فلاح پانے والے:ایک خاتون نے ایک اللہ والے سے پوچھا کہ میرا بچہ جب سکول جاتا ہے تو میرا دل ہروقت اس میں اٹکا رہتا ہے۔ تواس اللہ والے نے فرمایا:’’ کیاکیفیت ہوتی ہے؟‘‘خاتون نے عرض کیا:’’ حضرت ہر پل میرا دل اس کی کیفیتوں میں اٹکارہتا ہے کہ اب سو رہا ہو گا یاجاگ رہا ہو گا، کہیں چوٹ تو نہیں لگی، کہیں گر تو نہیں پڑا، کہیں کھانا، پیاس، پیشاب کی کیفیت ہو گی توچھوٹا بچہ ہے،اگر پیشاب آیاتو کون استنجا کرائے گا، اگر بھوک لگی توکون کھانا کھلائے گا،اگر پیاس لگی توکون پیاس بجھائے گا، کون کیا کرے گا ہر وقت اس میں ہی دل اٹکارہتا ہے۔‘‘تواللہ والے نے فرمایا: ’’میں نے تجھے اللہ‘ اللہ سکھا دیا ہے آج کے بعد تیرادل اللہ کی ذات کی طرف ایسے ہی اٹکا رہے گا جیسے تیرا دل تیرے بچے کے بارے میں رہتا ہے۔‘‘ تو جس کا دل اللہ کی ذات اعلیٰ کی طرف ایسے ہی اٹکا رہے گا وہ فلاح پائے گا۔
اللہ جن کے قریب آتا ہے:ایسا فرد بظاہر دنیا میں ہوگا لیکن اس کا دل اللہ کی ذات اعلیٰ کی طرف ایسا اٹکا ہوا ہو گا جیسے بچے کی طرف اس کی ماں کا دل اٹکا ہوا ہوتا ہے اور ماں ہر پل بچے کے ساتھ نہ ہوتے ہوئے بھی ساتھ ہوتی ہے ۔ہم نے اللہ کو دیکھا نہیں لیکن اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اسی طرح بچہ ہم سے دور ہے اور ہم نے بچے کو دیکھا نہیں لیکن بچہ دور ہوتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ ہے۔ پھر ماں خیال ہی خیال میں اس کا بوسہ لے رہی ہوتی ہے، اسے اپنی بانہوں میں لے رہی ہوتی ہے، تصور ہی تصور میں اس کو نہلا رہی ہوتی ہے،تصور ہی میں اس کو بلا رہی ہوتی ہے ،تصور ہی میںاس کو پہنا رہی ہوتی ہے،تصور ہی میں اس کو کھلا رہی ہوتی ہے۔پھر ایسے ہی اللہ کی ذات اعلیٰ کا تصور ہو جاتا ہے۔ اللہ کی محبت اور اللہ کا تعلق دل میں رچ بس جاتا ہے ۔پھر اس کے لیے محنت کر کے، توجہ کر کے ،مشقت کر کے، مجاہدہ کر کے جب بندہ اس کیفیت میں پہنچتاہے توپھر اللہ اس کے قریب آ جاتا ہے ۔
ضروریات زندگی اور حلال و حرام ذرائع: اب اللہ پاک جل شانہ نے بندے کے ساتھ ساری ضروریات لگا دی ہیں۔ کھانا کھاناضرورت‘ پانی پینا ضرورت ‘ کپڑا پہننا ضرورت زندگی کا نظام ضرورت ہے۔ یہ سب اللہ نے انسان کے ساتھ لگا دیا ہے۔اب اللہ پاک فرماتے ہیں یہ بتا کہ تو حلال کی زندگی میں جائے گا یا حرام کی زندگی میں جائے گا۔پھر اللہ نے اس کو ڈھیل دے دی ۔یہ حرام کے راستے ہیں۔ یہ حلال کے راستے ہیںدونوں بتادیئے۔ حرام کے راستوں میںظاہراً چمک اور لذت بہت نظر آرہی ہوتی ہے لیکن حلال کے راستوں کے اندر ظاہراًکانٹے نظر آ تے ہیں، ان حلال کے راستوں کے اندربظاہر خشکی نظر آ تی ہے، ان راستوں کے اندر ظاہراًکوئی چمک نظر نہیں آ تی۔ اللہ پاک نے صرف دو راستے دیئے ہیں اور ان دونوں راستوں پر اختیار بھی دیدیا ہے اور اختیاربھی تھوڑے عرصے کیلئے دیا ہے ۔اقتداربھی تھوڑا عرصہ دیا۔
ہر عروج کو زوال ہے:یہ حقیقت توجہ طلب ہے !!!انسان اپنے فن میں فنکار بھی ہوتا ہے، کسی سبجیکٹ میںا سپیشلسٹ بھی ہوتا ہے، اپنے فن میں یکتا بھی ہوتا ہے ،کوئی کاریگر ہے جتنی عمر بڑھتی جائے گی کاریگری میں یکتا ہوتا جائے گا، ادھر فن میںیکتا ہوتا ہے۔ ادھر فن میں عروج پاتا ہے تو اُدھر موت کا فرشتہ درو ازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ کہیں یہ دعویٰ نہ کر بیٹھے کہ سب کچھ میں ہی ہوں۔ پھر وہ کاریگر اور اس کی داستان ختم ہو جاتی ہے ۔پھر نیا بندہ آتا ہے۔ وہ کبھی ڈوبتاہے، تو کبھی ابھرتاہے ،پھر اس کا ستارہ چمکتا ہے، پھر وہ استاد کہلواتا ہے ،پھر وہ اپنے فن میں باکمال ہو جاتا ہے۔ پھر یوںہوتاہے کہ موت کا فرشتہ اس کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ۔ ازل سے یہ تاریخ ایسے ہی چلتی آ رہی ہے۔
کیا ہم دنیا میں اس لیے آتے ہیں؟: اب یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہم یہاں بچے پیدا کرنے کی مشین، مال کمانے کی مشین، نوٹ چھاپنے کی مشین، ایک گاڑی سے دوسری، ایک پلاٹ سے دوسرا پلاٹ کیا ہم اس لیے آتے ہیں؟ہم کس لیے آئے ہیں؟ ایک پیغام ہے اور یہ میرے لیے بھی ہے آپ کے لیے بھی ہے، میں بھی اس کا محتاج ہوں آپ بھی اس کے محتاج ہیں ،پیغام یہ ہے کہ ہم کس لیے آئے ہیں دنیا میں؟کیوں آئے ہیںدنیا میں؟
کیا مسلمان اور کافر کی زندگی میں کچھ فرق نہیں؟:کافر سے پوچھا کیوں آیا ؟کہنے لگا اس لیے آیا کہ بڑا ہو جاؤں، لہٰذاکھیلتے کھیلتے بڑا ہو گیا۔ اس کے بعد ماں باپ نے کسی کسب میں لگا دیا،پہلے پڑھانے میں لگایا،پھرکاروبار میں لگایا اس کے بعد شادی کر دی،شادی کے بعد بچے ہو گئے، پھر بوڑھا ہو کر مر گیا بس زندگی ختم۔ مسلمان بھی سوچے کہ کیااس کی زندگی کے دن رات بھی ایسے ہی گزرنے چاہیے؟ تو پھر کافر اور مسلمان کی زندگی میں کوئی فرق ہی نہیںرہا؟ صبح اٹھتے ہی کافر سوچتا ہے کہ آج کا دن کیسے گزرے گا؟ صبح اٹھتے ہی مسلمان سوچتا ہے آج کا دن کیسے گزرے گا؟ کوئی فرق رہا؟ کوئی فرق بھی نہ رہا۔
مسلمان کی زندگی میں امتیاز کیسے آئیگا؟: فرمایا کہ جب کوئی مسلمان صبح اٹھتے ہی دنیا کو، مال کو، چیزوں کو، اسباب کو سوچتا ہے تو ایک فرشتہ جودائیں طرف ہوتا ہے وہ آواز دیتا ہے کہ اے اللہ کے بندے میرے اللہ کو سوچ، اللہ کی سوچ دامن گیر کر کہ میں آج کے دن اللہ کو کیسے راضی کروں گا۔اس وقت ایک شیطان جوانسان کے بائیں طرف ہوتا ہے وہ آواز دیتا ہے خیال کرنا اللہ کو نہ سوچنا، اللہ کی نہ سوچنا۔ دنیا کو سوچ، جو توسوچ رہا ہے بالکل ٹھیک سوچ رہا ہے۔مسلمان فرشتے کی آواز کو نہیں سن سکتا،وہ شیطان کی آواز کوبھی نہیں سن سکتا، فرشتہ اپنی ڈیوٹی پوری کرتا ہے شیطان اپنی ڈیوٹی پوری کرتا ہے۔(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں