حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ تعالیٰ کے ساتھ تھا۔ انہوں نے عجیب بات سنائی وہ فرمانے لگے میرٹھ (انڈیا) میں ایک صاحب تھے جو بہت بڑے تاجر اور مالدار تھے۔ اچانک ان کو سر درد کی تکلیف شروع ہوئی۔ تکلیف بڑھتے بڑھتے شدت اختیار کر گئی۔ اس نے بڑے سے بڑے ڈاکٹر سے لگاتار علاج کروایا لیکن تکلیف کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی تھی۔ ڈاکٹروں نے جدید دور کے تمام آلات استعمال کیے کہ کسی طرح سے پتہ چل سکے کہ تکلیف کس وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ تمام طریقے ناکام ہو چکے تھے حتیٰ کہ چھ سال گزر گئے۔ اب اس شخص کا جسم نڈھال اور راتوں کی نیند خراب ہو گئی۔ایک بیماری سے دوسری، دوسری سے تیسری، پھر چوتھی ۔ یہاں تک کہ وہ ایک وقت میں بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہو گیا۔ اس کا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا۔ کسی نے اسے مشورہ دیا کہ زندگی کی خبر نہیں اور کچھ نہیں تو حج ہی کر آئیں۔ اللہ پاک سے معافی بھی مانگ لینا۔ پتا نہیں اتنے بڑے مجمع میں کس کے وسیلے سے تمہاری معافی قبول ہوجائے۔ وہ شخص حج کرنے گیا۔ حج کے دوران وہ شخص ندامت بھرے انداز میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ طواف کرتے کرتے اسے زور سے چھینک آئی۔ ایک چاول کا دانہ اس کی ناک سے نکلا اور اس کے سامنے گرا۔ کعبتہ اللہ پر ایک پرندہ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اڑا اور چاول کا دانہ اٹھا کر چلا گیا اور وہ شخص تندرست ہو گیا۔
مندرجہ بالا واقعات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ رزق کا نظام کہیںاور ہے ۔ کس کوکہاں، کب اور کتنارزق ملنا ہے یہ سب لکھا جا چکا ہے اور محفوظ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنے حصے کا رزق حاصل کرنے کیلئے نیک اعمال اختیار کرتے ہیں یا برے اعمال۔ نیک اعمال اختیار کریں گے تو اللہ پاک خوش ہوں گے اور آخرت میں بھی اس کی جزا دیں گے اور اگر برے اعمال اختیار کرکے رزق حاصل کیا تو اللہ پاک اپنے بندے سے ناراض ہوں گے اور آخرت میں اس لیے کوئی جزا نہیں بلکہ اس کاہمیشہ ہمیشہ کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ (جاری ہے )
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں