محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! اللہ پاک آپ کو آپ کی پوری ٹیم کو دین و دنیا کی تمام کامیابیاں عطافرمائے۔ آمین!محترم قارئین! بے شک اللہ کی راہ میں لڑنے‘ مرنے اور مارنے والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ آج ایک ایسے ہی واقعہ کیلئے عاجزہ حاضر ہوئی ہے۔ میری دوست کے ایک بھائی سیاچن کے محاذ پر شہید ہوچکے ہیں۔ اللہ کے اس بندے کو شہید ہونے کی تڑپ بھی کچھ زیادہ ہی تھی۔ اللہ اپنےعاشقوں کی ایسی تڑپ کا اجر ضرور دیتا ہے جیسے کہ انہیں بھی ملا۔ وہ اپنی شہادت سے پہلےایک دن ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم لوگ جب سیاچن کی برف پوش پہاڑی پر کیمپ لگائے ہوئے تو رات کی تاریکی میں دور ایک پہاڑی پر ہمیں بہت پیاری روشنی نظر آئی جیسے کہ اس جگہ پر سوواٹ کا کوئی بلب جل رہا ہو۔ پہلے تو ہم نے توجہ نہ دی مگر جب آپس میں فوجیوں میں اس بات کا ذکر ہوا تو سب نے کہا کہ یہاں اس ویران جگہ میں ایسے کون لوگ رہتے ہیں اور ہم میں سے کسی کے علم میں بھی نہیں؟ اسی شوق و تجسس میں رات گزری اور اگلے دن ہمارے افسر صاحب تین چار فوجیوں کو لے کر اس جگہ پر (جہاں روشنی نظر آتی تھی) پہنچنے کیلئے چل پڑے کچھ سفر طے کرکے ہم جب اس جگہ پہنچے تو خدا کی قدرت کا عجیب نظارہ دیکھ کر حیران رہ گئے کیونکہ اس جگہ ایک بڑے پتھر سے کی اوٹ میں ایک شہید فوجی کی لاش پڑی تھی جس پر ایک ہی زخم یعنی گولی کا نشان تھا اور اس نشان کے علاوہ وہ شہید جسم صاف اور سلامت نظر آتا تھا۔ اس کا چہرہ صاف‘ پرسکون اور پرنور نظر آتا تھا اور لباس بھی سلامت‘ اس کی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی سوئیاں رکی ہوئی تھیں اور سات تاریخ بھی لکھی ہوئی تھی۔ جب اس کی شہادت کا سن چیک کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس کی شہادت کا وقت آج سے تقریباً پچاس سال پہلے کا ہے۔ ہم لوگ بہت احترام کے ساتھ اس کی لاش اٹھالائے اور اس کے لواحقین کو تلاش کیا اور جب ان تک پہنچے تو پتہ چلا کہ اس مجاہد کے دو بیٹے جو اس کی شہادت کے وقت کم عمر تھے اب اپنے پوتوں، نواسوں کے دادا‘ نانا بھی بن چکے ہیں۔ سبحان اللہ! اللہ پاک نے پاک وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے جوان کی لاش کو کس طرح اتنے سال سردی‘ گرمی‘ دھوپ‘ بارش میں محفوظ رکھا بلکہ راتوں کو اس کو روشن بھی رکھا تاکہ کسی موذی جانور سے بھی نقصان نہ ہو۔ سبحان اللہ تیری شان مولا!اسی طرح کا ایک اور واقعہ میرے کزن نے سنایا جو کہ خود پاک آرمی کے جوان ہیں‘ وہ بتاتے ہیں کہ ہمارا ایک فوجی جوان شہادت کے رتبے پر فائز ہوا تو اس کےجسم کا حال یہ تھا کہ لاش لے جانے کے قابل نہ تھی کیونکہ جسم کے کچھ چیتھڑے ہی باقی بچے تھے۔ وہ شہید اپنی بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا‘ بہرحال اس کے جسم کے بچے کھچے ٹکڑے اکٹھے کیے اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ اس کے جسم کی پاک باقیات تابوت میں ڈال کر اس کے گھر پہنچائی گئیں۔ اب اس کی ماں اور بہنیں رو رو کر ہم سے التجا کرتی تھیں کہ ہمیں اس کا آخری دیدار کرادو ان کے حددرجہ اصرار پر ہم نے پریشان ہوکر اپنے افسرصاحب کو طرف دیکھا کہ اب ان ماں بہنوں کو کیا بتائیں اور کیا دکھائیں کہ اپنے پیارے کے جسم کا یہ حال دیکھ کر وہ اور بھی دکھ سے نڈھال ہوجائیں گی۔ ہمارے افسر صاحب نے جب ان کی تڑپ دیکھی تو ہمیں مجبوراً دیدار کرانے کا اشارہ دے دیا اور آخر بے بس ہوکر میں نے چہرے کی جگہ سے تابوت ہٹا دیا مگر جب میں نے تابوت ہٹایا تو اللہ پاک کی قدرت یوں دیکھی کہ(باقی صفحہ نمبر46پر)
(بقیہ: پاک فوج کے شہدا کا واقعہ)
اس پاک فوج کے شہید کا چہرہ جو دراصل چہرے کا ایک حصہ بھی نہ تھا‘ چند گوشت کی بوٹیاں تھیں۔ اللہ پاک نے اس کی ماں بہنوں کی خوشی کی خاطر صحیح سلامت کردیا۔ میں نے جب تابوت ہٹایا تو یہ منظر دیکھ کر میں کافی دیر تک سکتے کی حالت میں یہ منظر دیکھتا رہا۔ پھر اس کی ماں بہنوں کے علاوہ تمام لوگوں نے جی بھر کر اس عظیم شہید کا دیدار کیا۔ سبحان اللہ!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں